جمالیات کا مصور-راجہ روی ورما(1) ۔۔۔حقانی القاسمی

غالب نے کہاتھا:

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری

تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے

شاید راجہ روی ورما نے بھی اپنی محبوبہ کے لیے ہی مصوری سیکھی ہوگی مگر وہ خود ہی مصوری کی وجہ سے ’محبوب‘ بن گئے اور اسی مصوری نے انہیں ہندوستانی آرٹ کی تاریخ میں زندہ جاوید کردیاہے۔

ہندوستانی آرٹ کو نئی جمالیاتی جہت، نیازاویہ اور اسلوب عطاکرنے والی شخصیت اور جدید ہندوستانی جمالیات میں انقلاب بپا کرنے والے راجہ روی ورماکوئل تھمپورن (1848-1906) کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے مذہبی رزمیے رامائن اورمہابھارت کے اساطیری کرداروں کو کینوس پراتار کران دونوں رزمیوں کے ذریعہ ہندوستان کے Ethosکو عوامی شعور سے متعارف کرایا اوران میں ارضیت کا عنصر شامل کرکے نئی طرفیں کھول دیں۔

راجہ روی ورمانے اپنی پینٹنگس میں قدیم ہندوستانی آرٹ اور یورپی واقعیت پسندی (realism) کے امتزاج سے کمال ہنر کا مظاہرہ کیا اور قدیم وجدید آرٹ کے مابین ایک مضبوط رشتے کی بنیاد ڈال دی۔ اسی لیے انہیں روایت پسندوں کے درمیان ماڈرن اور جدت پسندوں کے درمیان معقولیت پسند (rationalist) سمجھاجاتاتھا۔ نئی تکنیک اور میڈیم کی وجہ سے ان کی پینٹنگس کو شہرت و مقبولیت نصیب ہوئی اورعالمی سطح پر مصور کی حیثیت سے راجہ روی ورما کی شناخت بھی مستحکم ہوئی۔ انہوں نے مصورانہ موضوعات اور تکنیک کی سطح پر کئی نئے تجربے بھی کیے خاص طورپر رامائن اورمہابھارت کے اساطیری کرداروں سے جڑی کہانیوں کو کینوس پر اتارا اور اسے عصری حسیت اورمعنویت عطاکی۔

ہندوستانی اساطیر کی تصویرکاری نے ہندوستانی تخیل کو نئی جہت اور اجتماعی لاشعور کو نئی زمین عطا کی ہے۔ راجہ روی ورما نے اپنی پینٹنگس میں ہندو دیویوں کو جنوبی ہند کی خوبصورت ناریوں کے روپ میں پیش کیا۔ دیویوں کے تقدس اور حسن و جمال کی علامت کے طورپر جنوبی ہند کی خواتین کے امیج کے استعمال پر اعتراضات بھی ہوئے مگر مجموعی طورپر دیویوں کایہ مقدس حسین روپ عام ناظرین کو بے حد پسند آیا۔

راجہ روی ورما نے ہندوستانی آرٹ کو نئے آفاق سے آشنا کیا اور مصوری کو نئے جمالیاتی معیارات بھی عطاکیے کہ انہوں نے خود کو چند موضوعات میں محصور نہیں رکھا بلکہ نئے موضوعات اور کینوس کی تلاش میں ہندوستان کے طول و عرض کا سفرکیا۔ نگاہ شوق اور شوخی نظارہ نے نئے موضوعات اور کینوس عطاکئے، اس طرح ان کی مصوری تنوع اورتجدد کی نئی لہروں سے آشنا ہوئی۔

راجہ روی ورما کا جمالیاتی وژن بہت گہرا تھا اور حس نہایت لطیف اسی لیے ان کی مصوری نے جمالیات کی ایک نئی کائنات تخلیق کی۔ جمالیاتی نقطہ نظر سے ان کی مصوری کے شاہ کاروں میں خوبصورت ساڑیوں میں ملبوس خواتین کی پینٹنگس بھی شامل ہیں۔ ساڑی ان کی تصویروں میں جمالیات کی ایک پروقار علامت کے طورپر نظرآتی ہے۔ ساڑی کے ذریعے نسائی جوہر (Feminity)اور جنسی حساسیت اورجاذبیت، رعنائی و زیبائی کااتنا خوبصورت مصورانہ اظہاراور فنتاسی کا جمال بہت کم مصوروں کے ہاں نظرآتاہے۔ ساڑی میں ملبوس ناریاں نسائیت سے معمور اور حسن وجمال کا مرقع نظرآتی ہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتاہے جیسے

بھیگی ہوئی ساڑیوں سے کوندے لپکے

ہر پیکر نازنیں کھنکتی ہوئی چنگ

اپنی مصوری میں راجہ روی ورما نے ساڑی کو ایک نئی معنویت عطاکی ہے اور حسن افزا ساری کے مصورانہ تخلیقی استعمال نے ان کی مصوری کے رنگ واسلوب کو ایک نئی شناخت بھی عطاکی ہے۔ان کی ایک پینٹنگ اس تعلق سے اتنی مشہور ہوئی کہ ایک ساڑی پر جب راجہ روی ورما کی پینٹنگ کی نقل اتاری گئی تو اس کی قیمت 40لاکھ روپے طے ہوئی۔ بیش قیمت جواہرات سے سجی دنیا کی یہ سب سے مہنگی ساڑی ہے جس کانام لمکا بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے۔ اس ساڑی کی خوبی یہ ہے کہ اس پر راجہ روی ورما کی پینٹنگLady Musicians کا عکس ہے۔

راجہ روی ورما کی مصوری میں عورت کا آرچ ٹائپ ہے جسے یونگ نے سول امیج (Soul Image) کہاہے اور روی ورما نے عورت کے پورے جمالیاتی نقش کو اس کی تمام تر کیفیات کے ساتھ کینوس پر اتارا ہے۔ عورتوں کی Paintings میں راجہ روی ورما نے اتنے جمالیاتی ارتعاشات پید اکردئیے ہیں کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ ان کی پینٹنگس کی موہنی ہو یا دمینتی، شکنتلا ہو یا کوئی اور سب ونڈرفل نظرآتی ہیں۔ انہوں نے اپنی مصوری میں عورتوں کو Seductress اور Tempress کی حیثیت سے بھی پیش کیاہے اور موج خیز بدن کے نشیب و فراز، جمالیاتی زاویوں مخفی عبارتوں، سینے کے تناؤ میں پکھاوج کی ترنگ، روانی روش اور مستی ادا کو کینوس پر کچھ اس خوبصورتی سے اتاراہے کہ :

رس کے ساگر میں ڈوب جاتی ہے نگاہ

خاص طورپر مہاراشٹر کی حسین عورتوں کی پینٹنگس کا تو جواب نہیں۔

ایسی پینٹنگس دیکھ کر’ رتی یگ‘ کے ’شرنگار کا ویہ‘ کا گماں گزرتاہے یا پھر فراق کے ’روپ‘ کی رباعیاں کینوس پر روشن ہوتی نظرآتی ہیں:

وہ روپ کہ کامدیو جس کا ہوشکار

وہ رنگ اوشا نے جیسے چھیڑا ہو ستار

وہ ہونٹوں کارس جان طراوت ہر بوند

وہ گات کہ سر سے ایڑیوں تک چمکار

یہ روپ مدن کے بھی خطا ہوں اوسان

یہ سج جو توڑ دے رتی کا ابھمان

پھیکی پڑتی ہے دھوپ یہ جوبن جوت

یہ رنگ کہ آنکھ کھول دے جیون گان

لرزش میں بدن کی باغ جنت کی لہک

وجدان سیاہ کار گیسو کی لٹک

ہر عضو کے لوچ کا کچھ ایسا انداز

ست رنگے دھنش میں جیسے آجائے چمک

پینٹنگ میں بھی ہر خط بدن کی لومیں مدھم جھنکار سنائی دینے لگتی ہے رس میں ڈوبا ہوا لہراتایہ راگ بدن کینوس پر کچھ اور رنگ بکھیر جاتاہے۔ سجل بدن کے رسیلے روپ کی ایسی تصویر کشی بہت کم مصوروں نے کی ہے۔

راجہ روی ورما کی مصوری نے ہندوستانی طرز فکر اور احساس کو بھی تبدیل کیااور اس حدتک کہ فلم اور میوزک ویڈیوزجیسے پاپولر کلچر میں ان کی پینٹنگس کی نقالی شروع ہوگئی اورفلم سے جڑے ہوئے تخلیقی اذہان کو بھی ان کی پینٹنگس سے تحریک ملی۔ کہاجاتا ہے کہ سب سے زیادہ نقل راجہ روی ورما کی Paintings کی گئی۔ پھالگنی پاٹھک کے میوزک ویڈیو کے گانے ’’مری چنراڑاڑجائے‘‘ میں بھی ورما کی مشہور پینٹنگ ’شکنتلا‘ کی نقالی کی گئی ہے۔ ہندوستانی سنیما کے فادر داداصاحب پھالکے، راجہ روی ورما کی static realismسے بے انتہا متاثر تھے۔ اسطوری تاریخ پر بنائی گئی فلموں میں بھی راجہ روی ورما کی پینٹنگس کا استعمال کیاگیاہے۔ 1950کے دوران کتھاکلی کے ماہرکلامنڈلم رمن کٹی نائر نے پرشورام (وشنو کے اس اوتار کا خاص ہتھیار کلہاڑی ہے) کے کاسیٹوم کو دوبارہ ڈیزائن کیااور اس کو راجہ روی ورما کے پورٹریٹ کی شکل میں ڈھالا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ راجہ روی ورماکی مصورانہ بصیرت اور حسیت کی کیااہمیت اور معنویت تھی۔

راجہ روی ورماہندوستانی آرٹ میں جدید حسیت (Modern Sensibility) کانقطہ آغاز تھے اورانہیں مصوری کے ایک نئے دبستان کی حیثیت حاصل تھی۔ انہوں نے مصوری میں جو نئے ہیئتی اور موضوعاتی تجربے کیے اس کی وجہ سے ان کی مخالفت بھی ہوئی۔ راجہ روی ورما پر فحاشی اور عریانیت کے الزامات بھی لگے، ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی،مذہبی اور تہذیبی جذبات اوراخلاقی اقدار کی پامالی کے جرم میں معتوب بھی ہوئے۔ ان کی پینٹنگس میں اروشی اور مینکاوشو امتر پر بھی عریانیت کالیبل چسپاں کیاگیا، اپنی محبوبہ سگندھا کے سلسلے میں بھی وہ مقہور ہوئے مگرتخلیقی آزادی کے لیے ان کی جدوجہد جاری رہی اور ملامتوں کے درمیان ان کی مقبولیت بڑھتی رہی۔

پورٹریٹ پینٹنگس میں انہیں درک کامل تھا۔ انہیں اتنی مہارت تھی کہ بڑی سے بڑی شخصیتیں بھی راجہ روی ورما کے اس ہنر سے مسحور تھیں۔ ماسٹرپینٹر آف پورٹریٹس کی حیثیت سے انہیں عالمی شہرت حاصل تھی۔ ان کے پورٹریٹ اتنے خوبصورت ہوتے تھے کہ میسور کے مہاراجہ نے اپنے اوراپنے خاندا ن کے پورٹریٹ کے لیے 1885 میں انہیں خاص طورپر مدعو کیا۔ بڑودا کے گائیکوارکی خصوصی دعوت پر انہوں نے وہاں کئی سال گزارے۔ راجہ روی ورما نے ہی اودے پور کے مہارانا اور ان کے پیش روؤں کے پورٹریٹ بنائے۔ روی ورما نے مہارانا پرتاپ کا جو پورٹریٹ بنایا ہے، اسے شاہکار کادرجہ حاصل ہے۔ 1904 میں مدراس گورنمنٹ ہاؤ س میں سرآرتھر ہیولاک (Sir Arthur Havelock) کی تصویر بنانے کے لیے انہیں خاص طور پر مدعو کیاگیااور اسی سال انہیں قیصرہندگولڈمیڈل عطاکیاگیا۔ راجہ روی ورما نے مختلف پس منظروں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے پورٹریٹ بھی بنائے اوران میں عورتوں کاحسن نہایت ہی دلفریب، جانفزا، مسحور اور مدہوش کن نظرآتا ہے۔ راجہ روی ورما کو پورٹریٹ آرٹسٹ کی حیثیت سے اس وقت شہرت ملی جب 1870 اور1878 کے دوران انہوں نے برطانوی افسران اور ہندوستانی ارسٹوکریٹس کے پورٹریٹ بنائے۔ پورٹریٹ بنانے کی وجہ سے انہیں اتنی شہرت ملی کہ کلمنور جیسے چھوٹے گاؤں میں حکومت کو پوسٹ آفس کھولنے پرمجبور ہوناپڑا۔ کیونکہ غیرممالک سے پورٹریٹ کی فرمائشیں آتی تھیں۔پورٹریٹ میں راجہ روی ورما نے تنجور (Thanjavoor) روایت کے اسالیب اور یوروپی حقیقت پسندی کے عناصر کاخوبصورت امتزاج پیش کیا۔ انہوں نے اپنے پورٹریٹ میں تنجور کی روایت کا احترام ملحوظ رکھا جس میں نائیکاز کا تصور عام تھا۔ اس دبستان مصوری میں نسائی جذبات کو مرکزی خیال کی حیثیت حاصل تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply