بکھری یادوں سے بکھرے تبسم تلک ۔۔۔ معاذ بن محمود

سنہ ۲۰۰۳ کے آس پاس ہم محلہ نور الاسلام، شاہین بازار پشاور میں رہا کرتے تھے۔ یہ اندرون پشاور کا علاقہ ہے جو کریم پورہ بازارسے متصل ہے۔ شاہین بازار خاص خواتین کی مارکیٹ تھی (شاید اب بھی ہو، مجھے گئے ہوئے عرصہ ہوا) جہاں خصوصی طور پربابرکت مہینوں میں رش خوب ہوا کرتا تھا۔ رمضان کی برکات و فیوض سے عوام الناس کے جملہ طبقات بخوبی مستفید ہوا کرتےجن میں بازار کے تمام گراں فروش دکاندار، افطار کے بعد عید کی تیاری کرنے والی فیملیز اور چادر پوش انگل بردار نوجوانان و اہلضعف جن کے خوف سے خواتین دائیں بائیں اور عقب میں اپنے مذکر بچے متعین کر کے ایک فارمیشن بنا کر چلا کرتی تھیں، شاملتھے۔

محلہ نور الاسلام، جیسا کہ پہلے بتایا اندرون شہر کا محلہ تھا جس کے اوصاف بوجہ تنگ گلیوں اور آمنے سامنے کھڑکیوں چوباروں کےپرائیویسی توڑ قسم کے بہن چارے سے بھرپور تھے۔ ہم نے گھر ان خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا تھا، پھر بھی گھر کا کوئینہ کوئی زاویہ سامنے والے گھر کی جانب رکھنا ایک مجبوری تھی۔ ہماری بدقسمتی کہ گھر کا باورچی خانہ اس جانب بنا ڈالا۔ اس سے بڑیبدنصیبی یہ کہ کچن کی کھڑکی بالکل سامنے والے دو اور ساتھ والے ایک گھر سے بھی نظر آتی۔ یوں ورک فرام ہوم کے لیے وضع شدہجدید سافٹوئیرز جیسے مائیکروسافٹ ٹیمز یا زوم کے متوازی پرانے زمانے کیکھڑکی لائیومیٹنگ اس دور میں بھی ممکن تھی۔

اب configuration کچھ یہ تھی کہ ہماری کھڑکی کے سامنے والی کھڑکی اکّو خالہ کے گھر کی ہوتی تھی جہاں ایک ستر اسی سالہ بزرگکلّنچاچا بھی رہتے تھے۔ اگربزرگسے آپ کی چشم زدن میں کوئی نورانی چہرہ ظاہر ہوا ہے تو یہیں تک جائیے، ہم آپ کیخوش فہمی ابھی ہوا کیے دیتے ہیں۔ کلن چاچا کے نام کی وجہ تسمیہ ان کا شدید سیاہ رنگ تھا (یہ نام ہمارا عطاکردہ نہیں تھا لہٰذاالتماس ہے کہ امتیازی سلوک کے فتاوی جات ہم پر لاگو کرنے سے گریز فرمائیے)۔ ہم چاہ کر بھی کلن کے لیے اتنا نرم گوشہ نہ پیداکر پائے جتنا ہونا چاہئے تھا جس کی ایک وجہ تھی۔ اکو خالہ کی کھڑکی میں انیس سو ڈیڑھ کے پردے لٹکے ہوتے تھے جو اس قدر ثقیلتھے کہ کمرے کی بتی بجھا کر پردے ہلکا سا آگے پیچھے ہٹا کر ذرا پیچھے کھڑا ہوا جائے تو کمرے میں موجود فرد ہمارے کچن کو براہ راستدیکھ یا ضرورت کے مطابق تاڑ سکتا تھا۔ کلن چاچا اپنے گھر کی اس سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھایا کرتے اور سکون سے ہمارے گھرکی خواتین کو تاڑتے رہتے۔

نوٹ کیجیے گا کہ خواتین کاتاڑوسینسر بہت تیز ہوتا ہے۔ کوئی خاتون بالکل آپ کی جانب متوجہ نہیں پھر بھی آپ انہیں گھورناشروع کر دیں تو تھوڑی ہی دیر میں آپ کی آنکھیں ان کی چماٹ انگیز نظروں سے ٹکرا جائیں گی۔ اسے Rule of thumb سمجھ لیجیےاور چاہیں تو دو چار خواتین سے کنفرم بھی کر لیجیے۔

کچھ ہی عرصے میں کلن میاں اسی تاڑو سینسر کا شکار ہونے لگے۔ شروعات میں ہمارے یہاں صرف شک کیا جاتا، بعد ازاں مشاہدہکیا گیا کہ غور کرنے پر اندھیرے میں کھڑے اندھیرے کلن میاں کے چمکتے دانت بہرحال نظر آجاتے ہیں۔ ہماری کھڑکی سے ہلکا ساکھانس کر تاڑے جانے کے شک کا اظہار کیا جاتا تو کلن کے دانت مطلب پورا کلن گولی کی طرح غائب۔

اکبری بیگم بھی اکو خالہ کے گھر ہی کا حصہ تھیں۔ میں چونکہ اس دور کی نئی جنریشن کا حصہ تھا لہذا مجھے نند دیور بھاوج دیورانی میںآج تک کنفیوژن رہتی ہے۔ اوپر سے یہ رشتے ہوتے بھی غالبا اس قسم کے ہیں کہ غلطی کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ میرا کام انرشتوں کے بغیر بھی چل سکتا تھا سو میں آج تک چلا رہا ہوں۔ اسی لیے اکبری بیگم اور اکو خالہ کا رشتہ مجھے معلوم نہ تھا نہ ہے۔بس ایک گھر میں رہتے تھے۔ ہاں اکبری بیگم اور کلن میاں شاید بہن بھائی تھے۔ مجھے آج بھی کنفرم نہیں البتہ رنگت کی بنیاد پر ایکاندازہ ضرور ہے کہ ان کے والد محترم شاید ایک ہی تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

اب ہوتا یوں تھا کہ یہاں ہمارے گھر کی گھنٹی بجی وہاں گھر کا کوئی فرد کھڑکی کی جانب بھاگا کہ دیکھا جائے آیا کون ہے۔ کھڑکی پہنچتےہی پہلی نظر کھڑکی کے سامنے اکو خالہ کے گھر میں جھانکتی اکبری بیگم پر پڑتی اور قبل اس کے کہ ہم نیچے دیکھ کر سرپرائز کا مزا لےپاتے اکبری بیگم گویا ہوتیںوہ تمہاری خالہ کا لڑکا آیا ہے۔

لخ دی۔۔۔ جی وہی۔ وڑ گیا سارا سسپینس۔

ایک دن ابا مرحوم نے جلال میں آکر اچھی خاصی سنا ڈالیں کہ تمہارا اور کوئی کام نہیں ہمارے مہمانوں کی ٹوہ میں رہنے کے علاوہ۔اس دن کے بعد سے اکبری بیگم کسی حد تک میوٹ ہو گئی تھیں۔ اب ہر بار بیل بجنے پر ہم کھڑکی پر آتے تو سامنے اکبری بیگم کھڑیہوتی تھیں۔ وہ پہلے ہماری آنکھوں میں خاموشی سے آنکھیں ڈالا کرتیں، پھر نیچے دروازے پر کھڑے مہمان کو دیکھا کرتیں اور آخر میںواپس ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا دیتیں جیسے کہہ رہی ہوںسمجھ تو آپ گئے ہوں گے!”۔

محلہ نور الاسلام شاہین بازار کی گلیوں میں نالیاں ماتھے پر سجے جھومر کا کام کیا کرتیں۔ کم از کم جس انسان کے ذہن میں ان ڈھکناوپن نالیوں کا خیال آیا ہوگا اس کا تخیل یہی ہوتا ہوگا۔ یقیناً یہ کسی دور میں کسی نہ کسی کا کارنامہ ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ غلطیسے نظر پڑ جائے تو کھلی نالیوں میں گھر سے نکلتا فضلہ دیکھ کر ابکائیاں ضرور آتیں۔

حاشر میرا بیوفا دوست ہے۔ کبھی میں اس کا وفادار جگری ہوا کرتا تھا۔ حاشر مسعود سعودیہ سے اکیلا انجینیرنگ یونیورسٹی مردان کیمپسپڑھنے آیا ہوا تھا۔ وہ اپنی پھوپھی کے پاس مقیم تھا جن سے کسی وجہ سے اسے نفرت تھی۔ حاشر آئے روز میرے گھر پہنچ جایاکرتا۔ اماں کو اس کا حال معلوم تھا لہذا ہمارے گھر میں وہ قریب ایک فیملی ممبر تھا۔

ایک دن ہمیشہ کی طرح گھنٹی بجی۔ مجھے معلوم تھا حاشر ہوگا۔ میں بھاگ کر نیچے پہنچ گیا۔ ابھی ہم دونوں بعد سلام دعا تمہید ہی میںمصروف تھے کہ اچانک ایک آواز آئی۔

پھَچ

جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب حاشر اس آواز پر متوجہ ہوا۔ کہا یار تو نے آواز سنی؟ ظاہر ہے، مجھے تو اس آواز کی تخلیق سے بھیآگاہی تھی کجا آواز سننا۔ مسئلہ مگر یہ تھا کہ اس کی تفصیل ایک سعودی پلٹ جوان جو پیدا اور بڑا بھی وہیں ہوا تھا، کے لیے سمجھناذرا مشکل ہو سکتا تھا۔ مزید برآں مجھے سمجھانے کے لیے قدرے مضبوط جگر بھی چاہیے تھا جو اس وقت دستیاب نہ تھا۔ بہرحالمیں نے حاشر کے سوال کو نظر انداز کیا اور اس سے پہلے کہ اس کی نظر کھلی نالی پر پڑتی، میں اسے دوسری منزل پر لے جانے میںکامیاب ہوگیا جہاں غسل خانے سے میرا چھوٹا بھائی نکل رہا تھا۔ حاشر بھائی کی جانب میری خشمگیں نگاہوں کو لے کر کچھ سمجھنےسے قاصر تھا۔

شاہین بازار میں واقع یہ گھر ہم سب نے بڑی چاہ سے بنایا تھا۔ اپنے اپنے باتھ روم میں اپنی مرضی کے رنگ کا سامان، مرضی کےٹائل، مرضی کے رنگ۔ پھر یوں ہوا کہ ابا مرحوم کو ڈاکٹرز نے ماحول بدلنے کا مشورہ دیا۔ ابا مرحوم ڈاکٹرز اور رشتہ داروں کی باتوںمیں آگئے اور اپنے ہاتھوں سے بنایا یہ گھروندہ کسی پرائے کے ہاتھوں بیچ باچ کر کراچی نکل گئے۔ پتہ نہیں مجھے گھروں سے اتنیانسیت کیوں ہوتی ہے۔ ہر وہ گھر جو کبھی چھوڑا بڑے کرب کے ساتھ چھوڑا۔ بعد ازاں ممانی دردانہ کی خباثت کے ہاتھوں کراچیمیں سکونت بھی اختیار نہ ہو سکی۔ وہی ٹپیکل پاکستانی ددھیال ننھیال کی سیاست۔ کلن میاں کی وفات ہمارے پاکستان میں ہوتےہو گئی تھی۔ اکو خالہ پہلے ہی ضعیف خاتون تھیں۔ اکبری بیگم بھی جانے کہاں ہوں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مختصراً فقط اتنا کہ دنیا یہاں سے وہاں بکھر گئی اور ہم آج چہروں پہ تبسم بکھیرنے کا فریضہ سرانجام دینے کو نصب العین بنائے یہاںوہاں بھٹک رہے ہیں۔ شاید اسی بہانے ان دکھوں کا مداوا ہوجائے جو ذات نے ضمیر کو ایک عرصہ دیے ہیں۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply