جلاوطنی کے طعنے۔۔محمد اسد شاہ

ذوالفقار علی بھٹو ایک ذہین اور دور اندیشن سیاست دان تھا ، لیکن حد سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے مارا گیا ۔ اس کا خیال تھا کہ دوست ممالک کے دباؤ کو مسترد کرنا جنرل ضیاء کے لیے ممکن نہیں ہو گا ، اور آخر کار اسے رہائی مل جائے گی ۔ وہ یہ بھول گیا کہ ڈکٹیٹر کے لیے سب سے اہم اپنی جان ہوتی ہے ۔ بس اسی غلط فہمی میں بھٹو پھانسی کے تختے پر جھول گیا ۔ اس سے سویلین سیاست دانوں نے یہ جان لیا کہ ڈکٹیٹرز کا  جیل میں قید ہونا موت کے برابر ہے ، اور اپنی جان بچانے کے لیے خود کچھ کرنا لازم ہے ۔

یہی وہ سبق ہے جو بھٹو کے پورے خاندان نے بھی سیکھا اور شریف خاندان نے بھی سیکھا ۔ بھٹو کے بعد ان کے پس ماندگان کو بھی اپنی جانیں خطرے میں محسوس ہوئیں ۔ چنانچہ ان کی بیوہ نصرت بھٹو ، بیٹیاں بے نظیر اور صنم ، بیٹے شاہنواز اور مرتضیٰ ، سب اپنی جانیں بچانے کے لیے اس ملک سے نکل گئے ۔ کئی سالوں تک یہ پورا گھرانہ ملکوں ملکوں پھرتا رہا ۔ آپ اس عمل کو جلاوطنی کہیں ، فرار کہیں یا بھاگ جانا ، کچھ بھی کہیں ، یہ حقیقت بھی تھی اور ان کی ضرورت بھی ۔ اس جلاوطنی میں ہی شاہنواز کی شادی ہوئی اور جلاوطنی میں ہی ان کی پراسرار موت واقع ہوئی ۔ مرتضیٰ کی پہلی شادی بھی جلاطنی میں ہوئی ۔ اس کی بیٹی فاطمہ بھٹو بھی اسی جلاوطنی میں پیدا ہوئی ۔ پہلی بیوی کی وفات بھی جلاوطنی میں ہوئی ۔ پھر مرتضیٰ نے فاطمہ بھٹو کو موسیقی سکھانے والی لبنانی خاتون غنویٰ کے ساتھ دوسری شادی بھی جلاوطنی میں ہی کی ۔ مرتضیٰ کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو بھی جلاوطنی میں ہی پیدا ہوا ۔

1986 میں بے نظیر اور ان کی والدہ نصرت پاکستان واپس آئیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس واپسی کے لیے انھوں نے جنرل ضیاء کے ساتھ خفیہ سودے بازی (ڈیل) کی ۔ اس ڈیل کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی ، عوام کو ان کے استقبال کی اجازت دی گئی ، انھیں عوامی جلسوں سے خطاب کی اجازت بھی ملی اور اخبارات ، ریڈیو ، پی ٹی وی کو ان کے خطابات اور جلسوں کی خبریں نشر کرنے کی بھی اجازت دی گئی ۔ اس دوران بے نظیر اور آصف علی زرداری کی شادی بھی ہوئی ۔ جنرل ضیاء کے ساتھ ڈیل کیے بغیر بے نظیر کی واپسی اور بعد کے معاملات ممکن ہی نہ تھے ۔ بلکہ انھیں ایئرپورٹ سے ہی کسی جھوٹے یا سچے مقدمے میں گرفتار کیا جا سکتا تھا، یا بعد ازاں نظر بند کیا جا سکتا تھا ، جلسوں اور تقریروں کا راستہ بھی روکا جا سکتا تھا ۔ ضیاء بے نظیر ڈیل کا جنرل ضیاء کو کوئی فائدہ ہوا یا نہیں ، لیکن بے نظیر کو بہت فائدہ ہوا ۔ حتیٰ کہ انھیں دو مرتبہ وزیراعظم بننے تک کا موقع بھی ملا ۔

مرتضیٰ طویل جلاوطنی کے بعد واپس آیا ، سندھ اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور ایم پی اے منتخب ہوا لیکن مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں اس وقت قتل ہوا جب خود اس کی اپنی بہن بے نظیر وزیراعظم تھی ۔

ملک معراج خالد جب نگران وزیراعظم تھے ، تب بے نظیر، ان کے شوہر آصف زرداری اور نصرت بھٹو کے خلاف بدعنوانیوں کے مقدمات سامنے آئے ۔ اس سے پہلے کہ انھیں گرفتار کیا جاتا ، یہ پورا خاندان ملک سے نکل گیا ۔ مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ پورا خاندان ایک بار پھر بھاگ گیا ۔ اس جلاوطنی یا فرار میں بے نظیر ، آصف زرداری ، نصرت بھٹو اور بچے بلاول ، بختاور اور آصفہ بھی شامل تھے ۔ یہ سب لوگ دبئی و برطانیہ میں مقیم رہے ۔ 1999 میں جب میاں محمد نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کر کے جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا ، تب بے نظیر ، آصف علی زرداری اور بچے بلاول، بختاور اور آصفہ واپس آئے ۔ آتے ہی بے نظیر نے جنرل پرویز کے غیر آئینی اقتدار کی حمایت کا اعلان کر دیا ۔ شاید اس کا مقصد کرپشن مقدمات سے خلاصی تھا ۔ نصرت بھٹو البتہ جلاوطن ہی رہیں ۔ پھر جب جنرل پرویز کے دور میں مزید مقدمات سامنے آئے ، مثلاً سوئٹزرلینڈ میں خفیہ بینک اکاؤنٹس ، برطانیہ میں سرے محل کی خریداری ، ہیروں کا کوئی ہار وغیرہ ، تب بے نظیر اور زرداری اپنے بچوں بلاول ، بختاور اور آصفہ کو ساتھ لے کر ایک بار پھر ملک سے نکل گئے اور حسب سابق دبئی اور برطانیہ میں وقت گزارا ۔

2006 میں دبئی میں جنرل پرویز اور بے نظیر کی ایک مبینہ ملاقات ہوئی ، جس میں بعض معاملات طے ہوئے ۔ دنیا بھر کے اخبارات نے اس ملاقات کو ٹھوس شواہد کے ساتھ رپورٹ کیا۔ جنرل پرویز نے واپس آتے ہی ایک صدارتی حکم جاری کیا جسے National Reconciliation Order کا نام دیا گیا ۔ مختصراً اسے این آر او کہا جاتا ہے ۔ این آر او کے ذریعے پیپلز پارٹی ، ق لیگ اور مہاجر قومی موومنٹ کے بہت سے راہ نماؤں کے خلاف قائم کرپشن کے سینکڑوں مقدمات یک لخت ختم کر دیئے گئے ۔ دلچسپ  امر یہ ہے کہ جن لوگوں کے مقدمات این آر او کے ذریعے ختم ہوئے ، ان میں سے اکثر آج کل عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور مخالفین کو این آر او نہ دینے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں ۔ دبئی ملاقات میں طے شدہ امور میں مبینہ طور پر یہ بھی شامل تھا کہ بے نظیر واپس آئیں ، عام انتخابات ہوں ، پیپلز پارٹی کو جیتنے کے “مواقع” دیئے جائیں ، بے نظیر وزیراعظم بنیں اور جنرل پرویز کی صدرات کو آئینی تحفظ فراہم کریں ۔ اس ملاقات ، ڈیل اور بدنام جہاں این آر او کے بعد 2007 میں بے نظیر بھٹو پاکستان تشریف لے آئیں۔ لیکن چند ماہ بعد دسمبر میں راول پنڈی میں انھیں قتل کر دیا گیا ۔ آصف زرداری ، نصرت بھٹو ، بلاول ، بختاور اور آصفہ اس وقت تک جلاوطنی میں ہی تھے ۔ اس اندوہ ناک واقعہ کے فوری بعد یہ سب پاکستان واپس آئے ۔ آصف نے پیپلز پارٹی کے غم زدہ بپھرے ہوئے کارکنوں کو تسلی دی ، پارٹی کی چیئر پر اپنے نابالغ بیٹے بلاول کو تعینات کیا ، خود شریک چیئرمین بن گئے ۔ نصرت بھٹو جلاوطن ہی رہیں ۔ بعد ازاں دبئی میں ہی ان کی وفات ہوئی تو ان کی میت پاکستان لائی گئی اور گڑھی خدا بخش میں دفن کیا گیا ۔

بے نظیر کی بہن صنم بھٹو کی جلاوطنی سب سے طویل ثابت ہوئی ۔ وہ ایک بار پاکستان سے گئیں تو کبھی واپس نہ آئیں ۔ دیار غیر میں ہی شادی کی ، بچے ہوئے ، بچے بڑے ہوئے ، ان کی بھی شادیاں کیں ۔ لیکن جلاوطنی جاری ہے ۔

بھٹو اور زرداری خاندانوں کی ان طویل اور بار بار جلاوطنیوں کے علاوہ ایک اور خاندان کو بھی بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ہٹا کر جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو میاں صاحب ، ان کے ضعیف والدین ، بھائیوں ، بیٹوں ، بیٹیوں ، دودھ پیتے نواسے نواسیوں ، پوتوں پوتیوں ، بھتیجوں اور بھتیجیوں تک کو مختلف زندانوں میں قید کر دیا گیا ۔ ان میں شہباز شریف ، ڈاکٹر کلثوم نواز ، حسن نواز ، حسین نواز ، محترمہ مریم نواز اور ان کے سب بچے بھی شامل تھے ۔ پھر سعودی عرب کے دباؤ پر شریف خاندان کو سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا ۔

2006 میں جب لندن میں میاں صاحب اور بے نظیر نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے ، تب یہ دونو ں راہ نما جلا وطن تھے ۔

2007 میں میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ واپس تشریف لائے ۔ 2013  میں میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے ۔ 2017 میں انھیں سپریم کورٹ  نے برطرف کیا ۔ بعد ازاں ایک بار پھر میاں صاحب ، محترمہ مریم نواز اور دیگر کو جیلوں میں قید ہونا پڑا ۔ صحت کے شدید مسائل سامنے آنے پر حکومت نے نومبر 2019 میں انھیں علاج کے لیے لندن بھیجا ۔ یاد رہے کہ میاں صاحب نے اس مقصد کے لیے کوئی زبانی یا تحریری درخواست کبھی نہیں کی ۔ بلکہ ان کے طبی معائنے ، سرٹیفکیٹس اور جلاوطنی کے تمام معاملات ان کی  مخالف حکومت نے خود طے کیے ۔ میاں صاحب ان سطور کے لکھے جانے تک لندن میں ہی مقیم ہیں ۔

2007 میں اپنے والد کے ساتھ جلاوطنی سے واپس آ کر پراسرار طور پر پیپلز پارٹی کا چیئرمین بننے والا بچہ بلاول ، اب ایک جوان رعنا بن چکا ہے ، اقتدار کی طلب میں مقتدر حلقوں کے اشاروں پر چلتا ہے ، جلسوں میں تقریریں کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اور حیرت انگیز طور پر میاں محمد نواز شریف کو جلاوطنی پر طعنے دیتا اور جگتیں لگاتا ہے ، “بھاگ جانے” اور “فرار ہونے” کے الزامات لگاتا ہے اور بتاتا ہے کہ “لیڈر کبھی بھاگتا نہیں ۔” یعنی بلاول ؟ ۔۔۔۔کس قدر حیرت انگیز بات ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

کیا بے نظیر اور زرداری کے بیٹے ، نصرت بھٹو کے نواسے ، مرتضیٰ ، شاہنواز اور صنم بھٹو کے بھانجے کو کسی نے یہ یاد نہیں دلایا کہ کبھی جان بچانے اور کبھی مال بچانے کی خاطر جلاوطنی ، فرار اور ملک سے بھاگنے والوں میں کون کون شامل ہے ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply