نینڈرتھلز کون تھے؟(3)۔۔ضیغم قدیر

ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ آج کے انسان خود میں 1سے 3% تک نینڈرتھلز کا ڈی این اے رکھتے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ تعلق یکطرفہ تھا یا نینڈرتھلز بھی ہمارا ڈی این اے خود میں رکھتے تھے؟
1997 وہ پہلا سال تھا جب ہمیں نینڈرتھلز کے ڈی این اے کو سیکونس کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ یہ لفظ بارہا پڑھ چکے ہونگے کہ ڈی این اے سیکونس کیا گیا۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی بھی سامپل سے ڈی این اے کشید کرکے اس کے پورے میک اپ کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پراسس میں ہم ڈی این اے کے تمام حروف کا پتا لگاتے ہیں۔
سو 1997 میں ہم نے پہلی بار یہ پتا لگایا کہ نینڈرتھلز کا ڈی این اے کن حروف پر مشتمل ہے۔ لیکن ہمیں بہت کم فاسلز ملے اور جو ملے وہ سب کے سب انکی ماداؤں کے تھے۔ اکیلی ماداؤں کے فاسلز سے ہم یہ نہیں پتا لگا سکتے تھے کہ ان کے نر کیا ڈی این اے رکھتے تھے اور ان میں کیا تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔
نر Y کروموسوم رکھتے ہیں۔ اس کروموسوم سے ملنے والی معلومات ہمیں کسی بھی مخلوق/سپی شیز کے نر کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اور یہ بھی پتا چل سکتا ہے کہ نر نسل کیسے آگے بڑھی اور مکمل سپی شیز کیسی تاریخ رکھتی ہے۔
تب تو ایسا ممکن نا ہو سکا لیکن اب ہمارے پاس ایسی تکنیک آچکی ہے جس کی مدد سے ہم ہڈیوں کے پرانے سامپلز اور دانتوں کے نمونوں سے وائے کروموسوم کو کشید کر سکتے ہیں۔ ایسے میں جب تین مختلف نینڈرتھل مردوں جو کہ 38 سے 53 ہزار سال پہلے تک زندہ رہ چکے تھے ان کے وائے کروموسوم کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسکے ساتھ ساتھ موازنے کے لئے انسانی وائے کروموسوم اور ڈینی ووسن نامی انسانی رشتہ دار سپی شی کے دو نر کے وائے کروموسومز کا مطالعہ کیا گیا۔ اور جو معلومات ملیں وہ کافی حیران کن تھی۔
جب اس ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ جدید انسانوں کا وائے کروموسومل ڈی این اے نینڈرتھلز سے بہت زیادہ ملتا ہے۔ اور ملنے کی یہ شرح ڈینی ووسن سے کم تھی۔ ڈینی ووسن کون تھے اس کو آگے جا کر ڈسکس کیا جائے گا۔ سو اس تجزیے نے ہمیں کافی حیران کر دیا کہ نینڈرتھلز کا وائے کروموسوم انسانوں سے کافی ملتا ہے۔
وائے کروموسوم باپ سے آگے منتقل ہوتا ہے اور یہ نر جنس کا تعین کرتا ہے۔ سو اگر کسی کا وائے کروموسوم دوسرے رشتہ دار کے وائے کروموسوم سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے تو اسکا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں آپس میں قریبی رشتہ دار تھے اور ایک ہی دادا سے آگے بڑھے۔
یہی حساب نینڈرتھلز اور انسانوں کیساتھ نظر آیا۔ وائے کروموسوم میں مماثلت ہمیشہ ایک سپی شی کے نر کے جنسی تعلق سے ہی آ سکتی ہے۔ڈینی ووسن اور نیڈرتھل ایک دوسرے کے زیادہ قریبی رشتہ دار تھے مگر اس کے باوجود نینڈرتھلز کا ابھی تک جو وائے کروموسوم ڈاٹا ملا اس کے مطابق یہی پتا چلتا ہے کہ انسانوں کا ڈی این اے نینڈرتھلز سے خاصا مکس ہوا ہے۔
یہ کیسے مکس ہوا؟
اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ نینڈرتھل مادہ اور انسان نر کے درمیان ایک سے زیادہ بار وقت کی دوڑ میں جنسی تعلق رہ چکا ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بیٹے میں انسانی باپ کے وائے کروموسوم موجود تھا اور اسکے آثار پھر اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے گئے جن میں سے تین کا ڈی این اے ہمیں مل گیا۔
لیکن اس بات سے یہ بھی ثبوت ملا کہ نینڈرتھلز کا وائے کروموسوم ارتقائی طور پہ ایک کمزور کروموسوم تھا جو کہ زیادہ صحتمند نر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ جس کے نتیجے میں نیچر نے اس میں انسانی ڈی این اے کی زیادہ ملاوٹ کو قبول کیا اور اس بات کا ہمیں ثبوت بھی مل گیا۔
اس کے علاوہ جب ہم نے Altai پہاڑیوں سے ملنے والے نینڈرتھلز کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا تو ہمیں یہ پتا چلا کہ جیسے ہمارے ڈی این اے میں 1-3% انکا موجود ہے بالکل ویسے ہی 1-7% تک ہمارا ڈی این اے انکے ڈی این اے میں موجود تھا۔ یوں انسانوں اور نینڈرتھلز کے درمیان باہمی جنسی تعلق کی بھی تصدیق ملتی ہے۔
مگر دوسرا سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر یہ دو الگ سپی شیز تھے تو آپس میں جنسی تعلق کیسے قائم رکھتے تھے؟ کیا انکے جنسی اعضاء ایک جیسے تھے؟
جاری

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply