پہلی اُجرت۔۔محمد وقاص رشید

فیض جانی نے کہا آج تو پہلی بار اپنی ساری شاپنگ میں خود کروں گا ۔میں نے کہا ٹھیک ہے بچے جو جو آپ کہیں گے میں لے دونگا۔ مارے خوشی کے گاڑی کی فرنٹ سیٹ سے اس نے اچھل کر میرے گال پر پیار کیا۔میں نے کہا بچے احتیاط سے،باقی کا اظہار گھر پر سہی میں گاڑی چلا رہا ہوں ۔اس نے کھانے کی مختلف چیزیں خریدیں اور میرے پاس بل لے کر آیا 2100 روپے۔ میں اسکے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔اسکے گالوں پر میں سرشاری کو مات دیتی فکر مندی دیکھنا چاہتا تھا۔  وہی فکر مندی جو تمام انسانی حواس کے چمن میں احساس کے پھول کھلاتی ہے۔خود غرضی کے کانٹوں کو نمو پانے نہیں دیتی۔ ورنہ بے حسی کی خزاں فرد کے دل سے شروع ہو کر معاشرے کی روح کو مرجھا دیتی ہے۔

میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ جب میرے پیوند شدہ بوٹ ملکی خزانے کے غریب عوام کو دیے گئے جواب کی طرح بالکل ہی جواب دے گئے تو شام میں مرشد جان کے ساتھ نئے بوٹ لینے چلا گیا۔ صرف اپنی تنخواہ سے دورانِ خون کو قائم رکھتے لوگوں کو مہینے کے آخری دن جفا کی تسبیح کے دانوں کی طرح جپنے پڑتے ہیں۔ ہجر کی رات کے تاروں کی طرح گننے پڑتے ہیں۔

لیکن مرشد جان مہینے کے آخری دن ہونے کے باوجود صبح سردی میں مجھے سوفٹیز میں سکول بھیجنے سے بچانے کے لئے بازار لے گئے۔۔براؤن رنگ کے بوٹوں کا مجھے بہت شوق ہوتا تھا اور میں نے ڈھونڈ کر وہی بوٹ پسند کیے ۔انکی قیمت بہت زیادہ تھی غالباً تین سو روپے، پر مجھے پسند بہت تھے۔ سرکار نے لے دیے۔۔۔ لیکن جب گھر آیا تو اپنی خوشی پر انکی فکر ایسی غالب آئی کہ پچھتاوے کا روپ دھار گئی۔  دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگا کہ محض براؤن رنگ کی وجہ سےکیوں اتنے مہنگے لے لئے۔ پچھتاوا جب پانی بن کر آنکھوں سے بہا تو ابو جان کو پتا چل گیا۔۔پہلے ڈانٹا پھر کچھ دیر بعد پیار کیا۔۔۔۔میں اپنے لختِ جگر فیضان کے چہرے پر وہ فکر مندی کے آثار دیکھنا چاہتا تھا ۔ جنہیں پروان چڑھانے کے لیے 2100 کا ہندسہ مجھے 21سال پیچھے لے گیا اور میں نے اسے کہا کہ میرے بیٹے میرے لعل آج رات کو آپ کو ایک کہانی سناؤں گا کہ یہ 2100 روپے کہاں سے چل کر آپ تلک پہنچے۔

رات ہوئی تو دونوں بچے اشتیاق سے کہانی کے لئے میرے پاس آ گئے اور کہانی شروع ہوئی۔
مرشد جان کی ریلوے سے ریٹائرمنٹ پر انہیں زندگی ریاستی مشینری میں گال دینے کے اتنے پیسے ہی ملے تھے کہ اپنی دل میں بستی بڑی بیٹی کو بچوں کی طرح رو رو کر رخصت کرتے اور ایک گہوارہ بنا کر اس میں سر چھپا لیتے ۔بس اسکے بعد مرحلہ گھر کو چلانے کےحساب کا تھا۔انکی پینشن میں ہم تینوں بھائیوں میں سے کم از کسی ایک کو کچھ تقسیم کرنا ہی تھا مہینے کے تیس دنوں کو گزارے سے ضرب دے کر حیات میں جمع کرنے کو لیکن ہم تو تینوں ابھی حاصل سے منفی تھے۔

بچپن میں کبھی اپنے جیب خرچ سے جمع کیے گئے پسندیدہ دو دو روپے کے پانچ چھے نوٹ جمع کر کے والدہ کو ضرورت کے وقت جس دن دیتا تھا اس دن اپنی ریلوے کالونی میں ایسے گھومتا جیسے میں اسکا فاتح ہوں اور فتح کرنے کے بعد آج پہلا دورہ ہے اپنی رعایا کے کوارٹرز میں۔۔۔۔ یا اگر آج کے دور کے سرزمین کے فاتح کاتزکرہ روا ہو تو جیسے ریلوے کالونی بحریہ ٹاؤن ہے اور میں ملک ریاض (خدا نخواستہ) ۔۔۔اس وقت سے دل میں جلد از جلد والدین کا کماؤ پوت بن کر سہارا بننے کا شوق بلکہ جنون تھا۔۔اور وہ شکر خدا کا اس نے پورا کر دیا۔

ڈپلومہ کر کے نوکری کی شدید تلاش تھی۔ شدید سردی میں دھند کا راج تھا۔ایک دن پتا چلا کہ ICI کھیوڑہ میں ڈیسکون کمپنی کو ٹیکنیشنز کی ضرورت ہے۔ اگلے ہی دن صبح سویرے ٹرین پر وہاں پہنچا۔۔سٹیم انجن اور میری بے روزگاری کا اختتام اکٹھے ہوا تھا۔۔ یہ سٹیم انجن سے چلنے والی آخری ٹرین تھی جو صبح سویرے ملکوال سے کھیوڑہ جایا کرتی تھی۔۔۔خیر ICI فیکٹری گیٹ پر ایک آدمی کاغذات جمع کر رہا تھا۔۔اسے اپنے کاغذات دیے اور اس نے کہا۔۔۔ ٹھیک ہے آپ جا سکتے ہیں۔ پراجیکٹ میں بوقت ضرورت کال کر لی جائے گی۔۔

کئی دن ہو گئے بچھڑے ہوئے محبوب کی واپسی کی طرح کال نہیں آئی ۔میں نے خود فون کیا۔۔۔ دو چار دن بعد پھر کیا تو ایڈمن نے مجھے کہا، بھائی بار بار کال کرنے سے کچھ نہیں ہو گا ۔ جب پراجیکٹ مینیجر کہیں گے تو ہی آپ کو بلایا جائے گا ۔میں اسے کیسے بتاتا کہ صاحب، ساٹھ سال کا ایک بوڑھا ریٹائرڈ ہے گھر پر ۔ اس نے حق حلال کی کمائی سے بچپن سے نوجوانی تک نوالہ دیا۔۔اسے پینشن کے خدا نے ابھی اور آزمانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ آزمائش میں کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔  اس نے پہلے سے روح تک مقروض جوان پڑھے لکھے بیٹوں پر ایک ایسا قرض چڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے بوجھ کو سوچ کر ہی بیٹے اندر ہی اندر مرے جاتے ہیں اور وہ یہ کہ اپنے ایک دوست کے ہاں وائیپر بنانے کے کام کا ارادہ کر لیا ہے۔ خدارا پراجیکٹ مینجر سے کہیں کہ زندگی کو اس بار سے بچا لیں۔ میں نے ان سے کہا پراجیکٹ مینجر کا نمبر تو دیجیے پلیز، انہوں نے مجھے نمبر دے دیا اور میں نے اگلے دن پراجیکٹ مینجر سے بات کی۔ ۔ایک جملہ میں نے انگریزی میں بولا اور عربی کے خدا( ملاں جی کے بقول) نے احساس کے کاندھوں کو وہ بوجھ اٹھوانے سے احتراز کرتے ہوئے بہت بڑا احسان کر دیا ۔ وہ جملہ تھا ۔۔
Sir۔۔please I am badly in need of a job۔۔۔۔
پراجیکٹ مینجر نے کہاتم نے انٹرویو ہی نہیں دیا تو جاب کیسی ؟۔ میں نے کہا سر میں ہر طرح کے انٹرویو کے لیے تیار ہوں، کل ہی آ جاؤں انٹرویو کے لیے پلیز ۔۔آپ حکم کریں ۔۔۔وہ ہلکا سا ہنسے اور کہنے لگے۔۔۔آ جاؤ۔

اگلے دن صبح سویرے میں ICI کھیوڑہ پہنچا اور وہاں پر کال کا انتظار کرنے لگا ۔۔ جو کئی گھنٹے نہ آئی۔  آخر لنچ ٹائم ہو گیا۔۔لنچ ٹائم پر میں باہر ہی بیٹھا رہا کھانا کھانے اس لیے نہیں گیا کہ کہیں اس کے دوران نہ بلا لیں۔  دو بجے کے لگ بھگ جب لوگ واپس آئے تو مجھے وہی ایڈمن صاحب ملے اور میں نے انہیں گزشتہ روز کی ٹیلی فونک گفتگو کے بارے بتایا اور تھوڑی ہی دیر میں ،میں پروجیکٹ مینجر کے دفتر میں تھا ۔ جہاں ایک اور فورمین صاحب بھی تھے، مجھے تنخواہ کے بارے میں بتایا گیا۔۔۔ اور یہ کہا گیا کہ کل ڈیوٹی پر آ جانا ،مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔۔۔۔ میں نے کہا سر میں تو۔۔۔ وہ۔۔۔۔ انٹرویو۔  I mean۔۔۔
انہوں نے مسکرا کر کہا کل ٹیلی فون پر تمہارا انٹرویو ہو گیا وقاص۔  میں نے کہا بہت بہت شکریہ سر بڑی عنایت۔۔۔۔ Thank you so very much sir
باہر نکلا تو جو ضروری کاروائی ایڈمن نے کرنی تھی وہ کی۔۔میری نم آنکھوں کو دیکھ کر ایڈمن صاحب بولے۔ کوئی قارون کا خزانہ مل گیا کیا۔۔۔ ؟ میں نے کہا سر وہ تو بہت چھوٹی چیز ہے۔۔۔ You never know۔۔

اپنا کارڈ لے کر باہر نکلا تو واپسی کی آخری گاڑی کا ٹائم ہونے والا تھا۔۔۔ آج ویسے بھی میں چلنا چاہتا بھی نہیں تھا۔  میں بھاگا نہیں اڑا تھا ۔ لوگ حیرانگی سے میری طرف دیکھ رہے تھے مگر میں دیوانہ وار بھاگتے بھاگتے سٹیشن پر پہنچ گیا۔۔۔ اگر کسی نے کھیوڑہ دیکھا ہو تو علم میں ہو گا کہ ICI فیکٹری سے اسٹیشن تک اچھی خاصی چڑھائی ہے لیکن مجھے اب زندگی میں چڑھائیاں ہی تو چڑھنی تھیں۔
گھر آکر جب میں نے یہ بتایا کہ دو دو روپے نوٹوں والے اس لڑکے کو نوکری مل گئی۔۔۔ تو گھر جیسے چہک اٹھا۔۔۔۔امی اور ابوجان بہت۔ ۔بے پناہ خوش ہوئے ۔خدا کا بے انتہا شکر ادا کیا۔  خدا کے شکرانے کی محفل ہے ہی محدود وسائل والوں سے آباد۔۔۔ وہ تھوڑا سا دیتا ہے اور وہ شکر ایسے ادا کرتے ہیں کہ وہ بھی نہ کرتے ہوں جنہیں وہ بہت دیتا ہے۔

اگلا دن صبح سویرے شدید سردی میں ٹرین پر بیٹھا کھیوڑہ پہنچا۔۔یہ معاشی سفر کی جانب میرا پہلا قدم تھا۔۔۔میں اپنے آپ کو یکسر بڑا بڑا محسوس کر رہا تھا۔۔احساسِ ذمہ داری کی تسکین کا فخریہ احساس تھا جو شدید ترین سردی میں من کو حدت دیے ہوئے تھا۔۔۔
مجھے میرے فورمین نے بتایا کہ ابھی instrumentation کے اصل کام کا مرحلہ نہیں آیا۔ لیکن تمہیں جاب کی ضرورت تھی تم نے یہ بات پراجیکٹ مینجر کو اس انداز میں کہی کہ انہوں نے تمہیں بلا لیا۔۔اس لیے کچھ دن تمہیں دوسرے کام کرنے پڑیں گے۔۔وہ دوسرے کام۔۔۔ کھدائی کرنا، ویلڈر کا ہیلپر بننا، موٹی موٹی بھاری کیبلز کے رولز گھمانا ،ان کیبلز کو بچھانا اور اسی طرح کے دوسرے مزدورانہ کام تھے۔حاصل اگر آپ کی اقدار میں سے ہو تو اسکے لیے ادا کی گئی قیمت اوراٹھائی گئی دقت بذات خود ایک قدر بن جاتی ہے۔

خیر پورا مہینہ بغیر چھٹی کیے (پراجیکٹس میں ویک اینڈ بھی نہیں ہوتے) میں صبح پانچ بجے گھر سے نکلتا اور رات 9بجے گھر پہنچتا۔۔خدا خدا کر کے وہ دن آیا جو جزا کا دن تھا۔۔۔لائین میں لگ کر میں جب تنخواہ وصول کر رہا تھا تو پوری زندگی کا اب تک کی معیشت ذہن میں گھوم رہی تھی ماں باپ سے ٹافی کے لیے لی گئی پہلی چونی اٹھنی سے شروع ہو کر آج صبح کے کرائےتک پر ختم ہوتا میرے ان سے لینے کا سفر آج ختم ہو کر دینے کی شروعات بننے والا تھا۔۔۔زندگی میں اتنا فخر آج تک مجھے کسی جگہ محسوس نہیں ہوا جتنا اس لائین میں کھڑے ہو کر محسوس ہوا۔۔ یوں جیسے یہ روز حشر تھا اور میں خدا کے دربار میں اسکی بخشش کی امید لے کر اپنی باری کے انتظار میں تھا۔۔

کیشئر سے اپنی یادگار پہلی اجرت لیتے وقت میرے ہاتھ کانپ رہے تھے اور خیرالرازقین کے شکرانے کا سجدہ آنکھوں سے آنسوؤں نے زمین بوس ہو کر ادا کیا۔۔۔
پیسے لے کر میں باہر آیا۔۔۔ فیکٹری گیٹ سے رکشے میں بیٹھا۔۔میں اب تک صرف سینکڑوں کا آدمی تھا ،ہزاروں کا آج بنا تھا تو دل کی کیفیات اچانک بدل گئیں۔۔۔ جس رکشے میں میں پنڈ دادن خان جانے کے لیے بیٹھا۔۔وہ حالتِ زار میں بہت آہستہ آہستہ رواں تھا۔۔۔ میں بار بار دوسری سواریوں سے نظر بچا کر جیب میں ہاتھ ڈال کر خزانہ ٹٹولتا تھا۔۔۔ایک دفعہ مجھے ہاتھ اندر لے جاتے ڈرائیور نے دیکھا تو میں نے سوچا۔۔۔۔ اوہو اسکا مطلب اسکو پتا چل گیا۔۔۔۔ Oh no۔۔۔ ایک جگہ رکشہ بند ہوا تو مجھے تو جیسے یقین ہو گیا کہ سرد شام کے اس دھندلکے میں جنگلی کیکر وں میں چھپے پہاڑی ڈکیتوں کے گینگ کو مخبری ہو گئی کہ اس رکشے میں سیٹھ موجود ہے۔۔مجھے تو پہلے ہی شک تھا اس ڈرائیور پر کاش کہ دوسرے رکشے میں بیٹھ جاتا۔۔۔ لیکن اللہ کا شکر کہ رکشہ چل پڑا اور میں خدا خدا کر کے پنڈ دادن خان پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔ پھاٹک پر اترا تو ٹرین بالکل تیار تھی۔۔۔ آخری ٹرین کا آج پورے مہینے میں پہلی دفعہ Right time ہونا مجھے سازش کا دوسرا حصہ لگا۔۔ اتنے میں ٹرین نے وسل دی اور میں یہ سوچ کر ہوا کے دوش پر بھاگا کہ آج اگر ٹرین چھوٹ گئی تو سمجھو زندگی روٹھ گئی۔ ایک ہاتھ جیب پر اور دوسرے میں ٹفن۔۔۔ جب میں پلیٹ فارم تک پہنچا تو ٹرین نے چلنا شروع کر دیا۔۔۔لیکن وہ تو بھلا ہو ہماری حکومتوں کا جو جہنمی کافروں کی تقلید میں تیز رفتار ٹرینیں نہیں چلاتے اور اپنے ورثے سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کے عجائب گھروں میں پڑی چیزیں ہماری سڑکوں اور پٹڑیوں پر رواں دواں ہیں کیونکہ حادثات کی صورت میں خدا کی رضا ہے ناں ہمارا بوجھ اٹھانے کو۔۔۔کیونکہ رضا الہی خود پر تھونپے گئے الزامات کا جواب نہیں دے سکتی اور دینے لگے تو راستے میں مزہب کا ٹھیکیداری نظام لٹھ مار کر ہماری فکر کا راستہ روک لیتا ہے۔۔۔

آخری ڈبے کا آخری دروازہ میرے ہاتھ آیا تو میں نے خدا کا شکر کیا۔۔۔۔ جب سے دل جیب کے پیچھے چھپے انسانیت کی جگہ مادیت نے لے لی۔۔ کاش لباس میں جیب دائیں طرف رکھی جائے۔ دھڑکنوں اور سانسوں کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ سوچا کہیں مال و متاع باہر ہی نہ اچھل پڑے ۔ فورا ٹٹولا تو شکر ہے وہیں موجود تھا جہاں وہ آج تک موجود ہے۔ دل کے اوپر نہیں اندر
ٹرین میں لائیٹ نہیں تھی۔۔۔ غریب کے بخت کی طرح مکمل اندھیرا تھا۔۔۔۔ایک ریٹائرڈ ریلوے ملازم کے بیٹے کے ساتھ ریلوے بھی اس گھناؤنی سازش میں شریک ہو گی ، وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔۔بہرحال ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔
ہرن پور اسٹیشن آیا تو وہاں سے ملکوال جانے کے لیے ایک جاننے والا سوار ہوا اسکے بارے نشئی ہونا مشہور تھا۔۔اب تو مجھے ریلوے لائن کے آس پاس پڑے سبھی پتھروں پر لکیر کی طرح یقین ہو گیا جب وہ بالکل میرے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور مجھے پہچان کر بات چیت کرنے لگا۔۔۔۔ اسکے دونوں ہاتھ جیکٹ کی جیب میں تھے اور میں چشمِ تصور سے اسکی جیب سے چاقو ، خنجر یا پستول نکلتا دیکھ رہا تھا۔۔ میں نے بڑے ہی غیر محسوس انداز میں نے پیسے جیب سے نکالے اور بائیں پاؤں کی جراب میں رکھ لیے۔۔۔۔۔آج مجھے ملک میں عام لوگوں کی سیکیورٹی کو لاحق شدید خطرات پر شدید رونا آیا۔۔حکومت کو کم ازکم آج مجھے سیکیورٹی دینی چاییے تھی۔۔۔
خیر جی۔۔۔۔ خوابوں کی نگری ملکوال آ ہی گیا۔۔میرے بس میں نہیں تھا کہ پہلا قدم ٹرین سے نیچے رکھوں اور دوسرا اس در پر۔۔۔ جہاں سے میں دے کر بھی لینے والا ہی رہوں گا۔۔۔۔ ادا کر کے بھی مقروض۔۔
وہ بے قرراری لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔۔۔ اور اضطراب سطروں میں پرویا نہیں جا سکتا۔۔۔ میں یہ خزانہ جلد از جلد ان قدموں میں بیٹھ کر ان ہاتھوں میں رکھنا چاہتا تھا جن پر پڑی جھریوں میں میرے بچپن ،لڑکپن اور نوجوانی کے بیس سالوں کی داستان ہے۔۔ میں ان آنکھوں میں آج شکرانے کی نمی کو اپنی روح کو سیراب کرتا دیکھنا چاہتا تھا جن کی بنیائیاں مجھ پر نچھاور ہوئیں۔۔میں اپنے خواب کو تعبیر ہوتا دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک سنسنی تھی جو رگ و پے میں سنسنا رہی تھی۔ایک سرشاری تھی جو انگ انگ میں محوِ رقصاں تھی۔یہ بچپن میں دیکھے گئے ایک خواب کی تعبیر کا سماں تھا۔۔۔آستانے کے دروازے دستک دی۔۔۔ ماں کی آواز یہ نہیں تھی کہ کون۔ ۔ “جی بسم اللہ کراں ” اور دروازہ کھل گیا ۔اسلام علیکم مجھے پہلی تنخواہ مل گئی امی جی، یہ کہہ کر میں ماں کے گلے لگ گیا۔  زندگی میں ہر کام جفا کشی کی حد تک کرتی عورت نے زبان اور آنکھوں دونوں سے ماشاللہ کہنا شروع کر دیا۔  اندر پہنچا تو مرشد جان نے اٹھ کر جو کہسار جیسے سینے سے لگایا تو اگلی سات نسلوں کی روح تک مسیحائی کی تاثیر پہنچ گئی۔  گلے لگتے کانوں کے پاس بوسہ دیا تو وہ لمس آج بھی ایک تمغہ بن کر وہیں پر براجمان ہے۔۔  الحمدللہ کہنے کی وہ آواز آج بھی مجھ گنہگار و کج عمل کی طرف سے خدا کے حضور پیش ہو کر مہر و عطا سے دامن بھرہی لاتی ہے ۔میں نے جلدی سے پیسے نکال کر جو نزرانہءِ عقیدت کی طرح پیش کیے تو جو اس معتبر کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔۔وہی گریجوائٹی ، وہی پراویڈنٹ فنڈ اور وہی میری پینشن ہے۔  انہوں نے اس فاتحانہ مسکراہٹ سے اس “خطیر رقم ” کو پکڑا اور بغیر گنے امی کے ہاتھ پہ رکھ دیے۔  جسے انہوں نے اپنے  مخصوص انداز ،ایک کی بجائے “برکت” کے لفظ سے آغاز کر کے گننا شروع کر دیا۔۔
جانتے ہو بچو وہ خزانہ وہ خطیر رقم وہ متاعِ حیات وہ اثاثہءِ زیست وہ میری پہلی اجرت کتنی تھی۔۔۔
پورے 2100 روپے بیٹے۔۔۔ پورے 2100 روپے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply