• صفحہ اول
  • /
  • نفسیات
  • /
  • سائنس
  • /
  • ادبی تخلیقات میں نفسیات کا عمل/ ڈاکٹر خالد سہیل سے ارباب قلم کینیڈا کے ادبی چہاردرویشوں کا زوم پر مکالمہ(پہلا حصّہ)

ادبی تخلیقات میں نفسیات کا عمل/ ڈاکٹر خالد سہیل سے ارباب قلم کینیڈا کے ادبی چہاردرویشوں کا زوم پر مکالمہ(پہلا حصّہ)

فیصل عظیم۔۔ ڈاکٹر صاحب ! ہم آپ سے اس موضوع کے حوالے سے کچھ جاننا چاہیں گے کہ
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
میر نے یہ جو بات کہی تھی وہ ہمیں اپنے لکھنے والوں میں بار بار دکھائی دیتی ہے اس بارے میں کچھ راہنمائی کیجیے۔
مختصراً ادبی تخلیقات میں  نفسیات کے جو معاملات ہوتے ہیں  اس پر کچھ فرمائیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل
بہت بہت شکریہ فیصل عظیم صاحب  آپ سے ٹورانٹو میں ملاقات سے پہلے آپ کے والد شبنم رومانی صاحب سے بھی میرا ایک ادبی تعلق تھا۔ میں ان کی شاعری اور شخصیت کا مداح تھا ۔
ان کی شخصیت  میں  بہت ہی شادابی’ شگفتگی’ خوش مزاجی اور بدلہ سنجی تھی ۔ آپ سے ہمارے ایک سے زیادہ رشتے ہیں ۔ جب آپ نے مجھے دعوت نامہ بھیجا تو ارباب قلم کے چار ناموں کو پڑھ کے مجھے قصہ چہار درویش یادآ گیا۔ آپ لوگ بھی ادبی درویش ہیں ۔ خاص طور پر کووڈ وبا کے ماحول میں  آپ زوم کی میٹنگ میں لوگوں کو جمع کر رہے ہیں یہ صرف ادبی خدمت ہی نہیں بلکہ یہ ایک نفسیاتی اور سماجی خدمت بھی ہے۔
آپ کے ارباب قلم کینیڈا کے منتظمین لوگوں کو ادبی طور پر متحرک کرتے ہیں ۔میں زوم کی اس محفل میں سب کے سامنے  تسلیم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑی خدمت ہے۔
جہاں تک آج کے موضوع ادیب کی نفسیات میں میری دلچسپی کا تعلق ہے میں اس کا پس منظر تفصیل سے آپ کو بتانا چاہتا ہوں تا کہ میرا موقف واضح ہو اور پھر سوال و جواب میں آسانی ہے۔
آپ کی طرح میں بھی ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں آپ کے والد شبنم رومانی کی طرح  میرے چچا عارف عبدالمتین بھی ایک شاعر ادیب اور نقاد تھے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ بھی ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔ جب میں دس برس کا تھا تومیرے والد صاحب کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا۔ ایک سال وہ بیمار رہے۔ ان کا علاج ہوا اور وہ صحت یاب ہوگئے۔
میری والدہ کا خاندان روائتی اور مذہبی ہے جب کہ والد صاحب کے خاندان میں کرئٹیویٹی اور نفسیاتی مسائل دونوں موجود تھے۔  میں سمجھتا ہوں کہ میرے والد کا بریک ڈاؤن اور میرے چچا کی بیماری نے میری نفسیاتی معاملات کو سمجھنے کی طرف توجہ دلائی۔ میں آج آپ سب دوستوں کو پس منظر بتا رہا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ  میری دلچسپی نفسیات کے موضوع میں کیسے پیدا ہوئی۔ بعد میں جب میں تھراپسٹ بنا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے بہت سے نفسیاتی مریضوں کو زندگی میں اپنے تخلیقی اظہار کا موقع نہیں ملا۔
جب میری انور کاظمی صاحب سے اس موضوع پربات ہو رہی تھی تو میں انہیں بہت  سی تفاصیل بتا رہا تھا۔ میں نے اپنے کلینک کا نام بھی کرئٹیو سائیکو تھراپی کلینکcreative psychotherapy clinicرکھا۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کرئٹیویٹی کا نفسیاتی مسائل کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔

مجھے دھیرے دھیرے یہ احساس ہوا’ اپنے پچھلے چالیس سالہ تجربے سے’ کہ کرئٹیویٹی دو طرح کی ہے ایک کرئٹیویٹی کو سمال سیsmall c سے  جوڑا جا سکتا ہے ۔ یہ ہر بچے میں ہوتی ہے ۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے جب وہ چھوٹا ہوتا ہےوہ کھیلتا ہے۔ کھیلنا بذات خود تخلیقی اظہار ہے لیکن بعض بچوں میں وہ کرئٹیویٹی چھوٹی سی نہیں ہے وہ ایک بڑی سی ہےBIG C
جیسے کہ غالب ہوں آئن سٹائن ہوں ارنسٹ ہیمنگ وے ہوں یہ لوگ ایک بڑی سی والی کرئٹیویٹی کو لے کر پیدا ہوئے۔ لیکن اگر کوئی تخلیقی بچہ۔۔۔ کوئی شاعر بچہ۔۔۔کوئی سائنسدان بچہ ۔۔۔کوئی فنکار بچہ کسی روایتی ماحول میں پیدا ہو اور اس کے فن پر پابندیاں عائد ہوں تو وہ اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ کئی فنکار ٹین ایجر بغاوت کرتے ہیں اور بعض تو نفسیاتی بحران اور بریک ڈاؤن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
میں کئی برس تک یہ سوچتا رہا کہ یہ جو کریئٹیو مائنڈ CREATIVE MINDہے اس کی خاص خصوصیت کیا ہےکیونکہ اس کریئٹیو مائنڈ سے کرئٹیو پروڈکٹس کا گہرا تعلق ہے۔ شاعر ہو ، افسانہ نگار ہو ناول نگار ہو ایکٹر ہو یا پینٹر ہو یہ تمام تخلیقی صلاحیت کا اظہار ہیں۔
میں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک استعارہ استعمال کرنا چاہتا ہوں ۔ میری نانی اماں کہا کرتی تھیں کہ پانی حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں۔
پہلا وہ شخص ہے جو کنواں کھودتا ہے ، وہ دن رات محنت کرتا ہےہفتوں مہینوں کی مشقت کے بعد اسے پانی ملتا ہے
دوسرا شخص جو ہے وہ ایک قریبی دریا سے بالٹی میں پانی بھر کر لاتا ہے تیسرا شخص جو ہے وہ دریا تک بھی جانا نہیں چاہتا وہ گھر میں بیٹھاانتظار کرتا رہتا ہے یعنی اس پربارش ہوتی ہے ،بادل خود برستے ہیں۔
میں یہ کہا کرتا ہوں کہ شاعر جو ہے وہ بارش والا آدمی ہےوہ انتظار کرتا ہے اس پر آمد ہوتی ہے ۔ غالب نے کہا تھا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
نوائے سروش والے خوش قسمت شاعر ہیں جن پر آمد ہوتی ہے جیسے کہ وہ شاعر جن پر غزل کا ایک مصرع آدھی رات کو نیند میں وارد ہو جاتا ہے۔

افسانہ نگار کو دریا والا کہہ سکتے ہیں نثر لکھنا نظم کی نسبت زیادہ محنت طلب کام ہے جب کہ ناول نگار کنواں کھودنے والے کی طرح ہے۔ جیسے اگر آپ عبداللہ حسین اور قراۃ  العین کی بائیو گرافی پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ناول لکھنے میں ان کو کئی سال بلکہ بعض کو توکئی دہائیاں لگ گئیں ۔
تو سوال یہ ہے کہ جو کرئٹیو مائنڈ ہے وہ روایتی ذہن سے کس طرح مختلف ہے۔ میں ایک مثال سے آپ کو واضح کرتا ہوں کہ اگر آپ والدین ہیں یا استاد ہیں آپ بچے کو ایک ٹیسٹ دیں ۔
ایک ٹیسٹ کو کہتے ہیں convergent thinking ۔کنورجنٹ تھنکنگ یہ ہے کہ بچے کو آپ نے کئی چیزیں دیں اور پوچھا کہ ان میں کیا مشترک ہے
مثلاً بچے کو کہیں کہ کیلے، مالٹے’ سیب اور تربوز میں کیا چیز کامن ہے؟
وہ کہے گا کہ یہ سب پھل ہیں ،
یا اس سے پوچھیں کہ کرسی’ الماری اور میز میں کیا چیز کامن ہے؟
وہ کہے گا کہ یہ فرنیچر ہیں ۔
وہ ایک چیز بتائے گا اس کو ہم کنورجنٹ تھنکنگ کہتے ہیں ۔
اس کے مقابلے میں کرئٹیو تھنکنگ ہے یہ divergent thinking ہے۔ اب ڈائیورجنٹ تھنکنگ کی مثال یہ ہے کہ آپ بچے کو کاغذ پہ ایک دائرہ کھینچ کے دیں آپ اس سے پوچھیں کہ بیٹا یا بیٹی آپ اس سے کتنی چیزیں بنا سکتے ہیں۔ اب ایک بچہ اس سے تین چیزیں بنا سکتا ہے۔۔۔گھڑی۔۔۔پلیٹ۔۔۔گیند جبکہ دوسرا دس چیزیں بنا سکتا ہے جو بچہ دس چیزیں بنا سکتا ہے اس کی کرئٹیو تھنکنگ تین چیزیں بنانے والے بچے  سے زیادہ ہے۔ جیسے کہ شعراء میں اظہار کی خوبی عام انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پہ
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر سے لے کر فراز تک سب شاعروں میں مختلف طریقوں سے لب کی دلفریبی کا اظہار نظر آئے گا۔ محبوب  کو سراہنے کا انداز ہر ایک کا الگ الگ اور جدا ہو گا۔

تخلیقی عمل کے کئی پہلو کئی پرت اور کئی رشتے ہیں۔
پہلا رشتہ کرئٹیو پرسنیلٹی  یعنی تخلیقی شخصیت سے ہے  ،
دوسرا رشتہ کرئٹیو مائنڈ( تخلیقی  ذہن )سے ہے
تیسرا رشتہ کرئٹیو پراڈکٹ سے ہے اور
چوتھا رشتہ سماج سے ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ کوئی شاعر ادیب یا دانشور کس خاندان کس اسکول اور کس معاشرےماحول میں پلا بڑھا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں کینیڈا میں نہ ہوتا تو مجھے اظہار کی آزادی کا ایسا موقع نہ ملتا ۔ اسی لئے میں نے ایک شعر کہا تھا کہ
؎ اپنی پرواز کا اندازہ لگانے کے لئے
اپنے ماحول سے آزاد فضائیں مانگیں

مجھے کرئٹیویٹی اور ان سینیٹی کے تعلق کا اس وقت پتہ چلا جب میں برازیل لیٹن امریکہ گیا اور ایک کانفرنس میں مہاجروں کے مسائل پر ایک پیپر پیش کیا۔
اس کانفرنس میں  آئیس لینڈ سے ایک گروپ آیا ہوا تھا ان سائیکالوجسٹوں نے  تحقیق کی  کہ وہاں کے مینٹل ہاسپٹل کے مریضوں جو کہ شیزوفرینیا بائی پولر ڈس آرڈر، ڈپریشن کا شکار تھے ان کی تین جنریشنز کی سٹڈی کی ۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے یہ جانا کہ ان مریضوں کے خاندانوں میں جو کرئٹیو پرسنیلٹیز تھیں  شاعر ادیب دانشور پروفیسر موسیقار رقص کرنے والوں کی تعدادعام لوگوں کے خاندانوں سے دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ یہ ان کی تھیوری ہے جو ابھی کنفرم نہیں ہوئی ہے مگر تھیوری یہ ہے کہ
جو کرئٹیویٹی کی gene ہےوہی انسینیٹی کی جین ہے وہ ایک ہی جین ہے
اگر اسے مناسب مواقع ملیں تو وہ اپنا فنی اظہار کرتی ہے اگر اسے اظہار کے مواقع نہ ملیں تو وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔
اس کانفرنس میں شمولیت کے بعد میں نے شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کی سوانح عمریاں پڑھنی شروع کیں اور فن اور پاگل پن کے رشتے کو جانا۔
اس کی مثال  مغرب میں سلویا پلیتھ ، ونسنٹ وینگو اور ارنسٹ ہیمنگ وے اور مشرق میں سارہ شگفتہ ’ جون ایلیا، منیر نیازی اور شکیب جلالی ہیں۔
ابھی حال میں میں نے فنکارہ گل بہار بانو پر آرٹیکل لکھے تھے جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئی تھیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ فنکاروں کی سوانح عمریاں ہمیں اس رشتے کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ اس رشتے کو جو غیر روائتی شخص ہے اس کے کرئٹیو مائنڈ اس کے کرئٹیو زہن اور اس کے کرئٹیو ماحول کا آپس میں کیا تعلق ہے ۔ یہ جاننا اہم ہےنہ صرف والدین اور اساتذہ کے لیے بلکہ نفسیاتی معالجین کے لئے بھی کیونکہ جب وہ فنکاروں کا علاج کرتے ہیں  وہ ان کے کرئٹیو مائنڈ کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے روائتی طریقے سے علاج کرتے ہیں جس کی وجہ سے عموماآدھورا علاج ہی ممکن ہوتا ہے۔ مجھے اس  موضوع میں  خصوصی دلچسپی ہے۔

مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ لوگ آج اس موضوع پر مجھ سے تبادلہِ خیال کرنا چاہتے ہیں ۔ میں آپ سب کو اس موضوع پر اپنی دلچسپی کی تفصیلات بتا رہا ہوں تا کہ گفتگو بامعنی ہو سکے۔
فیصل عظیم :بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب آپ نے بہت خوبصورتی سےہمارے لیے آسانی پیدا کی تاکہ ہم سوالات کا سلسلہ شروع کر سکیں۔ تمام حاضرین محفل کا شکریہ۔
سب لوگوں کو خوش آمدید
ایک شعر عرض کرتا ہوں احمد مشتاق صاحب کا
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
اور بقول غالب
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
تو موضوع ہے ادبی تخلیقات میں نفسیات کا عمل
ایک مختصر سوال کروں گا ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے کہ
تخلیقی قوت کیا چیز ہے؟ کیا تخلیق کاری سکھائی بھی جا سکتی ہے۔؟

خالد سہیل: بہت شکریہ یہ بہت  مختصر لیکن اچھا سوال ہے ۔ میں اسے فطرت کہتا ہوں خدا کو ماننے والے اسے خداد صلاحیت بھی کہہ سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسانی بچہ فطرت کی طرف سے ایک خاص کرئٹیو گفٹ لے کر پیدا ہوتا ہے ۔ یہ فطرت کی طرف سےاسے ایک تحفہ ملا ہے ۔بچہ چونکہ خود اس صلاحیت سے واقف نہیں ہوتا لیکن اکثر اس کے اساتذہ  بزرگ یا والدین اس تحفے کو پہچاننے میں اس کی مدد کرتے ہیں اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔جیسے میرے چچا کہتے تھے کہ ان کی خالہ کہا کرتی تھیں  بیٹا جس طرح تم بیٹھے خلاوں کو گھورتے رہتےہو تمہارے اندر ایک شاعر ادیب فلاسفربننے کی صلاحیت ہے۔ ۔

بدقسمتی سے بہت سے لوگ ساری عمر اپنے کرئٹیو گفٹ کو نہیں پہچان پاتے۔ ایک فلاسفر نے کہا تھا most of us die before we are fully born.
میں سمجھتا ہوں کہ کسی فرد میں جو خداداد صلاحیت ہے جو فطری صلاحیت ہے اسے پہچاننا اور اسے خوشگوار ماحول مہیا کرنا بہت ضروری ہے، میں اپنے مریضوں کو کہتا ہوں کہ پودے کا جو بیج ہے اسے فرٹیل سائل، fertile soil fresh air sun shine دی جائے توبیج پہلے پودا بنتا ہے پھر درخت بنتا ہے اور اس درخت پر پھول کھلتے ہیں میٹھے پھل آتے ہیں۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی بچے کی تخلیقی صلاحتیوں کو ڈیولپ کیا جا سکتا ہے۔ اس صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ موسیقاروں کو دیکھیں وہ ریاض کرتے ہیں  اس کو وہ ڈیولپ کرتے ہیں اسے پروان چڑھاتے ہیں تا کہ دیکھیں کہ وہ کس حد تک جا سکتا ہے اس میں کتنی کرئٹیویٹی ہے۔وہ کس سطح تک جا سکتا ہے۔ایوریج فنکار ہے یا ایکسٹرا آرڈینیری ہے ۔  کچھ تو بہت ہی جئنیس ہیں لیکن عام حالات میں بھی لوگوں کی سکول کالج  اور تربیت گاہیں مدد کرتی ہیں۔ جیسے کہ آپ کا پروگرام ہے اس طرح کے پروگرام بھی لوگوں کی صلاحیتیں بیدارکرنےاور ان کی نشونما کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

جنید صاحب: ہر شخصیت کے کچھ اندھیرے گوشے ہوتے ہیں  تخلیق کار کے لیے یہ پہلو کتنا اہم ہے۔تخلیق کار کی نفسیات عام لوگوں سےکیسے مختلف ہوتی ہے اگر ہوتی ہے تو یہ مثبت پہلو ہے یا منفی ہے۔؟

خالد سہیل: ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بچہ کس ماحول میں پلا بڑھا ہے کیونکہ انسان اپنے بچپن میں  اپنے ماحول کو جذب کرتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ جو روائتی انسان ہے وہ سرنڈر کر دیتا ہے جب کہ ایک غیر روائتی سوچ کا بچہ  کمپرومائز نہیں کرتا، وہ ظلم زیادتی ناانصافی کو منافقت کو برداشت نہیں کرتا وہ چیلنج کرتا ہے جیسا کہ منٹو نے کہاکہ میں منافقت کو پسند نہیں کرتا اگر میں ویشیا کے پاس جاتا ہوں تو مفلر لپیٹ کے نہیں جاتا ، جب شراب پیتا ہوں تو منہ میں الائچی نہیں ڈالتا کہ بو نہ آئے۔ وہ جو سچ دیکھتا ہے وہ سچ دوسروں کو بھی دکھانا چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ مسائل پیدا ہوتے ہیں کیونکہ لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ جیسے کہ منٹو پر الزام لگایا گیا کہ وہ فحاشی پھیلا رہا ہے جب کہ وہ ساری عمر اپنے افسانوں میں معاشرے کے سچ کا چہرہ دکھاتا رہا  ۔

اگر ماحول سازگار نہیں ہے تو مشکل ہو جائے گی جیسے کہ ادیب شاعر  فنکار بعض اوقات شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں مثال کے طور پہ اگر وہ گہرے پانی میں جاتے ہیں عام طور پر توواپس آجاتےہیں لیکن بعض اوقات وہ واپس نہیں آ سکتے تب وہ شراب اور نشے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ۔کئی بار ان کا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا ہے ایسے میں  ان کو سایکائٹرسٹ کی ضرورت پڑتی ہےجو علاج سے دوائیوں سے تھراپی سے اسے دوبارہ کنارے پہ لاتا ہے۔ ایک طرح سے یہ حساسیت نعمت بھی ہے اور مصیبت بھی ہے، منفی بھی ہے مثبت بھی ہے، طاقت بھی ہے کمزوری بھی اگر حالات سازگار ہوں اور اپنی خود آگاہی  سے شعوری فیصلے کرنے کی سوجھ بوجھ ہو تو اس صورتحال کو موافق بنایا جاسکتا ہے ورنہ عموما ً تعمیر سے پہلے تخریب کے کئی پہلو نکلتے ہیں،  میرے شاعر چچا عارف عبدالمتین کا ایک شعر ہے
؎ میری عظمت کا نشان میری تباہی کی دلیل
میں نے حالات کے سانچوں میں نہ ڈھالا خود کو
خود کو حالات کے سانچوں میں نہ ڈھالنا یہ ایک mixed blessing ہے۔

فیاض باقر صاحب
سوال: میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ بچوں کو جو سوشلائزیشن اور ڈسپلن سکھایا جاتا ہے اس کا تخلیقیت سے کیا تعلق ہے؟ جیسے کہ ماں اور اساتذہ دوست اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔جیسے کہ میں  جب چھوٹا تھا ہمیں لکھنا سکھاتے تھے۔الف ب سیکھنے کے مرحلے میں تھا ۔مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ الف کھڑی کیوں ہے ب لیٹی کیوں ہونی چاہیے ن گول کیوں ہونی ضروری ہے چکور یا مستطیل بھی تو ہو سکتی ہے۔ وہ ہمیں ڈسپلن کرنا چاہتے تھے جب کہ اس سے ہمارا ٹکراؤ ہوتا تھا۔

ڈاکٹر خالد سہیل
شکریہ باقر صاحب میں اختصار کے ساتھ یہ کہوں گا کہ گرین زون فلاسفی میں ہم نے ایک تصور دیا کہ بچہ جب پیدا ہوتا   ہے،وہ ایک نیچرل سیلف کےساتھ پیدا  ہوتا ہے ۔ اس پر دو طرح کے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کا ایک حصہ  جو ہے وہ  سوشل ریلیجئیس  اورکلچرل  کنڈیشنگ  کی وجہ سے کنڈیشنڈ سیلف بن جاتا ہے اس میں سوسائٹی بچے کو بتاتی ہے کہ اسے کیا کرنا ضروری ہے کیا کرنا چاہیےاس کے مقابلے میں شخصیت کا دوسرا پہلو کرئٹیو سیلف ہے جس کا تعلق اس بات سے ہے کہ بچہ کیا کرنا پسند کرتا ہےکیا کرنے سے اسے محبت ہے یا اسے اس سےخوشی ملتی ہے۔ یہاں اس کا تخلیقی جوہر چھپا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے بچہ ٹین ایج تک پہنچ جاتا ہے وہ ان دونوں میں توازن قائم کرنا سیکھ جاتا ہے۔ وہ ان دونوں کے درمیان راستہ بناتا ہے۔ جو  آزاد معاشرے ہیں وہاں فرد کی تخلیقی اور ذاتی پسند کو عزت دی جاتی ہے اس کی قدر کی جاتی ہے ۔ اسے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں جب کہ روائتی معاشروں میں اس پر قدغن لگایا جاتا ہے ۔فتوے جاری کیے جاتے ہیں جبر کا سامنا ہوتا ہے ۔ جس سے وہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خوف انسانی سوچ کے لئے نقصان دہ عمل ہے۔ باپ ہو یا استاد پرنسپل ہو یا افسرعزت محبت عقیدت اپنی جگہ مگر خوف کا تعلق انسانی شخصیت کے لیےکبھی اچھا ثابت نہیں ہوتا۔

میں جب یونان گیا تو وہاں ایک  خاتون جو ہماری ٹور گائیڈ تھی اس نے کہا کہ جمہوریت جو ہے وہ یونان میں پیدا ہوئی کیونکہ یہاں دوہزار برس پہلے الیکشن ہوئے ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کی نظر میں  ڈیموکریسی  کی کیا تعریف ہے تو  اس نےکہا کہ,
‏Democracy exists where dialogue  exists
when the dialogue is turned into monologue
it becomes autocratic
جہاں آمریت آتی ہے وہاں خوف کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں تخلیقیت کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ماحول مہیا ہو  جس میں ایک بچے کی جو انفرادیت ہے جو اس کی  ذاتی خوبیاں ہیں انہیں  سراہا جائے کہیں شاہین کو کوا نہ بنا دیا جائے۔ میرا یک شعر ہے
اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا
مکالمے کے ماحول میں تخلیقیت پروان چڑھتی ہے۔

سید کاظمی
میں ایک سوال پوچھنا چاہ رہا تھا
انسانی ذہن کے تین متحرک پہلو ہیں اڈ، ایگو اور سپر ایگو یہ تخلیق پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ان میں کون زیادہ موثر ہے؟

خالد سہیل: کاظمی صاحب
سگمنڈ فرائڈ نے انیس سو میں انسانی ذہن اور مسائل کو سمجھنے کے لیےایک کتاب INTERPRETATIONS OF DREAMS لکھی ۔ انہوں نے انسانی شخصیت  کے تین پرت تین پہلو بتائے کہ
جو ہماری جبلتیں  ہیں انہیں اوڈ کا نام دیا ،
جو ضمیر ہے اسے سپر ایگو کا نام دیا
ایگو ان دونوں کے بیچ توازن  قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
فرائڈ کا یہ خیال تھا کہ فنکار اپنی ذات کی تسکین کے لئے اپنے لاشعوری تضادات کا اظہار فن کے ذریعے کرتا ہے۔ ان پر بہت اعتراضات ہوئے ان کے مقابلے میں کارل ینگ نے کہا کہ لاشعور میں صرف مسائل یا تضادات ہی نہیں ہوتے بلکہ اس میں ایک بصیرت بھی ہے۔دانائی بھی ہے۔
خوابوں کی تخلیقی عمل سے مماثلت دکھائی کہ لاشعوری طور پر خواب میں ہمیں کچھ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو ہمارا لاشعور تخلیق کر رہا ہوتا ہے۔ لاشعور کا پراسیس بہت پیچیدہ ہے۔ بعض اوقات لاشعور میں وہ کچھ ہوتا ہے جو  شعوری ذہن میں نہیں ہوتا۔ میں ایک مثال سے اس خیال کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
فرائیڈ کے پاس ایک مریض آیا اس نے کہا میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔

فرائڈ نے پوچھا کیا خواب دیکھا ہے تو اس نے بتایا کہ میں نے خواب میں ایک کتا دیکھا کتے کو میں نے ٹھوکر لگائی جب کتے نے سر ہلایا تو مجھے پتہ چلا کہ اس کتے کا سر میرے باپ کا سر ہے
اب فرائڈ نے کہا کہ یہ خواب میں حفاظتی تدبیر condensationکا عمل ہے ۔ عام حالات میں کتے اور انسان کا سر ایک نہیں ہوتا اس شخص کے دل میں چونکہ باپ کے بارے میں غصہ تھا، تلخی تھی نفرت تھی، شعوری طور پر جب وہ سوچتا تھا کہ باپ کو گالی دوں مگر سپر ایگو کی وجہ سے وہ احساس جرم اور احساسِ گناہ کا شکار ہو جاتا تھاتو اس کے لاشعور نے اس تضاد کا حل نکالا، باپ کو ٹھوکر مارنے کی بجائے کتے کو ٹھوکر لگائی اپناغصہ دور کیا اور جب سر گھوما تو پتہ چلا کہ یہ میرے باپ کا سر ہے تو پریشانی دور ہو گئی اور خفت بھی نہیں ہوئی۔

آرٹسٹ بھی شاعری میں، افسانے ڈرامے ادب میں یہی کام کرتے ہیں۔ اپنے لاشعوری تضادات کا اظہار فن کے زریعے کرتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں  کارل ینگ نے بتایا کہ یہ نفسیاتی مریض کا اظہار ہے۔ اب یہ تخلیق کار کی دانائی پر منحصر ہے کہ وہ کیسا آرٹ تخلیق کرتا ہے اگر تو آرٹسٹ کی ذہنی سطح بلوغت کے مدارج طے کر چکی تب تو اس کا فن معاشرے کو بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر وہ امیچور ہے تو اس کے اندرغصہ نفرت اور تلخی زیادہ ہو گی ۔ بعض ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ چالیس برس سے پہلے کی تخلیقات میں بغاوت زیادہ ہوتی ہے جب کہ عمر کےچالیس سال کے بعد دانائی اور بصیرت اور حکمت کا انداز زیادہ ہوتاہے۔

کاظمی صاحب آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ان تینوں میں ایگو زیادہ اہم ہے ایگو جب میچور ہوتی ہے تو ماحول کے مسائل اور خواب کو جذب کر کے ان کا تخلیقی اظہار کرتی ہے اس کی تخلیق اس ذاتی نشونما بھی کرتی ہے اور سماجی ارتقا میں بھی مثبت کردار ادا کرتی ہے۔

نعیم اشرف صاحب 
ڈاکٹر صاحب میرا سوال کرئٹیویٹی کے رائئٹنگ بلاک سے متعلق ہے کچھ ایسا بتائیں کہ لکھنے میں مستقل مزاجی آجائے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ مضمون بھی ذہن میں ہوتا ہے مگر آپ اس کی تکمیل نہیں کر سکتے۔

خالد سہیل
شکریہ نعیم اشرف صاحب ،مجھے اپنی زندگی میں بہت سے ایسے ادیب اور شاعر ملے جنہوں نے بتیایا کہ وہ آدھا پراجیکٹ کر کے رائٹنگ بلاک کا شکار ہوگئے۔ میں اسے ایک مثال سے واضح کروں گا جب ہرمن ہیسے نے سدھارتا ناول،لکھنا شروع کیا، جیسے کہ آپ کو معلوم ہے یہ ناول روحانیت اور معرفت کے بارے میں ہے، جب انہوں نے آدھا ناول لکھا جس میں سدھارتا اپنے گھر اور خاندان کو چھوڑ کر جنگلوں ، بیابانوں کی طرف نکل جاتا ہے تاکہ اس کو معرفت حاصل ہو لیکن وہ وہاں ناول،ختم نہیں کرنا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ سدھارتا واپس آئے اور اس دنیا کی آلائشوں میں رہ کے اپنی روحانیت کو قائم رکھے۔ ایسے زندگی گزارنا زیادہ بڑا چیلنج ہے کنول کے پھول کی طرح جو کیچڑ سے اپنی سطح بلند کر لیتا ہے دلدل سے اوپر اٹھتا ہے اس لئے کنول کا پھول گلاب اور باقی پھولوں کی نسبت مجھے زیادہ محبوب ہے جب وہ ناول میں سدھارتا کو واپس لائے تو ہرمن ہیسے اسے مکمل نہیں کر پائے اور نفسیاتی بحران کا شکار ہو گئے۔ وہ تخلیقی طور پر مفلوج ہوگئے۔ کیونکہ ناول نگار کے لئے نفسیاتی طور پر اس صورتحال کو قبول کرنا  مشکل تھا جس میں وہ کردار کو لے گئے اس بحران سے باہر آنے کے لئے وہ ایک ماہر نفسیات کے پاس گئے، اس سائیکاٹرسٹ نے انہیں اپنے استاد کے پاس بھیجا کیونکہ ان کا نفسیاتی مسئلہ اسے پیچیدہ لگا۔
وہ سوئٹزرلینڈ گئے جس سائیکاٹرسٹ نے ان کا رائٹرز بلاک ختم کیا، ان کی نفسیاتی گرہ کھولی وہ کارل ینگ تھے کیونکہ کارل ینگ کو تخلیقیت، روحانیت اور دیوانگی میں خصوصی دلچسپی  تھی۔ بہرحال بعد میں انہوں نے اپنا ناول مکمل کیا اور ہرمن ہیسے کو  اس ناول پر نوبل انعام بھی ملا۔ آپ کے سوال کے دو جواب ہیں ایک وجہ نفسیاتی گتھی ہے جو سلجھ نہ پائے تو رائٹر بڑا کام نہیں کر سکتے دوسری وجہ نظم و ضبط میں کمی ہے، عادتاً کچھ فنکار محنت اور ریاضت کرنا پسند نہیں کرتے۔

میری ایک مریضہ تھیں، وہ اپنی جوانی میں ایک آرٹسٹ رہ چکی تھیں، میں نے انہیں کہا آپ ایک گھنٹہ کینوس کے سامنے بیٹھا کریں یہ تھراپی ہے، علاج ہے۔ چھ ہفتے تک انہوں نے ایک لکیر بھی نہیں کھینچی مگر ساتویں ہفتے انہوں نے پینٹنگ بنائی  جو چار سو ڈالر میں بکی ۔ کچھ ہی ہفتوں کے بعد انکی پینٹنگز اور بھی مہنگی بکنے لگیں۔ یوں وہ روبصحت بھی ہو گئیں اور دوبارہ اپنے فن کے قریب بھی ہو گئیں۔ سو پریکٹس اور ریاضت فنکار کے لئے دونوں ضروری ہیں۔

دعا عظیمی
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تخلیق کسی تخلیق کار کے لاشعور کا فنی اظہار ہے۔؟
کیا تخلیقی صلاحیت تخلیق کار کی عزت نفس کو مستحکم بنانے میں معاون کردار ادا کرتی ہے۔؟

خالد سہیل
جو لوگ کرئٹیویٹی کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لئے ایک امریکن سائیکائٹرسٹ ہیں جن کا نام silvano arieti ہے
ان کی کتاب کا نام ہے creativity the magic synthesis
انہوں نے یہ تصور پیش کیا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی لاشعوری سوچ زیادہ کام کرتی ہے جیسے جیسے وہ جوانی کی طرف قدم اٹھاتاہے لاجیکل ریشنل  تجزیاتی سوچ بنتی ہے۔ ماہر نفسیات ایرئٹی کا موقف یہ ہے کہ تخلیقی صلاحیت میں شعوری اور لاشعوری سوچ کا ایک حسیں مرکب تیار ہوتا ہےاور آرٹسٹ خود بھی حیران ہوتا ہے جب ایک نیا مصرعہ نیا شعر یا نئی نظم تخلیق کرتا ہے اس کے لیے بھی بعض اوقات یہ ایک اچھوتا تجربہ ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو کرئٹیو آرٹسٹ ہے وہ شعوری اور لاشعوری سوچ  کا مرکب تیار کرتا ہے یہ ایک ایسا تخلیقی تجربہ ہے جو بہت حیران کن اور خوشگوار ہے۔
جہاں تک عزت نفس کا تعلق ہے اگر وہ جئنوئن آرٹسٹ ہے اس کا فنکار ہونا اس کی عزت نفس کو بڑھاوا دیتا ہےاس کا فن اسے شہرت دیتا ہےاس کے اعتماد کو بڑھاتا ہے اس کی شناخت کو بڑھاتا ہے ، بناتا ہے ۔بدقسمتی سے بعض اوقات جیسے کہ میں نے منٹو کی مثال دی ہے ۔ سماج  فنکار اور باغی  کے سچ کےاظہار پر اعتراض کرتا ہے اگر وہ مروجہ اقدار سے ٹکرا جائے ۔ کبھی کبھار ان پر فتوے لگتے ہیں کبھی سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ کبیر داس ہوں یا مولانا رومی ہوں ان کی سوچ کو بصیرت اور شاعری کو سمجھنے میں  سینکڑوں سال لگ جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply