• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • رئیس غلام محمد خان بھرگڑی زندہ ہوتے تو پاکستان کے وزیراعظم بنتے۔۔توقیر بھملہ

رئیس غلام محمد خان بھرگڑی زندہ ہوتے تو پاکستان کے وزیراعظم بنتے۔۔توقیر بھملہ

قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے یہ الفاظ جس عہد ساز شخصیت کے متعلق کہے تھے اس شخصیت کو پاکستان میں چند لوگوں کے سوا اور کون جانتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگ ہوں گے جو تاریخ سے دلچسپی رکھنے کے باعث مرحوم کے نام اور کام سے واقف ہوں..
ایک مرتبہ سندھ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھرپارکر کے ایک ڈاک بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا. جب رات ہوئی تو وہاں کے ملازم نے اسے آکر کہا کہ وہ ڈاک بنگلہ خالی کردے، کیونکہ وہاں برٹش حکومت کے افسران آئے ہیں، وہ وہاں پر ٹھہریں گے، لیکن اس شخص نے بنگلہ خالی کرنے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے اس کے خلاف سی آر پی سی 110 کے تحت کیس داخل کیا گیا اور یہ کیس اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر نے داخل کیا تھا۔ اس شخص نے کہا میں وہاں کیوں نہیں ٹھہر سکتا تھا؟ تو جواب ملا کہ وہاں برٹش افسر یا پھر بیرسٹر ٹھہر سکتے ہیں،
اس واقعے کے بعد اس شخص کے دل میں یہ خیال آیا کہ برٹش افسر تو نہیں بن سکتا مگر انگریزوں سے قانونی جنگ لڑنے کے لیے قانون کی ڈگری حاصل کر کے بیرسٹر ضرور بن سکتا ہے، اس کے لیے وہ انگلینڈ چلا گیا ۔جہاں سے اس نے تین سال کے عرصے میں بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے سندھ واپس آیا، اور یہ پہلا شخص تھا جس نے زمیندار خاندان میں بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی تھی۔
واپس آکر سیاست میں قدم رکھا، کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور قانون ساز کونسل کے ممبر منتخب ہوگئے، کانگریس کے اجلاس میں صدارت کرتے، قانون سازی میں حصہ لیتے، زمینداروں کے حقوق کی جنگ لڑتے لڑتے کسانوں کی نمائندہ آواز بن گئے، وکالت بھی جاری رکھی، طلباء اور غرباء کے کیس مفت لڑتے، مختلف قسم کی غریب دوست اصلاحات کرنے اور اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کرنے کا شعور بیدار کرنے والے قائد کے طور پر ابھر کر منظر عام پر آئے، کانگرس کو خیر باد کہہ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی، سندھ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی،.
دو نمایاں مسلمان قائد بھی ہوں اور وکالت بھی کرتے ہوں تو دوستی ہونا فطری عمل تھا، ایک دوسرے کو بھا گئے اور محمد علی جناح سے دوستی کی شروعات ہوگئی، بعد ازاں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرنے لگے، زبردست قسم کے خطاب کرتے،انگریزوں کے خلاف مسلمانوں اور ہندوؤں کے راہنماؤں کو متحد کرکے کام لیتے، ان کی حویلی پر برصغیر بھر سے نامور قائدین اور جدوجہد کے ساتھی آتے، ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے حقوق کے لیے طویل بحث و مباحثہ کی محفلیں ہوتی، انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں صف اول کے راہنما بنے ، سندھ کو بمبئی سے الگ کروانے میں اہم کردار نبھایا، مال و دولت اور وقت خرچ کرکے جدوجہد کو جاری و ساری رکھا، بعد میں اپنی زمینیں غرباء میں بھی تقسیم کیں،
مسلم لیگ کی جدوجہد ہو یا تحریک خلافت ،ہجرت کابل کی تحریک یا ریشمی رُومال کی تحریک سمیت دیگر سیاسی و سماجی تحریکیں ہوں یا سیاسی تحریکیں وہ ہر تحریک میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ جن لوگوں نے سندھ کی سیاسی اور قومی زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے، ان میں سب سے نمایاں نام ان کا ہے۔ وہ جب تک حیات رہے، ان کی زندگی کا ہر لمحہ سیاسی اور قومی خدمت کے لیے وقف رہا
سیاسی جدوجہد اور فلاحی کاموں کے دوران نمونیا سے بیمار ہوئے، اپنی جدوجہد کا ثمر دیکھنے سے محروم رہے اور اسی بیماری سے ہی دار فانی سے رخصت ہوکر رحمتِ حق سے جاملے ، گنجینۂ خیر کے جنازے میں مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کی کثیر تعداد نے شرکت کی،
ان کی وفات پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کہا “میں مسٹر بھرگڑی کی وفات کی افسوسناک خبر سن کر اس قدر غمگین ہوں کہ اپنے جذبات کا مناسب انداز سے اظہار بھی نہیں کر پارہا۔ وہ میرے قریبی اور سچے دوست تھے اور کئی برسوں تک ان کی رہنمائی میں رہا۔ ان کی وفات کی وجہ سے میں نے ایک مخلص دوست کھو دیا ہے۔ ان کی وفات ایک قومی نقصان ہے۔ وہ ایک بے غرض انسان تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہندستان کی سیاسی دنیا میں ان کا خلا بھرنا بہت مشکل ہوگا‘۔
وہ عظیم الشان شخصیت جناب رئیس غلام محمد خان بھرگڑی مرحوم کی ہے.
ان کی وہ عظیم الشان حویلی جہاں نامور تاریخی اور تاریخ ساز شخصیات بیٹھ کر انگریزوں سے نجات کے لیے لائحہ عمل طے کرتیں تھیں، آج وہاں ویرانی بسیرا کیے ہوئے ہے، عظیم الشان حویلی اب کھنڈر کے سوا کچھ بھی نہیں..
(یہ مضمون لکھنے کے لیے جناب ہاشم لغاری کی کتاب اور مختلف اخبارات کے کالموں سے استفادہ کیا گیا ہے)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply