مسئلہ کشمیر اور حالیہ الیکشن(1)۔۔آغر ندیم سحر

میں جس وقت یہ کالم لکھنے میں مصروف ہوں،آزاد کشمیر میں ضمنی انتخابات جاری ہیں۔حکومتی پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں کشمیر کو اپنے نام کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔مجھے لگ رہا ہے کہ کشمیری بھی نئے پاکستان کی طرح ”نئے کشمیر“ کو سپورٹ کریں گے اور پاکستان تحریک انصاف ان انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلے گی۔کیا ایسا نہیں ہے کہ حکومتی پارٹی سمیت تمام جماعتیں کشمیر کو ہمیشہ مفادات کے پیش نظر دیکھتی رہیں‘آپ کشمیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘کشمیریوں کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوا۔ان کو سبز باغ دکھا کر لوٹا گیا۔جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ”جب میری کوئین آف سکاٹس سے فرانسیسیوں نے کیلے کی بندرگاہ چھین لی تو میری نے کہا کہ مرتے وقت میرے دل کو چیرا جائے تو کیلے کا لفظ وہاں کھدا ملے گا،اسی طرح میرے دل میں بھی کشمیر کا لفظ نقش ہے“۔

نہرو کے ان الفاظ پر شیخ عبد اللہ نے کہا تھا کہ نہرو کی یہ توجہ کشمیر کی خوش قسمتی بھی ثابت ہوئی اور بد قسمتی بھی۔ان کے برعکس قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا۔نہرو کا جذباتی بیان ہو یا پاکستانی عمائدین کا خشک اظہار‘کشمیر کو دونوں ملکوں نے اپنے لیے ناگزیر جانا۔میں احمد سلیم کی کتاب”بھٹواو رکشمیر“پڑھنے میں مصروف ہوں تاکہ میں کشمیر کا سارا پس منظر سمجھ سکوں۔احمد سلیم نے اپنی کتاب میں جو لکھا‘میں اس کا مختصرذکر کرتے ہوئے حالیہ کشمیری انتخابات کی جانب بڑھوں گا کیونکہ اگلے ہفتے میں ایک ہفتے کے دورے پر آزاد جموں کشمیر پہنچ رہا ہوں‘میں چاہتا ہوں کہ وہاں جا کر رپوٹنگ کرنے سے پہلے ہم اس سارے معاملے کا پس منظر سمجھ لیں۔

یہ16 مارچ 1846ء کا دن تھا جب ہنری لارنس اور جموں کے گورنر گلاب سنگھ نے امرتسر کے مقام پر ایک معاہدے پر دستخط کیے۔معاہدے کی رو سے یہ طے پایا کہ انگریزی حکومت ان تمام پہاڑی علاقوں کو‘جو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع ہیں۔معہ ریاست چمبہ کے‘ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گلاب سنگھ اور اس کے جانشینوں کے حوالے کرتی ہے۔اس علاقے کی مشرقی سرحد کا تعین طرفین کی جانب سے مقرر کردہ نمائندے کریں گے اور ان علاقوں کا قبضہ حاصل کرنے کے بدلے میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ نانک شاہی روپیہ ادا کرنا ہوگا۔

معاہدے کی دیگر شرائط میں ریاست پر انگریزی تسلط اور عمل دخل بڑھ گیا۔کشمیر میں ڈوگرہ راج نے سکھوں کی جگہ لے لی۔46۔1819ء کے دوران سکھوں نے جبروتشدد کی نئی نئی مثالیں قائم کیں لیکن ڈوگرہ راج میں‘اپنی بربریت میں سکھوں سے بھی آگے نکل گیا۔کشمیر کی80 فیصد مسلمان آبادی کو زندہ رہنے کی صرف اس لیے اجازت تھی کہ وہ سانس لینے کا بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں،اس ساری صورتحال کے خلاف ردعمل آیا۔1846ء کے معاہدہ امرتسر کے خلاف میرپور‘پونچھ‘راجوری‘رانی پور‘بلتستان اور گلگت کے عوام نے علمِ بغاوت بلند کر دیا۔

بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی تک یہ آگ سارے کشمیر میں پھیل گئی۔1924ء میں ریشم خانہ سری نگر نے معاشی استحصال اور ظلم و ستم کے خلاف تاریخی ہڑتال کی۔کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں کے اثرات کشمیری عوام پر بھی پڑنے لگے۔1925ء میں آخری ڈوگرہ حکمران راجہ ہری سنگھ تخت نشین ہوا۔

1913ء تک تشدد اور مزاحمت دونوں اپنی انتہا کو پہنچ گئے۔17۔12 اکتوبر1932ء کو شیخ عبد اللہ اور چودھری غلام عباس کی قیادت میں جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی گئی۔ان آزادی کی تحریک کو ایک سیاسی بنیاد میسر آ گئی تھی لیکن 1937ء تک کشمیری مسلمانوں کی یہ قومی جماعت دو ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی۔شیخ عبد اللہ نے کشمیر نیشنل کانفرنس کے نام سے اپنی الگ سیاسی تنظیم قائم کر لی۔47۔1946ء برصغیر کی زندگی کے انتہائی ہنگامہ خیز دن تھے،ان کا اثر کشمیر پر بھی پڑا جو ہندوستان کی 520 ریاستوں میں سے ایک تھی۔ریاست کے حکومت برطانیہ سے تعلقات مختلف معاہدوں کی بنیاد پر قائم تھے اور ان ریاستوں کی ہندوستانی قانون سے بیرونی علاقہ قرار دیا گیا تھا۔تاجِ برطانیہ کے نمائندوں نے واضح کر دیاکہ برطانیہ کو ریاستوں پر جو بالادستی حاصل ہے وہ کسی اور کو منتقل نہیں کی جائے گی۔

3 جون1947ء کو تقسیم ِ ہند کے جس منصوبے کا علان کیا گیا اس کے مطابق 15اگست 1947ء سے تمام معاہدے ختم کیے جا رہ رہے تھے اور ریاست کے سامنے تین ممکنہ راستے کھلے تھے۔پہلا،کود مختاری کا علان،دوسرا،ہندوستان یا پاکستان سے الحاق اور تیسرا،ریاستیں باہمی طور پر ایک دوسرے سے الحاق کر لیں۔

10 جولائی 1947ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں آزادی کا بل پیش ہوا‘وزیراعظم اٹیلی نے اس بل پر مفصل تقریر کی جس کے مطابق معاہدوں اور عہد ناموں کے خاتمے کے ساتھ ہی ریاستوں کو اپنی خودمختاری واپس مل جائے گی۔ماؤنٹ بیٹن نے تمام ریاستوں کے حکمرانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی اپنی ریاست کی جغرافیائی پوزیشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ کانگرس ریاستی خود مختاری حق میں نہیں تھی اور نہرو نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ ”ریاستیں پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق تو کر سکتی ہیں لیکن وہ آزاد خود مختار بن کر زندہ نہیں رہ سکتیں“۔مسلم لیگ کا موقف اس کے برعکس تھا،قائد اعظم نے 17 جون اور 30 جون 1947ء کو اپنے بیانات میں واضح کیا کہ مسلم لیگ کو ریاستوں کے وجود کے بارے کوئی غلط فہمی نہیں۔اقتدار ِ اعلیٰ کی منتقلی کے ساتھ ہی ہندوستانی ریاستوں کو خود بخود یہ حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں یا آزاد رہنے کا فیصلہ کریں۔ان دو متضادموقف رکھنے والی سیاسی قیادتوں کی غیر معمولی دل چسپی قابلِ غور تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی وہ زمانہ تھا جب کشمیر کو پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ ملحق کرنے کی الگ الگ کوششوں کا آغاز ہو چکا تھا‘اس شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس دونوں ہی جیل میں تھے۔ان دنوں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس چودھری حمید اللہ کی زیرِ صدارت ہوا۔اس اجلاس میں مجلس عاملہ نے ریاست کو خود مختار رکھنے کی سفارش مرتب کر کے اسے جنرل کونسل میں پیش کیا۔جنرل کونسل کا اجلاس 19 جولائی 1947ء کو سری نگر میں ہوا‘مجلس عاملہ نے یہ فیصلہ ایک خط کی بنا پر کیا تھا جو قائد اعظم کی جانب سے ان کے لیٹر پیڈ پر لکھا ہوا تھا۔یہ خط مشورے کے لیے جیل میں چودھری غلام عباس کو بھیجا گیا جنہوں نے اسے قائد اعظم کا خط تسلیم کرنے سے انکار کر دیااور کہا کہ ریاستوں کو پاکستان یا ہندوستان سے الحاق تسلیم کرنا ہوگا۔انھوں نے مشورہ دیا کہ مسلم کانفرنس، پاکستان سے الحاق پر زور دے۔19جولائی سری نگر کے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کر لی گئی۔(جاری ہے)

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply