میاں نواز شریف کا سیاسی مستقبل، ایک تجزیہ۔۔۔ مجاہد حسین

نسل انسان نے اپنے تاریخی سفر کے دوران یہ دریافت کیا کہ طاقت کو ایک فرد یا ادارے میں مرتکز کرنے سے نقصان ہوتا ہے۔ اسی لئے جمہوری نظام میں طاقت کا ارتکاز ختم کر کے اسے مختلف اداروں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بادشاہت یا آمریت میں فرد واحد ہی طاقت کا مرکز ہوتا ہے جس کی وجہ سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ صدیوں تک بادشاہی نظام کے تحت زندگی گزارنے کی وجہ سے ہم طاقت میں دوسروں کو حصہ دینے کے عادی نہیں بن پائے۔ آج بھی ہماے نظام تعلیم میں بادشاہوں کو ہیروز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہماری لوک کہانیوں میں یہی لوگ طاقت کے استعارے بن کرسامنے آتے ہیں۔ یہ مائنڈ سیٹ ہمارے ڈی این اے میں شامل ہو چکا ہے۔ اسے جاتے جاتے بہت عرصہ لگے گا۔
ایسے ممالک جہاں جمہوریت قائم ہوئے طویل مدت گزر چکی ہے، وہاں تمام ادارے اپنی حدود و قیود کو پہچانتے ہیں اور اپنے متعین دائروں کے اندر کام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ممالک میں چونکہ جمہوریت ایک نسبتاً اجنبی تصور ہے اسی لئے یہاں طاقت کے مختلف مراکز کے درمیان مستقل جھگڑا برپا رہتا ہے۔ ایک طرف ایگزیکٹو تمام طاقت اپنی ذات میں جذب کر کے دیگر اداروں کو تہی دامن بنا دینا چاہتی ہے تو دوسری طرف پارلیمنٹ اپنے وجود کے اثبات پر مصر رہتی ہے۔ اسی طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ طاقت کے اس کیک کا بڑا حصہ اپنے لئے مخصوص کرنا چاہتی ہے تو عدلیہ بھی اس کشمکش کے ایک نئے فریق کے طور پر میدان میں اتر چکی ہے۔ پاکستان میں پچھلے ستر سالوں سے جاری سیاسی مسائل کے پس منظر میں یہی تنازعہ چل رہا ہے۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے میاں نواز شریف کی سیاست کا جائزہ لیں تو بہت سی گتھیاں سلجھ سکتی ہیں۔ میاں صاحب ایگزیکٹو کی ایک ایسی علامت کے طور پر سامنے آئے جو ارتکاز طاقت کے خبط میں مبتلا تھی۔ وہ نہ ہی سینیٹ کے سامنے خود کو جواب دہ سمجھتے تھے اور نہ ہی قومی اسمبلی ان کے دل کو بھاتی تھی۔ کابینہ کے لوگ مہینوں ان کی دید کو ترستے تھے جبکہ عدلیہ کو اپنی مٹھی میں قید کر نا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ان کا تمام جھگڑا یہی تھا کہ وہ طاقت میں کسی کی حصے داری تسلیم نہیں کر سکتے تھے۔ میاں نواز شریف کبھی بھی اس بات کو سمجھ نہیں پائے کہ جمہوریت میں طاقت کا ایک مرکز نہیں ہوتا۔ اس پھل کو مل بانٹ کر ہی کھانا پڑتا ہے۔
اگرچہ پاکستان میں جمہوریت بہت کمزور ہے لیکن اس گئی گزری حالت میں بھی اس نظام نے میاں صاحب کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ۔ اپنے شاہانہ مزاج کی وجہ سے وہ جمہوری نظام کے لئے ایک ایسے اجنبی شخص بن کر رہ گئے تھے جو جمہوریت کی بنیادی تعریف ہی بدلنے پر بضد تھا۔ اگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جاتے تو ملک میں ایک ایسا نظام قائم ہو جاتا جو شکل میں جمہوری مگر اپنی روح میں بادشاہت کی طرح ہوتا۔ اسی لئے پاکستانی جمہوریت نے ردعمل دکھایا اور انہیں سیاسی نظام سے نکال باہر کر دیا تاکہ وہ اپنی روح کی حفاظت کر سکے۔
اس سارے تنازعے کی اصل حقیقت یہی ہے جس کا دھندلا سا ادراک میاں صاحب کو ہونے لگا ہے جبکہ نون لیگ کے ایک بڑے حصے کو اس کی سمجھ آ چکی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے عملی طور پر طاقت کے مختلف مراکز کی موجودگی تسلیم کی ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ مختصر عرصہ میاں صاحب کی پوری سیاسی زندگی پر بھاری نظر آ رہا ہے۔ وہ حکومت جو پچھلے چار سالوں میں سوئی سوئی سی نظر آتی تھی اب ایک دم سے متحرک ہو چکی ہے۔ اس کی ایک مثال خواجہ آصف ہیں جن کی شہرت میاں نواز شریف کے دور میں ایک جگت باز کی تھی لیکن شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کا حصہ بنتے ہی وہ ایک متحرک اور جاندار وزیر خارجہ کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
میاں صاحب کو اب جا کر اندازہ ہو رہا ہے کہ انہیں اقتدار سے دور کرنے میں پورا جمہوری نظام شریک جرم ہے۔ اس لئے وہ پچھلے چند ماہ سے ایسے اقدامات کر رہے ہیں اور بیانات دے رہے ہیں جس کی وجہ سے پورا سسٹم ہچکولے کھا رہا ہے۔ اسے بچانے کے لئے تمام بڑے سٹیک ہولڈرز اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اس میں نہ صرف پیپلز پارٹی یا دیگر اپوزیشن جماعتیں شامل ہیں بلکہ نون لیگ کا ایک بہت بڑا حصہ بھی میاں صاحب کو ترک کرنے پر آمادہ ہو چکا ہے۔آصف زرداری اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اس لئے وہ میاں صاحب کی کوئی کال ریسیو کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ عدلیہ بھی ان سے نالاں نظر آتی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ میں بھی ان کے لئے کوئی ہمدردی موجود نہیں ہے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کی تنہائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ابھی ان کے لئے یہ موقع موجود ہے کہ وہ کوئی سمجھوتہ کر کے سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں۔ دوسری صورت میں جتنا وہ سسٹم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اتنا ہی شدید ردعمل آئے گا اور ان کے لئے سمجھوتے کرنے کے لئے مطلوبہ گنجائش کم ہوتی جائے گی۔ ان کی سیاست کی طویل اننگز اب ختم ہو چکی ہے۔ باقی دنیا یہ بات جان چکی ہے ، میاں نواز شریف بھی اسے مان لیں تو ان کے لئے بہت بہتر ہو گا۔

Facebook Comments

مجاہد حسین
مجاہد حسین مکالمہ کے اولین ممبرز میں سے ہیں۔ آپ جذباتیت اور عصبیت سے پاک تجزیات کے ماہر ہیں اور اس معاشرے میں شعور کی شمع جلائے ہوے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply