• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • نگارشات
  • /
  • موٹر وے حادثہ،ظاہر جعفر ،لبرلازم اور بیڈ گورننس(3،آخری قسط )۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

موٹر وے حادثہ،ظاہر جعفر ،لبرلازم اور بیڈ گورننس(3،آخری قسط )۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

یہاں اس ریاست میں ہمیں  قدم قدم پر ڈیڑھ انچ کی فرقہ وارانہ مسجد کھڑی نظر آتی ہے،قانون کہتا کچھ ہے عمل کچھ اور ہوتا ہے،یہ ایسی ریاست ہے جہاں آئین سے قانون تک ہر جگہ قرآن و سنت  سے مخالف امور سرانجام ہوتے پائے جاتے ہیں،شرح سود اور سودی نظام ریاست چلاتی اور نافذ کرتی ہے،شراب کے پرمٹ ریاست بیچتی ہے،مسجدوں کو فرقہ واریت  کرنے کا اجازت نامہ دیکر ریاست مزاروں میں دلچسپی لیتی ہے،ایک مسلمان اگر دیت قبول کرے تو لبرل طبقہ شور مچاتا ہے،مگر اسی ریاست میں مسلمان کو شرعی فوائد  تو میسر نہیں ہیں مگر ریمنڈ ڈٰیوس جیسے جاسوس مسلمان کو مار کر اسکی دیت ادا کر کے چھوٹ جاتے ہیں تو پھر مذہب کو کیوں مورض الزام قرار دیا جائے؟

کیونکہ مذہب تو ہر ایک نے اپنا ذاتی معاملہ بنا لیا ہے،خاتون پر اس ظالم درندے نے اغلباً مہنگی گاڑی ہنڈا سوک دیکھ کر حملہ کیا ہوگا،امید کے عین مطابق انھیں وہاں لاکھ روپے نقد،سونے کے زیورات،اے۔ٹی، ایم ایک کارڈ کے ساتھ ہوس کا سامان بھی میسر آگیا ہوگا، لہذا یہاں لبرل پیرائے میں خاتون و درندہ دونوں اپنی اپنی آزادی استعمال کر رہے تھے، جس میں طاقتور کامیاب رہا، اور اس لئے کامیاب رہا ہے کہ سب سے بڑی طاقتور انجمن ریاست کا خوف  خود اسکے دل میں نہیں تھا،اسے اپنے آپ پر  حد درجہ اعتماد تھا،جیسا کہ وہ اس کھیل کا منجھا ہوا کھلاڑی جو تھا ۔پہلے بھی وہ ایسے جرائم کرکے بچ چکا تھا،وہ اسل میں لوٹ مار کرنے آئے تھے،جابرانہ عصمت دری ،بعد میں اس میں شامل کردی گئی،اسے ریاست اور قانون کی کمزوری کا بخوبی  احساس تھا ،یہ ریاستی  بدعملی تھی ،جسکا حال ہم عرصہ سے جانتے ہیں مجرم بھی جانتا ہے اور خاتون بھی جانتی ہے،جیسا کہ اس مجرم و ظالم کے ساتھی پکڑے جاچکے ہیں۔

مگر وہ تاحال چار دفعہ پولیس کو چکما دے کر آذاد پھرتا رہا تھا،  تاوقت یہ کہ اسے پولیس نے اسکی منظوری سے پکڑا اور عدالت نے اسے موت،عمر قید اور جرمانہ کی سزائیں سنائیں ،جبکہ نور مقدم معاملہ کا فیصلہ ابھی بہرحال  ہونا باقی ہے اس بابت کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے اسکی بابت حقائق اور کارفرما مناظر میں کیا تبدیلی آتی ہے اسکا فیصلہ کرنا تاحال  باقی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے جو کچھ ابھی تک ہمیں معلوم ہے آگے وہ سب غلط  ثابت ہو یا زاویہ جان بوجھ کر بدل دیا جائے  اور کہانی کچھ اور ہو،مگر نتیجہ بہرحال ایک انسان کی موت کی صورت میں نکل چکا ہے،جس میں دو کلام نہیں ہے ،زندگی زندگی ہوتی ہے،یہ چاہے مذہبی رجحان کے حامل فرد کی ہو یا لبرل خدا بیزار فرد کی ،دونوں اسکے مالک نہیں ہیں یہ اللہ کی عطا ہے اسکے علاوہ کوئی اسے واپس نہیں لے سکتا ہے ،جبھی ،نور اور ظاہر ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے یا نہیں،،نور اور اسکے درمیان کیسے بھی تعلقات تھے،ظاہر کو نا اس پر تشدد کرنے کا حق حاصل  تھا اور نا اسکا استحصال کرنے کا حق حاصل تھا ،کیونکہ نور نہ  ظاہر کا بکاؤ  مال تھی اور نہ  اپنے حلقہ احباب کی غلام تھی، ہاں اگر نور احتیاط کرتی ،اور پرکھے ہوئے فرد کو دوبارہ موقع نہ   دیتی تو آج شاید وہ بچ جاتی ،یہ بات درست ہے کہ کسی نفسیاتی فرد سے بھی کوئی اتنی جابریت،ظلمیت اور بربریت کی توقع نہیں کرسکتا ہے ،کیونکہ انسان کی بابت حتمی وجدان ایک عظیم علمیت و جامعیت کا تقاضا کرتی ہے اور ایسے فوق البشر  چراغ لیکر بھی ڈھونڈھنے سے نہیں ملتے ہیں۔

اہم سوال یہ بھی  پیدا ہوتا ہے کہ موٹر وے والی  اس رات خاتون  کو ریاست پر کیسے  اتنا اعتماد ہوگیا اور خود پر حسن اعتماد ہوگیا؟ کہ تاریک سیاہ رات میں معصوم بچوں کے ساتھ نکل پڑیں،اس ملک میں ایک  پانچ ہزار کے موبائل کے لئے لوگ دوسرے مرد کو قتل کردیتے ہیں،مگر کوئی وہاں آزادی اور مرد پر حملہ کا الزام نہیں دھرتا ہے،وہاں مذہب پر الزام بھی بطور ہتھیار بروئے کار نہیں لایا جاتا ہے،کیونکہ معاملہ  سامعین و ناظرین کے پس منظر کے فرق  کا نمودار ہوتا ہے،مرد وہ جانور ہے جسکے حقوق اور مقام خود اسکی جنس کی نگاہ میں کچھ نہیں ہے، لہذا ایسے وقت میں وہاں نسائیت اور لبرل آزادی کی سیاست کا مقام نہیں ہوتا ہے، جبھی روز مرہ کا معاملہ قرار دیکر  نظر انداز کردیا جاتا ہے، ویسے اگر مساوات اور مطلق آزادی مطلوب ہوتی ہے تو اسکے سائیڈ افیکٹس بھی اپنانے ہونگے،ذاتی حفاظت و تحفظ ہر فرد کی اول ذمہ داری ہے ،اور ریاست کی بعد میں ذمہ داری ہوتی ہے۔

لہذا یہاں مذہب پر تنقید کا سرے سے جواز ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ متاثرہ خاتون سے لیکر نور تک اور سارے جرایم کے مجرمین  تک کوئی ایسے معاملات و حادثات  میں کسی صورت میں بہرحال شریعت کی پاسداری کی نیت سے نہیں نکلے تھے، چنانچہ موٹر وے والے معاملہ میں نا ہی  متاثرہ خاتون نے شریعت کی پیروی میں رات کو ویران دور افتادہ علاقہ میں سفر سے گریز کیا تھا اور نا معاشرتی بنیادوں پر اپنی ماں کی بات مانی تھی ،کہ رات ہوگئی ہے آج یہیں ٹھہرجاؤ،اسی طرح ایک کم عمری سے گناہوں کا عادی مجرم جو زناکاری کا عادی اور چوری ڈکیٹی کو کاروبار بنا کر زندہ رہتا  چلا آیا  ہو نے اس دوران مذہب،ریاست،معاشرہ اور اخلاق کو کوئی اہمیت دی تھی ،نہ  اسکے پیش نظر کوئی نصوص شریعہ تھے کہ فلاں فلاں آیت اور حدیث کی روشنی میں ایسے ایسے لوٹنا اور دوسرے کے ساتھ زنا بالجبر کرنا ہے؟،اب فرض کریں یہ صاحب عدالت میں سامنے آئے ہونگے تو جرائم    پیشہ، اسکا وکیل روزی روٹی کی خاطر اسکے گناہ کی حدت و شدت کو بھی کم کرنے میں مصروف عمل رہا ہوگا،شاید اسکا وکیل صفائی سرکاری ہو کوئی اسکا کیس لینے کا تیار نا ہوا ہو؟ بلکہ ممکن ہے انکی طرف جرم کی نسبت کو ہی سرے سے رفع کرنے میں قوت جھونک دی ہو مگر کیا کریں وہ ظاہر جعفر جیسا نہ  مضبوط خاندان کا حامل فرد تھا اور نہ  ہی اسکا جرم ڈھکا چھپا اور کوئی عام جرم تھا،اسے نشان عبرت بنایا جانا لازمی تھا۔

ایسے معاملات میں ریاست کی بد عملیت یا حدود و قیود:

دنیا بھر میں صدیوں سے جتنی حکومتیں چاہے وہ کتنی ہی منصف مزاج کیوں نا رہی ہوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ریاستیں جرائم کو کو محدود توکرسکتی ہیں،مگر انکو کامل  ختم کرنا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ کسی کے دل،دماغ اور کمرے میں کیا چل رہا ہے،فرد،ریاست اور ادارے وہاں تک جرم کے وقوع پذیر ہونے سے قبل کچھ کرنے اور نا کرنے کی حالت میں ہوتے ہیں،لہذا انصاف جرم کے بعد ہوتا ہے اس سے قبل نہیں ہوتا ہے،صرف شک پر ہر شہ کا قبل از وقت فیصلہ کر دینا  دنیا بھر میں ممکن نہیں ہے۔

باقی لوگوں کی جان مال،زندگی کا تحفظ اگر لوگوں کو معلوم ہے کہ خود انکی نگاہ میں ریاست سے ممکن نہیں ہے،تو اس صورت میں انھیں خود یہ ذمہ داری سنبھالنی ہوگی،جس طرح قانون و ریاست ان امور کے ذمہ دار ہیں اسی طرح ان سے قبل فرد خود بھی انکا ذمہ دار ہے،جبھی اسے احتیاط کرنا،ماحول کو محتاط طور پر بروئے کار لانا ،ضروری ہوتا ہے اگر وہ اس کلیہ کو اہمیت نہیں دیتے ہیں تو سمجھیں جو خود اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکتا  ہےوہ دوسرے کو بھی کلی ذمہ دار قرار نہیں دے سکتا ہے ،جبکہ اسےخود اندھیر نگری چوپٹ راج کا حال معلوم ہو،تو اسے خود احتیاط کرنی چاہیے،جبھی سول رائٹس کا معاملہ علم مدنیت کی رو سے تب تک ممکن ہے جب تک کہ فرد اپنے فرایض پورے نہ  کریں،اور اپنے ارد گرد کے ماحول،ریاست و سماج کے ماحول،رسم و رواج ،ثقافت،تہذیب و تمدن کو ذہن میں راسخ نہیں کرے،پھر وہ کسی حد تک اسکا حقدار ہوگا کہ فرایض کے بدلے حقوق مان سکے،اس کلیہ سے فرد و ادارہ کوئی بھی ہو جو ریاست کی حدود میں بستا ہو خارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ اس قسم کے مکروہ معاملات میں مجرم تو جرم کردیتا ہے،مگر کسی کو زندگی سے محروم کردیتے ہیں کسی کو عزت و وقار سے خالی کردیتے ہیں،یہ آپکی چیزیں ہیں اور آپ ہی کوان سے اوّل متاثر ہونا ہے پولیس اسے بس روز مرہ کا معاملہ جانتی ہے،انکے لئے ہر روز نیا فرد نیا معاملہ کا مقولہ مد نطر ہوتا ہے، جبھی انکا رد عمل بھی عموماً یکساں رہتا ہے،لہذا ان سے زیادہ رعایت کی توقع فضول ہے۔

لاہور کے اعلیٰ  پوپیس آفیسر کے بیاں پر تنقید کرنا سب کا حق ہے،مگر یہ بیان  ما قبل حادثہ کی احتیاطی تدابیر کے تناظر میں کوئی  غیر معقولی  موقف نہیں تھا ،کیونکہ انھیں پولیس کی کمزوریوں،جھکاو،نا اہلی،بدعنوانی کا حال ہم سے زیادہ معلوم ہے،اور پھر ایسی تاریک راتوں کو عورت کا سفر بچوں کے ساتھ خطرے سے خالی نہیں ہوتا  ہے،نبی اکرمﷺ نے جبھی عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے اور دوسری حدیث میں حکم دیا ہے کہ راتوں کو  شیطان تاک میں ہوتا ہے،دروازنے بند کردیا کرو،ایک تیسری  حدیث میں زور دیا ہے کہ کوئی فرد رات کو اکیلا سفر کرنے سے پرہیز کرے،قانون ،انصاف،ذمہ داری کی بحث سے قطع نظر یہ معاملات احتیاط اور خود انحصاری پر متعین ہوتے ہیںِ،ابھی ماضی قریب  ہی میں مریم نواز صاحبہ نے بھی یہی کہا تھا کہ :عوام اپنی حفاظت خود کریں ریاست سے توقع نہیں کریں۔

باقی موٹر وے ظاہر ہے شھروں  کئی گنا بڑا علاقہ ہے اور کل ملک میں پھیلا ہوا ہے،اسکی بھی حدود الگ الگ ہیں ساتھ میں متعلقہ تھانے بھی اس کے ساتھ اثر و نفوذ رکھتے ہیں یاد رکھیں قانوں و انصاف اندھے ہوتے ہیں،عمدہ اہلیت کی ریاستیں موٹر وے پر سہولیات فراہم کرتی ہیں،مگر پاکستان میں کلی اعلیٰ  معیار کا تقاضا تو خود اہل پاکستان کے نزدیک بھی دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے،کیونکہ ہمارا نظام کتنا اناہل ہے، ہم سب ہی بخوبی جانتے ہیں اور سہولیات کی کلی فراہمی کا نظریہ سے ہٹ کر عملی طور پر یہاں ہونا قریبا ًنا ممکن ہے،کیونکہ جو ظلم ہوگیا اسکا تدارک مجرموں کو سر عام پھانسی دیکر بھی ممکن نہیں ہے۔

خصوصا ً ایسے مجرم جو زناکاری،زنا بالجبر،قتل،ڈکیٹی  ،یا اعلی سوسائیٹی کے نجی تشددوں اور نشہ  کے کم عمری سے عادی ہوں،۔لوگ ظاہر ہے سفر کرنا نہیں چھوڑینگے ،ریاست اور متعلقہ اداروں  کو اب اپنی نا اہلیت کا مداوا کرنا پڑے گا ،مگر ان سے ایک حد سے زیادہ اہلیت کی توقع کرنا بھی بے وقوفی ہوگی۔جہاں جوان ،ہٹے کٹے مرد محفوظ نہیں ہوں وہاں عورت کا اکیلے سفر کرنے کا اصرار رات بارہ بجے ماں کے منع کرنے کے باوجود کرنا بے وقوفی اور خوش فہمی سے زیادہ کیا ہوگا؟ اسی طرح ماں باپ کو آزادی دینے کی حکمت عملی پر یقین کرنے سے قبل دیکھنا ہوگا کہ کہیں ایسی آزادیاں شتر بے مہار بن کر انکے جگر گوشوں کی موت کا سامان نہ  بن جائیں ،یاد رکھیں جب مرد اور عورت مساوات جنسی کی بنیاد پر جنسی تعلقات قایم کرتے ہیں تو لبرل حقوق کی مساوات کاری جسمانی مساوات اور قوت کے فطری اور تخلیقی زاویہ کو بدل نہیں سکتی ہے،قانون انکو مساوی بنا سکتا ہے مگر فردی تعلقات کی مساوات میں جب دو طرفہ جسمانی تصادم و اختلاف پیدا  ہوتا ہے تو وہاں مردانہ جنس کی قوت جسمانی طور پر عورت پر غلبہ رکھتی ہے،عین ایسے جیسے انکے درمیان تصادم میں جسمانی قوت کی تفریق دیکھنے کو ملتی ہے  ،ذہنی موضوعیت میں تبدیلی جسمانی خارجی معروضیت کو نہیں بدل سکتی ہے،جبھی ایسے تصورات نجی سطح پر تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں،ریاست زندہ کو انصاف دلوا سکتی ہے، مردے  کو انصاف سے زندگی نہیں مل سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی جب یورپ اور امریکہ میں بھی جنسی جرائم،زنا بالجبر کا وقوع پذیر ہونا کثرت سے عام ہے،لہذا پاکستان سے ان سے زیادہ کی توقع کرنا خواب خرگوش سے زائد کچھ نہیں ہے۔لہذا ماڈرن لبرل خواتین اگر اکیلے سفر پرا صراری ہیں تو لائسنس اسلحہ لیکر نکلیں،گاڑی کا پیٹرول فل کر کے نکلیں،موبایل کے دو تین کنیکشن بیک وقت ساتھ رکھیں تاکہ کوئی نہ کوئی سگنل کام کرے، آدھی رات گئے اکیلے نکلنا عقلمندی کی نشانی نہیں ہے،بلکہ اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر ہے لوگوں کی باتوں میں آکے آذادی کی حتمیت کے دعووں کے دھوکوں میں مت آئیں ورنا عملی نقصان کی ذمہ دار خود ہوں  گی ،کیونکہ جس طرح خواتین کو اپنی آزادی پر اصرار ہے ویسے ہی درندے ،وحشی جانورجیسے ملھی،عثمان مرزا  اور ظاہر جعفر  وغیرہ  جیسے نفسیاتی مریض کسی کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں صرف اپنی قوت و ہوس کو مانتے ہیںِ،یہ کب کہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں اسکا کوئی حل نہیں ہے،لہذا جنگل میں درندوں سے بچنا بچانا آپکا ذاتی کام پہلے ہے،دوسرے کا بعد میں ہے،جنگل کے باسی ہیومن رایٹس ڈسکورس،نعروں اور احتجاجوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ہیں یہاں خوف،تاریکی ،وحشت،دہشت اور طاقت کی حکمرانی ہوتی ہے،سور اور گیڈر اکیلے شکار کو معاف کرنا نہیں جانتے ہیں،آپکی زندگی فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے،واقعے کے مابعد سائیڈ افیکٹس آپکی دعوت کا نتیجہ ہیں:غور کریں:جذباتی نہیں بنیں کیونکہ حکومت آپ نہیں کوئی اور چلاتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply