گُولُوپائی ۔۔جاویدخان

ساڑھے چار فٹ کاقد،گول گول سر،بیضوی چہرہ،اس پر سفید داڑھی۔چھوٹے چھوٹے ہاتھ اَور ان کی موٹی کھردری اُنگلیاں اُن کیساتھ ایک دہقان کاسااَنگوٹھا۔ہاتھوں سے مشقت کی بو آئے۔یہ تھے گل محمد خان۔جن کے نام کی پہاڑی تصغیر ہی معروف ہوگئی تھی۔یعنی گل محمد خان سے گُولُو بنادیے گئے تھے۔اَور اسی نام سے مقبول ہوئے۔ہاں لوگوں نے ساتھ پائی (بھائی) کااضافہ بھی کردیا تھا۔

یوں ہر خاص و عام کے وہ”گولو پائی“ تھے۔مَیں نے انھیں تب دیکھا۔جب میں پہلی بار علاقے کے واحد گرلزمڈل ا سکول میں داخلے کے لیے گیا۔وہ وہاں چپڑاسی تھے۔سکول ایک پہاڑی ندی، جوہمہ وقت اُجلاپانی لیے بہتی تھی کے کنارے واقع تھا۔ایک پتھر کاترشا ہواپرنالہ چشمے کے آگے لگا رہتاتھا۔اسکول کے طلباوطالبات یہیں  سے پانی پیتے رہتے تھے۔صرف تدریسی عملے کے لیے گھڑا بھر کر سکول کے دفتر میں رکھ لیاجاتاتھا۔یہ دفتر تدریسی عملے کابھی تھااَور صدرمعلمہ کابھی۔اَور یہ پانی گُولوپائی ہی بھرتے تھے۔اسکول سے کچھ اُوپر تک چھوٹی سی کھڑی چڑھائی تھی۔پھر چھوٹاسابازار تھا۔اُستانیاں تدریسی وقفے کے دَوران کھانے پینے کے لیے کچھ منگواتیں تھیں۔یہ سامان لانے کی ذمہ داری بھی اِنہی کی تھی۔اَندازاً چار سو کے قریب طالبات اَور دُوسری جماعت تک کچھ طالب علم تھے۔ان کی ایک بڑی تعداد دورانِ وقفہ بازار   سے کچھ نہ کچھ منگواتی تھی۔فروٹ،بیکر کاسامان،پکوڑے،سموسے اَور قلفیاں۔مگر وہ ایک ایک طالبہ اور استانی کاسامان اَور بقایا یاد رکھتے تھے۔اسکول میں چھٹی کے بعد وہ گھر گھر لوگوں کاسامان لے جاتے تھے۔ایک گدھا اس مقصد کے لیے انھوں نے لے رکھا تھا۔چنانچہ گھر گھر اُن کاگدھا اسکول کے اوقات کار کے بعد سامان پہنچایا کرتا۔

اُن کاایک ہی بیٹاتھا۔جو ابتدائی عمر میں ہی بیرون ملک چلاگیااَورمحنت مزروری کرتارہا۔ہر گھر میں وہ بزرگ اَور بڑے کے طور پر داخل ہوتے۔اَگر کسی گھر میں سامان لے جاتے تو فقط ایک گدھے والانہیں بلکہ ہر عام وخاص کے گولو چاچایا گولو پائی تھے۔عورتوں اَور بچیوں کو  نصیحتیں کیاکرتے تھے۔مذاق انُ کے مزاج کاحصہ تھا۔لہٰذا ان کے ہم عصر اَور ہم عمر اُن پر پھبیتیاں کستے اَور ان کے جوابی فقروں سے محظوظ ہوتے۔ہم عمر بزرگوں سے ہم نے انھیں چہلیں کرتے دیکھا۔اَکثر جاننے والے بچوں اَور بچیوں سے ترنگ میں پوچھتے ”ما وی بال دیامیا۔۔۔!مراد تُمھاری ماں بھی ٹھیک ہے۔۔۔!جانے کیوں انھوں نے کبھی کسی سے باپ کانہیں پوچھا۔؟

میرے گھر کے سامنے مغربی سمت کسی گم نام صوفی خاندان کامزار ہے۔گولو پائی شام ڈھلتے اپنے گدھے کے ساتھ وہاں سے گذرتے اَور پیاری لَے میں پنجابی اَور پہاڑی دوہے پڑھتے جاتے۔سورج اپنی آخری لالی چھوڑتے ہوئے مغرب میں ڈھل رہا ہوتااَور گولوپائی زندگی کی شام ڈھلنے کے حوالے سے کوئی صوفیانہ کلام پڑھتے ہوئے گذرتے۔ڈھلتی شام،ڈوبتاسورج،مزار اَور گولو پائی کے دیسی لَے میں درد بھر ے اشعار۔ماحول اس ڈھلتی زندگی کانوحہ لگتا۔اَگرچہ ہم چھوٹے چھوٹے تھے۔لیکن کلام ہمارے لڑکپن کو بھی ڈھلتی شاموں کے ماحول میں لے جاکر اسیر کر دیتا۔ہم کھیلتے کھیلتے رُک جاتے اَور گولو پائی کاکلام سننے لگتے۔شام کو باؤلی اَورچشموں سے پانی بھرتی خواتین بھی رک کر ماحول کو اُداس کرتے اشعار سننے لگتیں۔جہاں جہاں تک اُن کی آواز جاتی۔وہاں وہاں تک یہ ماحول کو اسیر کر تی جاتی۔اُن کی آواز میں ساز تھااَورسوزبھی۔ان کاگھر بازار سے کافی نیچے پگ ڈنڈیوں سے گزر کر پھاپھڑیلہ (محلے کانام) میں آتاہے۔لہٰذا وہ گاتے گاتے گھر پہنچتے۔صبح سویرے مختلف گراؤں (گاؤں)سے طلباء و طالبات علاقے میں موجود واحد بوائز ہائی اسکول اَور گرلز مڈل اسکول کارخ کرتے۔اکثر طلباء گُولُوپائی سے ان کے گدھے پر سواری کرنے کی درخواست کرتے رہتے۔بعض اوقا ت وہ یہ درخواست قبول بھی کرلیتے۔اکثر نیم معذور طالب علم کو جوسیکڑوں میں کوئی ایک آدھ ہوتا،زیادہ ترجیح دیتے۔ان کاقد اتنا چھوٹا تھا کہ چارپائی پر بیٹھتے تو پاؤں زمین سے کافی اُوپر اُٹھے ہوتے تھے۔مگر اس ساڑھے چار فٹ کے درویش وجود میں،ملنے والوں کو ایک بڑا آدمی ہی ملتا۔علاقائی تاریخ،کہانیاں،کہاوتوں اَور پہاڑی اکھان (ضرب المثال)سے مجلس میں اپنا قد ہمیشہ اُونچا کردیتے۔

ہم دوسال بعد وہاں سے بوائز ہائی سکول سون ٹوپہ میں چلے گئے۔جو گرلز مڈل سکول سے تھوڑے فاصلے پر ایک پہاڑی پر واقع ہے۔سکول،کالج اَور پھر عملی زندگی کے بکھیڑے۔ابتداء میں تو اُن کاگدھا گھر آٹالے آتاتو اُن سے علیک سلیک ہوجاتی۔پھر یاد نہیں وہ کب ملازمت کی مدت پوری کر کے گھر چلے گئے۔شاید اسکول کے بعد گدھابار برداری کرتارہااَور وہ اس شغل میں مصروف ہوگئے۔پھر گدھا بیچ دیا۔کیوں کہ صاحب زادے نے باورچی خانہ چلانے کی کلیتاً ذمہ داری لے لی تھی۔اُس عرصے میں بیرون ملک ملازمت پر جانے والاکافی خوش قسمت سمجھا جاتاتھا۔اَور وہ گھرانہ  مال دار تصور کیاجاتاتھا۔یوں اُن کی زندگی معاشرے کی نظر میں قدرے خوش حالی کی طرف گامزن ہوگئی تھی۔زندگی اپنے ڈگر پر چلتی رہی۔ایک پختہ سڑک ان کے گھر سے مرکزی شہر تک بن گئی۔لہٰذا اَب جمعہ کی نماز وہ مرکزی شہر راولاکوٹ میں پڑھنے لگے۔پھر اطلاع ملی کہ  وہ بیمار ہیں۔ایک دوست کے ہمراہ میں تیمارداری کے لیے گیا۔مدت بعد وہ چارپائی پر پڑے ویسے ہی تھے۔مگر یہ نظر کادھوکاتھا۔وہ معذور ہوچکے تھے۔البتہ بولتے اُسی کڑاکے کے ساتھ تھے۔بس بستر سے اُٹھ نہ سکتے تھے۔اس کے باوجو د انھوں نے اپنے ماضی سے پردے سرکانے شروع کردیے۔اپنی    دلچسپ آپ بیتی سنائی۔داستان یوں تھی۔۔

جب پاکستان بنا تو میں ۱۱ سال کاتھا۔ہم پانچ بھائی تھے۔ہمارے دادے بھی پانچ بھائی تھے۔مَیں نے ڈوگرہ راج میں آنکھ کھولی۔یہاں پھاپھڑیلہ (اُن کامحلہ)میں برہمن ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ان کے سارے گھر پیلی (جگہ کانام) میں تھے۔جہاں آج صاؤ  چچا (ایک مرحوم بزرگ)کاگھر ہے۔وہاں تک سارے گھر برہمنوں کے ہوتے تھے۔جہاں آج کل صاؤ چچا کی  بہو رہتی ہے نا۔۔ ؟یہ جگہ برہمنوں کی ہی تھی۔برہمن جب بھاگے تو اُن کے سارے ڈنگر (پالتو جانور) ہمارے لوگوں نے ذبح کرکے کھالیے تھے۔وہ (برہمن) چنگے لوگ تھے۔ہم اُن سے پیسے ادھار لیا کرتے تھے۔ہمارے میرولی نے ٹیسرو برہمن سے پانچ روپے اُدھار لے کر عید منائی تھی۔تھے ہندومگر دل کے بادشاہ تھے۔اَنڈوں کی ڈھیریاں اَورمُرغے لاتے تھے۔وہ ہماری پکی ہوئی نہیں کھاتے تھے نہ ہم اُن کاپکاہوا کھاناکھاتے تھے۔ہم اُن کے گھر جاتے تو اَخروٹ،خوبانیاں اَور سوکھا راشن کھلاتے تھے۔جمعدار برہمن نے ایک مرتبہ ہماری زمین ہیلی (بیجائی کی)تھی۔میرے اَبّانے اس سے کہا۔جمعدارا۔۔۔۔۔!اِس بار میری زمین بیٹھی (بغیر بیجائی کے) رہ جائے گی۔۔۔؟دوسرے دن جمعدار نے دو جوڑیاں بیل لائے اَور آنا ًفاناً زمین ہل کر (بیجائی کرکے) چلاگیا۔

وہ بھی ہماری زبان (ٹھیٹھ پہاڑی)بولتے تھے۔ہم اپنی شادیوں میں انھیں خشک راشن دیتے تھے۔اور وہ خود پکا کر کھاتے تھے۔وہ دسہورے (محرم کے ایام)بناتے تھے۔اَور روزے بھی رکھا کرتے تھے(رمضان کے نہیں ان کے اپنے مذہب کے مطابق)۔برہمنوں سے ہماری دشمنی نہیں تھی۔ہماری دشمنی توڈوگروں سے تھی۔جو حکمران تھے اَور انھوں نے ہمارے سبزعلی اَور ملی خان کی کھالیں کھینچی تھیں۔بڑے گوشت پر پابندی تھی۔اُن کے بُت اُن کے قبرستانوں میں ہوتے تھے۔جدھر وہ اپنے مُردوں کو جلاتے تھے۔مرنے والوں کو جلانے کے بعد اُن کی راکھ گنگا دریا میں بہاتے تھے۔اُن کاکوئی بڑا نمبردار (مذہبی نمائندہ)یہ خاک گنگا لے جاتاتھا۔

برہمنوں کے بچے اَور ہم اکٹھے کھیلے ا َور پڑھے۔برہمن ہی سکولوں میں اُستاد تھے۔جہاں آج کل نسیم لوگوں کاگھر ہے۔وہاں سکھوں کاگھر ہواکرتاتھا۔سارے سکھ اَور برہمن پڑھے لکھے ہوتے تھے۔اَور اَکثر اُستاد تھے۔سون ناڑہ کے اسکول میں مونگ لال،چُونی لال اَور کانسی رام اُستاد تھے۔

مونگ لال چونی لال کاوالدتھا۔ہماراگھر اس وقت کلر (محلہ) میں ہوتاتھا۔اَور یہ اساتذہ مینجاڑ (گاؤں)میں رہتے تھے۔ یہ اُترتے چڑھتے ہمارے محلے کے بچوں کو سبق پڑھاکر جایا کرتے تھے۔آج کل کے مسلمانوں سے دس گنا اچھے تھے۔اگر رنگڑ (مینجاڑ گاؤں اَور کلر کے درمیان نالہ)چڑھ جاتی تو یہ اساتذہ ہمارے گھروں میں رہ جاتے تھے۔پانی چھڑکاؤ کرکے خودپکاکرکھاتے اَور صبح اسکول چلے جاتے۔

ایک مرتبہ میرے والد نے ماسٹر کانسی رام کو کہا۔کانسی رام!میرے بیل کاجوڑ نہیں ہے۔دوسرے دن کانسی رام نے ایک بیل 30 روپے میں لاکر دیا۔واہ کیابیل تھا۔1947؁ء میں ہم کلر (محلہ) میں رہتے تھے۔پھاپھڑیلہ میں کسی برہمن کونہیں جلایاگیا۔ترَنی (گاؤں کانام)میں برہمنوں کو جلایاگیا۔ماسٹر چونی لال کو جس گھر میں بند کیاگیاتھا۔وہاں سے اُسے ایک گیتی (کدال) ملی۔اُس کی مدد سے اس نے دیوار توڑی کچھ دوسرے لوگوں کو بھی نکالااَور خودبھی نکل گیا۔

برہمن گوپی کی لڑکی بہت خوب صورت ہوتی تھی۔ہمارے کئی مسلمان لڑکے اُس سے شادی کے خواہش مندتھے۔متیال میرہ والے نور محمد اَور میرمحمد نے رشتہ مانگا۔مگر لڑکی کے باپ گوپی نے انکار کردیا۔

جہاں دو کھڈیاں (دو ندیاں) ملتی ہیں۔وہاں اُوپر برہمن اپنے مردوں کو جلایاکرتے تھے۔اَور جس گھڑے سے مٹی کاتیل پھینکتے تھے۔وہ گھڑانیاہوتاتھا۔جب لاش جلنے لگتی تو گھڑاتوڑ کر اُسی میں ڈال دیتے تھے۔ہنسوٹا(حسن محمد)اَور نییم خان کے بھائی ایوب خان کو کسی حکیم نے بتایاکہ تم بہت دبلے ہو تمھیں سوکھے کی بیماری ہے۔تم کالی گائے ذبح کر کے اس کاخون پیو تو موٹے ہو جاؤگے۔(شاید یہ شرارت تھی۔)ان سب نے کرتارا کی کالی گائے ذبح کرکے کھالی۔کرتارا نے مقدمہ کرلیا۔ان سب لڑکوں کو ڈوگروں نے پکڑ کر بہت مارا۔

اس بیچ کسی بَسم داس اَور گیارویں والے پیر صاحب کی آنکھوں دیکھی کرامت لے آے۔برہمن بَسم داس کی پانچ بھینسیں تھیں اَور ایک بھینسا۔جہاں دوندیاں ملتی ہیں۔وہاں بارشوں کے موسم میں طغیانی کے دوران یہ پانچ بھینسیں اَور ایک بھینسا بہہ گئے۔بَسم داس لگا اپنے گُرو کوپکارنے تھم گرو۔۔۔!تھم گرو۔۔۔!تھم گرو۔۔۔!مگر کچھ نہ ہوا۔پھر اپنے سارے بتوں کو پکارا۔کوئی فائد ہ نہ ہوا۔بھینسیں بہتی رہیں۔آخر بَسم داس نے ہمارے گیارویں والے پیر صاحب کو پکارا۔یاگیارویں والیا۔۔!قسم اللہ کی اُسی۔۔۔وقت اُس کی پانچ بھینسیں اَور ایک بھینساکنارے جالگا۔اُس کے بعد وہ ہر

سال گیارویں پکاکر مسلمانوں کو بلاتااَور اُن سے ہی دعاکرواتااَور گیارویں کھلاتا۔بَسم داس کااپناجندر تھا۔جہاں سے لوگ مکئی پسوایاکرتے تھے۔

میرے ذہن میں ایک سوال آیا جو برہمن مسلمانوں کاپکا نہیں کھاتے تھے اَور جو مسلمان برہمنوں کاپکانہیں کھاتے تھے۔وہ بسم داس کی گیارویں کیسے کھاتے تھے۔؟ مگر سوال درمیان میں ہی رہ گیا۔گولو پائی بولے۔اُس وقت جب کوئی سرکاری آفیسر آیا تھاتو سب گاؤں یامحلے والے مل کر رستہ یا سڑک بناتے تھے۔ اُس وقت نوٹوں پر مہاراجے کافوٹو ہوتاتھا۔کھوٹے اَور کھرے سکے کی پہچان کرنے کے لیے سکہ اچھالتے تھے۔اَگر سکہ چھنک جاتاتو وہ اصلی ہوتا۔اَگر نہ چھنکتاتو کھوٹا۔اُن وقتوں میں ہم لوگ اَپنے چاول کاشت کرتے تھے۔کیابرہمن کیامسلمان سب بناسپتی،دُگا،چینسن،رانجااَورسُوگا۔ہم یہ ساری قسمیں کاشت کرتے تھے۔رانجازیادہ اچھاچاول ہوتاتھا۔اُس کااَورا(پانی)سُرخ ہوتاتھا۔

میری شادی جب ہوئی تومیں 18سال کاتھا۔میری شادی میں اپنے گھر کے پالے ہوئے بکرے اَور مینڈے ذبح کرکے پکائے گئے تھے۔علاوہ دیسی گھی،چاول اَورشکر بھی تھی۔سفید اُبلے ہوئے چاول بڑی بڑی پراتوں جو مٹی کی ہوتی تھیں،میں ڈال کر اُن پر اُوپر سے دیسی گھی اُنڈیلتے تھے۔اَور پھر اس پر شکر ڈال کردیتے تھے۔یہ کھانا بہت لذیذ اَور طاقت ور ہوتاتھا۔
مَیں نے پوچھا چپراسی کی نوکر ی کیسے ملی۔؟

بولے تھُب والے غازی سردار محمد افضل خان صاو نے لگوایاتھا۔تب اسکول نیانیابناتھا۔اُس وقت میری تنخواہ 362 روپے تھی۔ہیڈماسٹرانی کی تنخواہ ہزار  روپے ہواکرتی تھی۔باقی اُستانیوں کی تنخواہ 600 یا700 ہوتی تھی۔تھانے دار نواز صاحب کی لڑکی ہیڈماسٹرانی تھی۔اس نے مجھے کہا۔ہم چپڑاسیوں سے گھر کاکام بھی کرواتے ہیں۔مَیں نے کہاکُڑیے تمھارے سارے رشتہ دار میرے اپنے ہیں۔اَورتو مجھ سے گھر کاکام کروائے گی۔؟اُس وقت سرکاری آفیسران اَور سارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر اپنے چپراسیوں سے گھر کاکام لیاکرتے تھے۔اُسی عرصے میں،مَیں نے گدھا خرید لیا۔اُس وقت پورے پانچ سو کاملاتھا۔میرا ایک دوست تھایوسف خان۔اُس نے مشورہ دیا کہ تُم کھوتاخرید لو اَور اسکول کے بعد لوگوں کاسامان ڈھویا کرو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تقریباًدو گھنٹے اُن سے داستان سنتے رہے۔یہ اُن سے آخری ملاقات تھی۔جو25 فروری 2018؁ ء کو ہوئی تھی۔ٹھیک تین سال بعد وہ 85سال اَور کچھ ماہ کی عمر گزار کر چلے گئے۔ہاں بہت سی طالبات اَور اُستانیاں جنھیں وہ آدھی چھٹی کے دوران کھانے پینے کاسامان لاکر دیا کرتے تھے۔اَکثر ان سے پہلے ہی اس منزل سے گزر گئیں۔جہاں سے وہ اب گزرے۔بھلازندگی کے سبک رفتار گھوڑے پر کسی کاقابو ہے،کہ یہاں رکو وہاں نہ رکو۔نہیں تو۔ ؎
نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پاؤں ہے رکاب میں
شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ہر ایک کاوقت مقرر ہے۔آنے کی ترتیب ہے جانے کی نہیں۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply