اُردو کے خلاف ایک اور سازش/ابھے کمار

کچھ دنوں پہلے دہلی پولیس نے یہ حکم صادر کیا تھا کہ ایف آئی آر درج کرتے وقت ان الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے، جو فریادی کی زبان پہ  نہ ہوں ۔ اس بابت اپریل کی اا تاریخ کو دہلی پولیس کمشنر کے دفتر سے ایک سرکلر جاری ہوا۔آڈر یہ تھا کہ عام فہم اور آسان الفاظ کا ہی استعمال کیا جائے۔سرکلر میں مزید کہا گیا کہ اردو فارسی کے مشکل اور غیر مقبول الفاظ، جن کو پی ایچ ڈی یافتہ لوگ تو سمجھتے ہیں، مگر عام انسان کے پلے نہیں پڑتے ہیں، ان سےحتی الامکان گریز کیا جائے۔دہلی پولیس نے مذکورہ سرکلر کو جاری کرنے کے پیچھے ۲۰۱۸ کی مفاد عامہ کی ایک عرضی کا حوالہ دیا، جو دہلی ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔اس عرضی میں کورٹ سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ وہ اردو اور فارسی کے غیرمروجہ الفاظ کے استعمال پر پابندی لگائے۔اس عرضی پرسماعت کرتےہوئے، دہلی ہائی کورٹ نے ۷ اگست ۲۰۱۹ کے اپنے فیصلہ میں کہا کہ فریادی کی زبان میں پولیس رپورٹ لکھی جائے۔اس فیصلہ کے چار سال بعد، مذکورہ حکم  نامہ کو نافذ کرنے کی خاطر سرکلر جاری کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں ۳۸۰ اردو اور فارسی کے الفاظ کی فہرست پولیس تھانوں کو بھیجی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کا استعمال بند کر دیا جائے۔کیا یہ الفاظ واقعی عام لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہیں؟ یا پھر اردو کے خلاف ایک اور سازش رچی گئی ہے؟

سرکلر میں جن الفاظ کو “غیر مقبول” کہا  گیا ہے، در اصل وہ ایسے الفاظ ہیں ، جن کو پڑھے لکھےکیا، غیر پڑھے لکھے انسان بھی خوب سمجھتے ہیں اور ہر روز بولتے ہیں۔بے شک یہ ایسے الفاظ ہیں، جن کو سڑکوں اور بازاروں  میں سنا جا سکتا ہے۔ان الفاظ کے بغیر نہ تو فلموں کےنغمے لکھے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ڈائیلاگ مکمل ہو سکتے ہیں۔نیوز اینکر اور خبرنویس ہر روز ان الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔اخبار کی سرخیوں میں بھی یہی الفاظ آپ کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔یہاں تک کہ سیاست دانوں کی تقریریں بھی انہی الفاظ سے آراستہ ہوتی ہیں۔جن الفاظ کو غیر مروجہ کہہ کر باہر کیا گیا ہے، ان میں سے کچھ کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں: اہم، مجرم، عہدہ، الزام، اقبال، قابل، خدمت، گزارش، گفتگو، گروہ، چشم دید، ظاہر، طلب، تعلق، دستاویز، دُرُست، حالات، فضول، بدنیت، موقع، باقائدہ، مناسب، موجودگی، مخبر، معرفت، محفوظ، نتیجہ، نظربند، واردات، شخص، شہادت، شناخت، ہدایت، حفاظت، حکم، آغاز، عرف، جائز، ممکن، بےکار، خلاف، مشورہ، دخل، فریادی، گشت، اتفاق، دستخط، خواہش، چند، فرمان، جرح، گِلہ، توجہ، بےوجہ، اطلاع، اندیشہ، آگاہ، اجازت، قرار، قابض، فوجداری، بیان، بَری، مجمع، معصوم، مقام، ذلیل، جوابدہ، جرم، جسم، موجود، مہلت، رشوت، رہا، لاوارث، وجہ، سنگین، ثابت، سراغ، تبدیل، تمام، حوالات ، وغیرہ۔ کیا کوئی زبان کا ماہر ان الفاظ کو غیر مقبول کہہ سکتا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔

یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ اب پولیس محکمہ، اپنے اصلی کام کو چھوڑ کر، شعبہ لسانیات کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ پولیس کو جرم پر قابو پانے کی ذمہ داری دی گئی ہےاور ان سے مقدموں میں غیر جانب دارانہ طریقے سے تفتیش کرنے کا کام سپرد کیا گیا ہے، مگر اب وہ اپنی توانائی کہیں اور خرچ کر رہے ہیں۔پولیس یہ بات یاد رکھتی کہ حال کے دنوں میں کورٹ نے ان کی سخت سرزنش کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنا کام ٹھیک طریقہ سے نہیں کر رہی ہے۔مگر اپنے اصل کام پر فوکس کرنے کے بجائے، پولیس زبان، ادب اور لسانیات پر تحقیق کر رہی ہے! کون سے الفاظ مقبول ہیں، اورکون سے  غیر مقبول ، ان کے بارے میں یونیورسٹی اور تحقیقی اداروں میں بیٹھےماہرین کی جگہ، خاکی وردی والے فیصلہ کر رہے ہیں۔ نہ صرف یہ ملک کے وسائل اور توانائی کا بےجا استعمال ہے، بلکہ یہ سب اس خدشہ کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ پولیس کے بہانے پردے کے پیچھے پیٹھی سیاسی قوتیں اردو دشمنی نکال رہی ہیں۔

یہ سب دیکھ کر دل غمگین ہو جاتا ہےاور ذہن پریشانی ہو جاتا ہے۔آخر ملک کس سمت میں جا رہا ہے؟ بھارت کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں دھرم کی بنیاد پر کبھی زبانوں کو تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔جب ملک میں مذہب کے نام پر تہوار نہیں بٹ سکے، تو زبان کیسے بٹ سکتی ہے؟ زبان دھرم کی نہیں بلکہ معاشرے کی ہوتی ہے۔ معاشرے میں مختلف مذاہب اور عقیدہ کے لوگ رہتے ہیں۔ پھر دھرم کا زبان سے کیا رشتہ ہو سکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو زبان کو جاننےاور لکھنے والے بہت سارے غیر مسلم تھے ا ور  ہیں؟ کیا اردو ادب کی تاریخ ان لاتعداد غیر مسلم ادبا، شعرا اور مصنفین کا ذکر کیے بغیر پوری ہو سکتی ہے؟ ہر گز بھی نہیں۔ اسی طرح بہت سارے مسلم قلم کاروں، ادیبوں اور شاعروں نے ہندی اور سنسکرت زبان کی بے لوث خدمت کی ہے۔پریم چند کو ا   ردو کا ادیب کہا جائے یا ہندی کا؟راہی معصوم رضا ہندی کے تھے یا اردوکے؟ راہی صاحب نے مہابھارت سیریل کے لیے جو ناقابل فراموش ڈائیلاگ لکھے، کیا اس کے بغیر مہابھارت اتنا مقبول ہو سکتا تھا؟نوآبادیاتی دور میں منشی نول کشور نے اردو ادب کی جو خدمت کی ہے، کیا اس  کی مثال کہیں اور ملتی ہے؟ اسی طرح آزاد بھارت میں گوپی چند نارنگ کا نام لیے بغیر کیا اردو ادب اور لسانیات پر بات مکمل ہو سکتی ہے؟

بے حد افسوس کا مقام ہے کہ اقدار پر ایسی ذہنیت قابض ہے، جو ہندوستان کے خوبصورت چمن سے ایک پھول کو چھوڑ کر، باقی تمام گلوں کو توڑ دینا چاہتی ہے۔ان نادانوں اور بد بختوں کو یہ بات نہیں معلوم کہ اردو، فارسی اور عربی کا جتنا گہرا رشتہ ہندی سے ہے، اتنا ہی اردو کے مراسم سنسکرت سے ہیں۔ماہرین لسانیات اور مؤرخوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان سے اردو ا ور  ہندی کو جدا کرنا اور فارسی، عربی اور سنسکرت میں جھگڑا پیدا کرنا، پانی میں لاٹھی مارنے کے برابر ہے۔مثال کے طور پر، جب ہم سب کرسی پر بیٹھ کر کتاب پڑھتے ہیں اور دنیا کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں اور جب کبھی کچھ کھانے کا دل کرتا ہے اور انگور اور انار کھالیتے ہیں، تب اس بات کا خیال نہیں رہتا  ہے کہ کیسے ہم نے “کرسی”، “کتاب”، “دنیا”، “علم” جیسے عربی کے الفاظ کا استعمال کیا اور “انگور” اور “انار” کھا کر فارسی کے الفاظ دہرائے۔یہ مثال گواہی دیتی ہے کہ ہماری زندگی میں اردو، ہندی ، فارسی ، عربی اور سنسکرت کے الفاظ ایسے گھلےمِلے ہیں، جیسے پانی میں شہد گھلا  ہوا ہوتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا یہ خدشہ بیجا نہیں ہے کہ ۳۸۰ اردو فارسی کے الفاظ  کو ہٹانے کا فیصلہ مسلم تعصب کی وجہ سے لیا گیا ہے۔اس فیصلے کے تار فرقہ وارانہ سیاست سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ سب کچھ اسی کارروائی کا حصہ ہے، جس میں اردو، فارسی کو مسلمان اور اسلام سے جوڑا جاتا ہے اور ان کو “اینٹی نیشنل” اور “ہندو مخالف” کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔جس طرح سے شہروں، ریلوے اسٹیشنوں اور مختلف سرکاری مقامات کے نام بدلے جا رہے ہیں، جس طرح سے اسلامو فوبیا کی آگ میں تیل ڈالا جا رہا ہے، جس طرح سے مسلمانوں کی تاریخی شخصیت کی کارکردگی کو کتابوں کے اوراق سے مٹایا جا رہا ہے، اسی طرح اردو فارسی کے الفاظ کو ہٹایا جارہا ہے۔انگریزوں کی مخبری کرنےوالے بھگوا طاقتوں کو اس بات کی کیا قدر ہے کہ اردو کا رول تحریک آزادی میں انقلابی رہا ہے۔اردو زبان کے اشعار پڑھتے اور نعرے دیتے شہیدوں نے قربانیاں دی تھیں۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ اردو نے ہی تو دیا تھا۔مجاہدین آزادی کی ایک بڑی جماعت ایسی اردو زبان میں لکھتی اور بولتی تھی۔ آج اردو کےخلاف سازش رچ کر، پولیس ساز مذکورہ مجاہدین کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ ارباب اقتدار کو کون سمجھائے کہ بھارت میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، ضرورت اس بات کی  ہے کہ سب کو آگےلایا جائے۔ہندی اور سنسکرت کہیں سے بھی اردو، فارسی اور عربی کی حریف نہیں ہیں، بلکہ سب آپس میں سگی بہنیں ہیں۔بہنوں کو سیاسی اور مذہبی خطوط پر باٹنا ملک کو کمزور کرنا ہے۔ مشہور شاعر اقبال اشعر  نے اردو کے درد کو کیا خوب بیان کیا ہے،

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ

میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

Advertisements
julia rana solicitors london

(مضمون نگار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔)

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply