آزادی کے۷۵ سال اورمسلمان۔۔ابھے کمار

گزشتہ دنوں بھارت کی آزادی کی ۷۵ ویں سال گزر جانے کا بڑا جشن منایا گیا۔ ہر طرف لوگ قومی پرچم لیے ملک پر اپنی جان قربان کر دینے والے مجاہد آزادی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ یہ موقع تھا جب لوگوں نے ملک کے حالات پر بھی سوچا۔ خاص کر محکوم اور اقلیتی سماج نے اپنے حالات اور مسائل پر بات چیت کی۔ اہم سوال یہ تھا کہ ان سالوں میں محکوم طبقات کو کیا حاصل ہوا؟دلت، آدیواسی اور دیگر مظلوم طبقات کی طرف مسلمان بھی تعصب اور نا انصافی جھیل جا رہا ہے۔ مسلمان اس بات سے دکھی ہیں کہ ملک کی سیاسی جماعت اسے کھلنایک بنا کر اپنی ساری کمیوں پر پردہ ڈال رہی ہے۔

مسلم مخالف تعصب سسٹم میں کئی دہایوں سے جڑ جمع چکا ہے۔ رفتہ رفتہ فرقہ پرستی کا زہر ملک کی رگوں میں پھیلتا گیا۔ اب تو سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کے مسائل اوران کے حقوق پربولنا بند کر دیا ہے۔ ملک کے مسلمانوں کے اندر یہ تاثرات پائے جا رہے ہیں کہ وہ اس ملک میں ہندوؤں کے برابر نہیں ہیں۔ جہاں ملک میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا تقریباً ۱۴ فی صد ہے، وہیں ان کی نمائندگی سرکاری نوکریوں، پارلیمنٹ اور اسمبلی اور دیگر سرکاری ادارؤں میں پانچ فی صد سے بھی کم ہے۔ کالج، یونیورسٹی میں ان کی تعداد ندارد ہے۔ کئی معاملوں میں ان کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔ وہیں دوسری طرف، وہ اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ جیل میں قید کیے گیے ہیں۔ انہیں انسداد دہشت گردی کے جھوٹے کیس میں مسلسل پکڑا جا رہا ہے۔ یو اے پی اے کے کیس میں مسلم نوجوان کا مستقبل خراب کیا جا رہا ہے۔ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے مسلمانوں کو سالوں سال جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ پانچ سال، دس سال، اور کچھ معاملوں میں پندرہ سال کے بعد ایک دن ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب ان کی رہائی ہوتی ہے تو وہ سنگل کالم کی بھی ایک خبر نہیں بن پاتی ہے۔

مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کا اعتماد مین اسٹریم میڈیا سے کافی کم ہو گیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ملک کے حالات کو کشیدہ بنانے اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے میں میڈیا آگے آگے رہتا ہے۔ وہیں میڈیا مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی پر شاید ہی کوئی خبر دکھاتا ہے۔ میڈیا مسلم خواتین کی حالت پر بڑا آنسو بہاتا ہے، مگر اس نےشاید ہی کبھی مسلم خواتین کی شرح خواندگی، روزگار، غربت پر کوئی کمپین چلایا ہو۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی میں اس بات کا بڑا غصہ ہے کہ مسلم خواتین کی مظلومیت کاپوسٹر میڈیا اور سیاسی جماعت ہرطرف چسپاں کرنے میں آگے رہتے ہیں تاکہ مسلم کمیونیٹی مزید ذلیل ہو، مگر کبھی ان خواتیں کے ٹھوس مسائل پر وہ کچھ نہیں کہتے۔ تین طلاق کے معاملے میں مسلم مردوں کے لیے سزا کا قانون تو بن گیا مگر مسلم خواتین کی راحت اور بازآبادکاری کے لیے ایک روپیہ کا بھی بجٹ نہیں بنایا گیا۔

مسلمانوں کے اندر کچھ لوگ ایسا بھی سوچ رہے ہیں جو وہ جھیل رہے ہیں وہ ان کے بچے نہ جھیلیں۔ کچھ پیسے والے تو یہ چاہ رہے ہیں کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر کسی اور ملک میں بس جائے۔ان کو اس بات کا ڈر ستاتا ہے کہ آزاد بھارت میں مسلم مخالف دنگوں کا سلسلہ آج بھی بند نہیں ہوا ہے۔ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں فساد اس ملک کاعام ہندو اور مسلمان نہیں کرتا، بلکہ اسے سیاسی مفاد کے لیے کرایا جاتا ہے، جس میں پولیس، انتظامیہ اور سرکار پوری طرح سے ملوث ہوتی ہے۔ لوگوں ٰ٘کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ فرقہ پرست پارٹی کے علاوہ سیکولر پارٹیوں نے بھی دنگا کراکر انہیں برباد کیا ہے۔ تشدد کا یہ سلسلہ اب بھی رکا نہیں ہے۔کہیں گوشت کے نام پر، تو کہیں ایک خاص نعرہ، جو مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے خلاف ہوتے ہیں، کے نام پر، اکثر مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ پولیس جہاں سرکار مظلوموں کو انصاف دلانے کے بجائے حملہ آوروں کو بچاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ سب باتیں مسلمانوں کو اندر سے ہلا رہی ہے۔

مگر مایوسی کے اس عالم میں دور کہیں جلتا ہوا امید کا چراغ بھی نظرآ رہا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ مسلمان سسٹم کی ناانصافی سے پوری طرح مایوس ہیں، مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر میں ایک بڑا اہم مثبت بدلاؤ بھی نظر آ رہا ہے۔ اس بدلاؤ کے پیچھے بلا شبہ نوجوان اور خاتون ہیں، وہ سابقہ قیادت کے مقابلہ میں زیادہ فعال نظر آ رہے ہیں اور ان کے اندر اپنے ملک اور ملت کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ پایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، یوم آزادی کے موقع پر مجھے تاریخی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آس پاس کے علاقے، جیسے اوکھلا، ابوالفصل، شاہین باغ، ذاکر نگر، جانے کا موقع ملا۔ میرے کچھ جے این یو کے ساتھی مدرسہ سے فارغ بچوں کے لیے خصوصی کوچنگ ان علاقوں میں چلاتے ہیں۔ کوچنگ میں فارغین مدرسہ کو جے این یو، جامعہ، دہلی یونیورسیٹی، اے ایم یو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سینٹرل یونیورسیٹی اوردگیر ملک کے بڑے تعلیمی درسگاہوں میں داخلہ ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے خصوصی تیاری کرائی جاتی ہے۔

۱۵ اگست کے موقع پر مجھے مذکورہ کوچنک میں منعقد ہوئے ایک تقریب میں مدعو کیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا توبڑی پریشانی محسوس ہوئی کہ اتنی چھوٹی سی جگہ میں یہ بچے کیسے پڑھائی کرتے ہیں۔ مگر تھوڑی دیر بعد، جب میں نے ان بچوں کے چہروں پرحوصلہ اور امید کی روشنی دیکھی، تو میرے دل کو بہت سکون ملا۔ نوجوان بچے بڑے جوش کے ساتھ، اپنے ہاتھوں میں قومی پرچم اورغبارے لیے ہوئے بیٹھے تھے۔ کچھ آپس میں بات کر رہے تھے، تو کچھ دیگر مٹھائی کھانے میں مصروف تھے۔ بعد میں کوچنگ کے ذمہ داروں نے بتا یا کہ یہاں پر پڑھنے والے زیادہ تر بچے غریب گھر سے آتے ہیں۔ بہت کے پاس کتاب خریدنے اورروم کرایہ پر لینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ مگر ان کے اندر کچھ کرنے کا بڑا جنون ہے۔ مدرسہ کے یہ بچے بڑے ذہین ہیں۔ وہ بہت ساری زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں۔عربی، اردو، ہندی اور انگریزی وہ بول سکتے ہیں۔ ان کے اندر میں سوشل سائنس پڑھنے کا بڑا شوق پایا گیا۔ ان میں سے بہت سارے بچے یو پی ایس سی اور دیگر امتحانات کی تیاری کر ملک کی تعمیر میں اہم رول ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے دیگر صحافی اور ٹیچر بن کرمعاشرہ کے لیے مشعل راہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب میں کوچنگ سے باہر نکلا تو پاس میں ہی مسلم ملی رہنماؤں کی ایک بڑی میٹنگ چل رہی تھی۔ مینٹنک کا عنوان تھا بھارت کی آزادی کے پچھترسال اور آڈیا آف انڈیا۔ اس پروگرام میں مقرین نے مسلم مسائل سے جڑی بہت ساری باتیں کیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ مگر اس میٹنگ سے امید کا ایک سر چشمہ بھی پھوٹتا ہوا نظر آیا۔ بہت سارے مقررین نے کہا کہ مسلمان بھارت جیسے ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں رہتے ہیں، جس کا آئین سب کو برابری کے حقوق دیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کے اوپر حملے ہورہے ہیں، مگر ظلم کے شکار دلت، آدی واسی، اور دیگر محروم طبقات بھی ہیں۔ مینٹگ کے دوران جس بات پر بار بار زور دیا گیا وہ یہ کہ مسلمان اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر مظلوم طبقات کے مسائل پر بھی ساتھ آئیں اور آپس میں اتحاد پیدا کریں۔ سی اے اے کے خلاف مسلم نوجوانوں کی قیادت میں جو تاریخی اور انقلابی تحریک چلائی گئی، اسے بھی مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ وہاں موجود لوگوں کو اس بات کا یقین دیالا گیا کہ انہیں ڈرنے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے۔ اس ملک میں مسلمان ۲۰ کروڑ ہیں، اتنی بڑی آبادی کو دنیا کی کوئی طاقت صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتی۔ اس لیے مسلمانوں کو ڈر اور خود کو ترک کر ملک اور ملت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ان باتوں کو سن کر مجھے یہ محسوس ہوا کہ رات کے بعد دن ضرور آتا ہے۔ اگر مسلمانوں کے اندر سسٹم کے تئیں مایوسی پائی جاتی ہے، تو ان کے اندر میں امید کے چراغ بھی جل رہے ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply