کربلا اک درس گاہ۔حمزہ حنیف مساعد

محرم لحرام اسلامی مہینوں کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے ماہ محرم الحرام سے لے کر ذوالحج تک تاریخ کامیابیوں، کارناموں ، اور واقعات سے پر ہے۔ہر سال محرم الحرام کی آمد پر حضرت سیدنا حسینؓ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ہر مسلمان شہادت حسینؓ کے واقعات میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ مختلف پروگراموں اور جلسوں کے ذریعہ حضرت حسینؓ کی شہادت کی تفصیلات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ نواسۂ رسولؐ ، جگر گوشۂ نبیؐ کی شہادت، اسلامی تاریخ کا ایک ایسا عظیم واقعہ ہے کہ صدیوں اس کی یاد تازہ رہے گی اور انسانیت کے لیے مشعل راہ کا کام دے گی۔

امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو رسم کی شکل دینے کی عادی ہو چکی ہے۔ شہادت حسینؓ کا واقعہ بھی سالانہ رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ماہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ اس واقعہ کو رسمی طور پر مذاکرہ کر کے یہ اطمینان کر لیا جاتا ہے کہ ہم نے نواسۂ رسولؐ سے وابستگی کا حق ادا کر دیا۔ اسلامی تاریخ کا ہر واقعہ اپنے اندر عبرت و موعظت کا بے پناہ سامان رکھتا ہے اور عملی زندگی میں اس سے بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی حادثہ اور واقعہ سے عملی رہنمائی حاصل کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جبکہ زندہ قومیں ہمیشہ ماضی سے روشنی حاصل کرتی ہوئی مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔

حضرت سیدنا حسینؓ کی شہادت اور کربلا کی سرزمین پر پیش آئے واقعات کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس سے بے شمار نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے عملی زندگی میں بہت کچھ رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ذیل میں اس قسم کے چند نکات کی نشاندہی اس مقصد سے کی جا رہی ہے کہ شاید ملی حمیت و غیرت رکھنے والے درد مندانِ ملت ان پہلوؤں پر غور کریں گے۔۔

1 حضرت حسینؓ کی شہادت کا سب سے بنیادی پیغام یہ ہے کہ آدمی کو حق اور دینِ حق سے اس درجہ وابستگی ہو کہ وہ حق کے لیے جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے اور اگر جان کی قربانی دے کر حق کی حفاظت کی جا سکتی ہو تو اس میں کسی طرح کا پس و پیش نہ کرے۔ یزید کی بیعت کے وقت جو صورت حال تھی اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسلامی نظام حکومت اپنی ڈگر سے ہٹ رہا ہے۔ نبی کریمؐ اور خلفائے راشدین کے دور میں خلافت کا نظام رائج تھا اور اسلام جس نظام حکومت کی بنیاد رکھتا ہے وہ یہی نظام خلافت ہے۔ یزید کی آمد کے ساتھ اسلامی نظام حکومت خلافت کی ڈگر سے ہٹ کر ملوکیت میں تبدیل ہو گیا اور یہ اسلامی نظام زندگی میں ایسی اساسی تبدیلی تھی کہ جس کے اثرات صدیوں تک باقی رہے۔

بنو امیہ، بنو عباسیہ اور خود ہندوستان میں مغلوں نے بھی ملوکیت ہی کے نظام کو چلایا۔ چونکہ ملوکیت خلافت کی ضد ہے اس لیے ملوکیت کی آمد کے ساتھ مسلم معاشرہ بالکلیہ تبدیل ہو گیا۔ خلافت و ملوکیت ایک دوسرے سے بالکلیہ مختلف ہیں۔ خلاف میں امیر المومنین کا طرز زندگی ایک عام رعایا کی طرح ہوتا ہے لیکن ملوکیت میں شاہانہ ٹھاٹ باٹھ ہوتی ہے۔ خلافت میں لوگوں کو خلیفہ کے محاسبہ کی آزادی حاصل رہتی ہے اور ملک کا ایک ادنیٰ باشندہ خلیفہ کی گرفت کر سکتا ہے لیکن ملوکیت میں بادشاہ محاسبہ سے ماورا ہوتا ہے اس کے خلاف کوئی چوں و چراں نہیں کر سکتا۔ خلافت میں سارے اجتماعی معاملات شورائی نظام کے تحت طے پاتے ہیں۔

خلیفہ من مانی نہیں کر سکتا لیکن ملوکیت میں بادشاہ خود مختار ہوتا ہے۔ سارے فیصلے اپنی انفرادی رائے سے نافذ کرتا ہے۔ خلافت میں سارے معاملات کتاب و سنت کے مطابق طے کیے جاتے ہیں جبکہ ملوکیت میں ساری چیزیں بادشاہ کے اردگرد گھومتی ہیں۔ خلافت میں بیت المال رعایا کی امانت ہوتا ہے جس کا خلیفہ محض نگراں ہوتا ہے۔ ملوکیت میں بیت المال بادشاہ کا ذاتی خزانہ بن جاتا ہے۔ خلافت میں خلیفہ تقویٰ و عبادت کے اونچے معیار پر ہوتا ہے جبکہ ملوکیت میں اقتدار کا نشہ سوار رہتا ہے اور بادشاہ اقتدار کے نشہ میں احکام الٰہی کو پامال کرتا ہے۔ (الا ما شاء اللہ) خلافت میں عدالت اور عدالتی عملہ کو پوری آزادی حاصل ہوتی ہے۔

عدلیہ حکومتی دباؤ سے آزاد رہتی ہے لیکن ملوکیت میں عدلیہ کو آزادی حاصل نہیں رہتی۔ خلافت و ملوکیت کے اس فرق سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یزید کا اقتدار پر آنا کیسی خطرناک تبدیلی کا پیش خیمہ تھا۔ اسلامی نظام زندگی بالکل اُلٹ کر رکھ دیا جا رہا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر حضرت سیدنا حسینؓ نے جان کی قربانی نہ دی ہوتی تو اسلامی خلافت کے تصور کا کتابوں میں محفوظ رہنا بھی مشکل ہوتا۔ حضرت سیدنا حسینؓ جانتے تھے کہ اس وقت ملوکیت کی مخالفت کرنا اور اس کے آگے ڈٹے رہنا وقت کا تقاضہ ہے اس لیے انہوں نے اپنی جان کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا۔

بیعتِ یزید کے وقت کیا صورت حال تھی اور حضرت حسینؓ نے اقدام جہاد کیوں کیا، اس کا اندازہ آپ کے ان حالات میں دیے گئے ایک خطبہ سے ہوتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا ’’اے لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرمات الٰہی کو حلال کرنے والے، سنت رسولؐ کے مخالف اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور اس کو قولاً و عملاً غیرت نہ آئی تو خدا کو حق ہے کہ اس کو بادشاہ کے بجائے دوزخ میں ڈال دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی ہے۔ رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدودِ الٰہی کو بیکار کر رہا ہے۔ خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کر رہا ہے اور حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ اس لیے مجھ کو غیرت آنے کا زیادہ حق ہے‘‘ (ابن الاثیر بحوالہ سیر الصحابہ)

اس خطبہ کے ایک ایک لفظ سے غیرتِ اسلامی چھلکتی ہے اور حفاظتِ حق کا وہ جذبہ ظاہر ہوتا ہے جس کے تحت حضرت حسینؓ نے جان کی بھی پرواہ نہ کی۔ حضرت حسینؓ نے اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات کے لیے جان کی قربانی دی۔ انہوں نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ حق کے لیے سر کٹایا جا سکتا ہے لیکن باطل کے آگے سر نگوں ہونا مومن کی شان نہیں۔ مومن کا سر حق کے لیے کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے آگے جُھک نہیں سکتا۔شہادتِ حسینؓ کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ مومن کو حق کے دفاع اور تحفظ کے لیے ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔

علمبردارانِ حق کبھی ظاہری اسباب تعداد و اسلحہ سے مرعوب نہیں ہوتے۔ حضرت حسینؓ باوجود اس کہ ان کے حامیوں کی تعداد کم تھی ان کے پاس اسباب بھی کم تھے لیکن وہ دشمن کے اسباب و وسائل سے مرعوب نہیں ہوئے۔ جنگ بدر میں حضورؐ کا طرز عمل بھی اس کی شہادت دیتا ہے۔ ہر زمانہ میں اہل حق نے بے سر و سامانی کے عالم میں حق کا دفاع کیا۔ نیز حضرت حسینؓ کے واقعہ سے اس کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ کامیابی و ناکامی کا تعلق ظاہری فتح و شکست سے نہیں۔ اصل چیز مقصد میں کامیابی چاہے وہ لڑتے لڑتے جان دینے سے کیوں نہ حاصل ہو جائے۔ حضرت حسینؓ شہید ہوئے۔ یزیدی فوج کو بظاہر فتح حاصل ہوئی لیکن حقیقی کامیابی سے حضرت ہمکنار ہوئے۔ جس مقصد کے لیے وہ اٹھے تھے اس میں انہیں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی۔

(2) حضرت حسینؓ کی شہادت سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ مومن کو نامساعد اور ناموافق حالات میں بھی حق پر جمے رہنا چاہیے اور حق سے وابستگی میں کمزوری آنے نہ دینا چاہیے۔ لوگ عام طور پر موافق حالات میں تو حق کو اپناتے ہیں لیکن جب نامساعد حالات کا سامنا ہو تو ان کے لیے حق پر اور دین پر جمے رہنا دشوار ہو جاتا ہے پھر وہ باطل سے سمجھوتہ کرنے میں عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔ موافق حالات میں دین پر جمے رہنا کوئی کمال نہیں، کمال تو یہ ہے کہ ناموافق حالات میں بھی دین کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ آج کتنے مسلمان ہیں کہ ناموافق حالات میں شکوہ و شکایات شروع کر دیتے ہیں اور دین حق سے وابستگی میں انہیں خوف محسوس ہونے لگتا ہے۔ دہشت گردی کے الزام کے خوف سے بہت سے لوگوں کو دکھایا گیا کہ انہوں نے اپنی اسلامی وضع قطع کو خیر باد کہہ دیا۔
(3) شہادتِ حسین کا تیسرا سبق یہ ہے کہ مومن کو مخالفانہ ماحول سے متاثر نہ ہونا چاہیے۔ بیعتِ یزید کے وقت بیشتر لوگ خوف کے مارے سکوت اختیار کیے ہوئے تھے۔ ماحول بالکل مخالفانہ تھا لیکن حضرت حسینؓنے اس کی پروا نہیں کی۔ جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے بھی انتہائی مخالفانہ ماحول میں توحید کا نعرہ بلند کیا اور خود نبی کریمﷺ بھی مکہ کے مخالفانہ ماحول میں حق پر جمے رہے۔ آج اکثر لوگ دینی معاشرت اور تہذیب کو اختیار کرنے میں اس لیے احتراز کرتے ہیں کہ لوگ اور اہل خاندان مخالفت کریں گے۔ ایک مومن کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی ناراضگی کی پروا نہ کرے بلکہ صرف خدا کو راضی کرنے کی کرے۔ خدا کی رضا کے لیے چاہے ساری مخلوق ناراض ہو جائے تو بھی کوئی پروا نہ کرے۔

(4) شہادتِ حسینؓ کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ مومن کو حق کے دفاع اور تحفظ کے لیے ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ علمبردارانِ حق کبھی ظاہری اسباب تعداد و اسلحہ سے مرعوب نہیں ہوتے۔ حضرت حسینؓ باوجود اس کہ ان کے حامیوں کی تعداد کم تھی ان کے پاس اسباب بھی کم تھے لیکن وہ دشمن کے اسباب و وسائل سے مرعوب نہیں ہوئے۔ جنگ بدر میں حضورؐ کا طرز عمل بھی اس کی شہادت دیتا ہے۔ ہر زمانہ میں اہل حق نے بے سر و سامانی کے عالم میں حق کا دفاع کیا۔ نیز حضرت حسینؓ کے واقعہ سے اس کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ کامیابی و ناکامی کا تعلق ظاہری فتح و شکست سے نہیں۔ اصل چیز مقصد میں کامیابی چاہے وہ لڑتے لڑتے جان دینے سے کیوں نہ حاصل ہو جائے۔ حضرت حسینؓ شہید ہوئے۔ یزیدی فوج کو بظاہر فتح حاصل ہوئی لیکن حقیقی کامیابی سے حضرت ہمکنار ہوئے۔ جس مقصد کے لیے وہ اٹھے تھے اس میں انہیں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی۔

(5) حضرت حسینؓ کی شہادت کے واقعات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مصیبت ہو کہ خوشحالی ہر حال میں مومن احکام الٰہی کا پابند ہے۔ شدت مصیبت سے ٹکرا کر وہ احکام الٰہی کو پامال نہیں کرتا۔ عین حالتِ جنگ اور معرکۂ کارزار میں بھی حضرت حسینؓ نے نماز ترک نہیں فرمائی اور اللہ کے احکام کو پامال ہونے نہیں دیا۔ آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ گھر میں کسی کا انتقال ہو جائے یا کوئی مصیبت آ جائے تو ہم اسلامی پابندیوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ عموماً خوشی اور غم کے موقع پر احکام شریعت کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔

(6) واقعہ شہادتِ حسینؓ اور دیگر انبیاء کرام کے ساتھ پیش آئے واقعات سے ایک بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ اللہ نے جس کسی کو بلند مقام عطا فرمایا اسے پہلے آزمائش میں مبتلا کیا۔ حضرت ابراہیم کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا:
واذ ابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن فال انی جاعلک للناس اماماً (بقرہ) حضرت ابراہیم کو پہلے آزمائش سے گزارا گیا پھر منصب امامت پر فائز کیا گیا۔ آزمائش سے راہ فرار اختیار کرنے والے ہمیشہ پست رہتے ہیں، آزمائش میں کھرے اترنے والے عظیم ہوتے ہیں اور ایمان کے ساتھ ہمیشہ امتحان رہا ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو آزمائشوں پر گھبرانا نہیں چاہیے یہ ان کے لیے بلندء  درجات کا ذریعہ ہوتی ہیں۔

(7) واقعہ شہادت حسینؓ کا ایک عظیم نکتہ ہے جس کی طرف مولانا آزاد نے اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ شہادت حسینؓ دراصل تکمیل جہاد کا ذریعہ ہے۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں ’’اب تک کسی پیغمبر کے خاندان نے جہاد میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ شخصی طور پر جو قربانیاں دی گئیں وہ راہ ہی میں رُک گئیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کو خدا کی نظر کرنا چاہا لیکن اس کا موقع ہی نہ آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے کی تیاری تھی لیکن بچا لیے گئے۔ آج تک تمام خاندان نبوت نے اس میں شرکت بھی نہیں کی تھی اور اس کی کوئی نظیر تمام سلسلۂ انبیاء میں نظر نہیں آتی کہ صرف بھائی، صرف بیٹا، صرف بیوی ہی نے مقصد نبوت میں ساتھ نہ دیا ہو بلکہ بلا تمیز خاندانِ نبوت کے اکثر اعزا و ارکان راہ حق میں قربان ہوئے ہوں۔

یزید کی شخصی خلافت کی بیعت کے لیے جو ہاتھ بڑھے تھے وہ اسلام کی جمہوریت کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے اور مذہب کی قربانیاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ہوا کرتی تھی اس لیے جو اسوۂ ابراہیم کے زندہ کرنے کا ٹھیک وقت آ گیا تو خاندانِ نبوت کے زن و مرد بال بچے غرض ہر فرد نے اس میں حصہ لیا اور جن قربانیوں کے پاک خون سے زمین کی آغوش اب تک خالی تھی ان سے کربلا کا میدان رنگ گیا۔ پس حضرت حسینؓ کا واقعہ شخصی واقعہ نہیں ہے اس کا تعلق صرف اسلام کی تاریخ سے نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل حقیقت سے ہے۔ یعنی وہ حقیقت جس کا حضرت اسماعیلؑ کی ذات سے ظہور ہوا تھا اور بتدریج ترقی کر کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات تک پہنچ کر گم ہو گئی تھی۔ اس کو حضرت حسینؓ نے اپنی سرفروشی سے مکمل کرایا۔ خاندان نبوت دنیا کو آباد کرنے کے لیے ہمیشہ اجڑتا رہا۔

حضرت ابراہیمؑ نے ہجرت کی۔ حضرت موسیٰؑ نے گھر بار چھوڑا اور نبوت محمدیؐ کے متبعین میں سے حضرت حسینؓ نے میدان کربلا کے اندر اس خانہ ویرانی کو مکمل کر دیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے خاندانِ نبوت کا سلسلہ ملا ہوا ہے۔ انہوں نے ایک وادی غیر ذی زرع میں شدت تشنگی سے ایڑیاں رگڑی تھیں۔ حضرت حسینؓ نے بھی میدانِ کربلا میں اس خاندانی روش کو زندہ کیا۔‘‘
(8) حضرت مولانا عبدالماجد دریا آبادی واقعۂ شہادت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’سیدنا حضرت حسینؓ نے اگر از خود کہیں حملہ کر دیا ہوتا تو مخالفین کو یقیناً یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ فوج کشی، ملک گیری اور حصول سلطنت کے اغراض سے ہوئی اور اگر کہیں حکومتِ فاسقہ کے مطالبہ بیعت کو مان لیا ہوتا تو دوسری طرف اُمت کے لیے ایک سند اور نظیر قائم ہو جاتی کہ مرد حق پرست کے لیے باطل کی اطاعت اور فسق سے مفاہمت جائز اور درست ہے۔ حضرت حسینؓ نے افراط اور تفریط دونوں سے بچ کر وہ راستہ اختیار کیا جو عین عدل و اعتدال کا راستہ تھا۔ اسوۂ حسین ہمیشہ کے لیے امت کے حق میں دلیل راہ بن گیا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں جو سبق اور پیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لال نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کے لئے مشعلِ راہ و ہدایت ہے۔ ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہ قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد اور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے: نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا اور ہندوستان میں اسلام کی روشنی لانے پھیلانے والے صوفی چشتی بزرگ خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ۔ شاہ است حسین ؓ بادشاہ یت حسین دیں است حسین دیں پناہ است حسین سر داد نہ داد دست در دست یزید حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسین اللہ ہم لوگوں کو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے اور حق پر چلنے کی توفیق نخشے۔ آمین ثمہ آمین

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply