مشاعرے کی رویت و روایت ۔بزبانِ یوسفی۔۔۔ احمد رضوان

شاعر کو مست کرتی ہے تعریفِ شعر امیر

سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں

لفظ کا نشہ بڑا ظالم ہوتا ہے۔ایک گھونٹ،ایک چسکی میں سو بوتلوں کا نشہ اسی میں دیکھا۔ یہ وہ واحد نشہ ہے جس کا اتار نہیں۔ امیر مینائی کے شعر کے بعد یہ قولِ سدید و شدید یوسفی صاحب کا ہے۔(یوسفی صاحب کا پالا یقیناً ایسے لکھنے والوں سے پڑا ہوگا جو لگتا ہے اس لفظی نشہ کے ہینگ اوور کا شکار ہوکر ذودگوئی پر اتر آیا کرتے تھے یا ان کی” بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔”) ۔لفظ اگر علم عروض اور موضوعی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اوزان میں پورے اور کسی بحر میں ہوں تو حسن ترتیب سے تغزل اورمعنی آفرینی کا جامہ زیب تن کرلیتے ہیں اور اپنی شعلہ بدامانیوں اور حشر سامانیوں سے انقلاب تک برپا کرسکتے ہیں ۔ اس مضمون میں یوسفی صاحب کے وہ مشاہدات و تاثرات جو انہوں نے اپنے مضامین کی شکل میں اپنی کتاب “شام شعر یاراں”میں قلم زد کئے ہیں ان کی روشنی میں مشاعرے کی روایت اور ان میں شریک شاعروں کا احوال ان کے اقتباسات کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ جہاں جہاں واوین میں جملے یا پیراگراف ہیں سب ان کے مضامین سے لئے گئے ہیں ۔یوسفی صاحب نے زندگی کا ایک معتد بہ حصہ ادباء اور ادب پرور لوگوں کےدرمیان گزارا۔اندرون و بیرون ملک ملازمت کے دوران درجنوں بار ایسی تقریبات کا حصہ بنے جہاں کبھی تو وہ میرِ مجلس تھے ،صدرِمشاعرہ تھے ،مہمانِ خصوصی تھے یا مہمانِ اعزاز۔ان تقریبات میں بطور سامع اپنی دیدہء بینا سے جو دیکھا اورکانوں سے سنا، اس کا لیکھا جوکھا انہوں نے اپنے مختلف مضامین کی صورت میں پیش کردیا۔ ایک طویل ادبی اننگ کھیلنے کے بعد ان کے پاس مشاہدات و واقعات،نظائرِ بصری و دلائلِ بصیری کا ایک ضخیم دفتر رقم کرنے کےلئے تھا۔انہوں نے مشاعرے کے تمام لوازمات، مشمولات، معمولات کو نظرِعمیق سے جانچا اور پرکھا ۔ مشاعرے کا ماحول، سامعین کی عادات واطوار، شریک شعرا ،میر مشاعرہ،داد دینے سے ہوٹنگ ہونے تک،مشاعرہ لوٹنے سے الٹنے تک ،مشاعرہ  میں سے زنانہ اور مردانہ شاعری کے نمونوں کا کچا چٹھا انہوں نے کمال خوبی سے کھولا ہے۔

یوسفی صاحب کا مزاحیہ طرز ِنگارش وہ  اوپری غلاف ہے جس کے اندر ملفوف مغزِ تحریر گہری سوچ بچار اور فکر کا نتیجہ ہے۔ شان الحق حقی کہتے ہیں ” یوسفی کے ہاں شگفتگی کی تہہ میں متانت کی ایک سطح موجود ہے”.یوسفی کا اسلوب کہا جاتا ہے کہ اردو ادب میں رشید احمد صدیقی اور پطرس کے انداز تحریر سے لگا کھاتا ہے مگر اسلم فرخی کے ساتھ ایک انٹرویو میں یوسفی صاحب نے اس کا خلاصہ یوں کیا ہے “مارک ٹوئین جو باوا آدم ہیں مزاح نگاری کے ،سوئفٹ،اسٹیفن لی کاک،جارج مکیش،جیمز جوائس اور انتھونی برجیس سے میں Influenced ہوا ہوں ۔ایک زمانے میں مجھ پر لارنس ڈرل بھی بہت سوار رہا تھا”.یوسفی کے ہاں لفظی تحریف و تقلیب ذوجہت ہے الفاظ سے جملوں، تراکیب سے مصارع میں ردوبدل تک۔یوسفی زندگی کی خوبصورتیوں اور کجیوں کو بہت دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ان کا طریقہ کار اشاراتی اور شرارتی ہے سیدھا یا آشکار نہیں ۔یوسفی کی تخلیقات میں مزاح کی جو زیریں لہریں دوڑتی ہیں وہ کنایتاََ طنز خفی کی عمدہ امثال ہیں ۔ان کے جملوں کی کاٹ میں ذومعنویت کو کسی ماہر طبیب کی طرح بڑے “پولے”*ہاتھ سے نفس مضمون میں انجیکٹ کیا گیا ہے ۔Wordplayیا ذومعنویت کا لطف ہی یہی ہے کہ حقیقی مطالب کے ساتھ ساتھ مجازی کیفیت سے دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس ذومعنویت سے پیروڈی اور الفاظ کے ہیر پھیر سے معنی خیزی  جنم لیتی ہے جو مسکرانے ،کھلکھلانے ،تبسم زیر لب سے فلک شگاف قہقہے تک کا سفر طے کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے ۔

یوسفی صاحب کا مزاح پاکستان کے قیام سے ابتدائی دنوں کی جدوجہد،لوگوں کو مہاجرت اور مسافرت کے ساتھ پروان چڑھا ۔ انہوں نے لٹے پٹے لوگوں کو خالی ہاتھی یہاں آتے ،فٹ ہاتھوں پر سوتے اور نان جویں کے ایک ایک ٹکڑے پر لڑتے دیکھا ۔ لوگوں کو عارضی رہائش گاہوں سے اپنے کوارٹروں میں رہائش پذیر ہوتے اور وہاں سے آغاز کاروبار اور برسر روزگار ہوتے اور کامیابی کی منازل طے کرتے کرتے بزنس ٹائیکون بنتے اپنی نظروں کے سامنے دیکھا ۔یہی لوگ ان کے کردار بنے جن کی زبانی روزوشب کی مصروفیات کو انہوں نے اپنے مزاحیہ انداز میں پیش کردیا ۔طرز یوسفی میں مزاح تحریر کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ “وہ مزاح جو آپ کو سوچنے پر مجبور نہ کرے وہ ناپختہ ہے”. ان کے مزاح میں ہر طرح کے رنگ یوں گڈ مڈ کرکے پیش کیے جاتے ہیں کہ ان کو علیحدہ کرنا قریب قریب ناممکن ہے ۔ وہ خود کہتے ہیں ” مزاح کے سارے رنگ غلو کے روغن شب تاب میں حل کیے جاتے ہیں ،جب کہیں جاکے کینوس پہ جم پاتے ہیں”.ہم یوسفی صاحب کے مزاح کو Fifty shades of Humour کا نام دے سکتے ہیں .

مزاح میں لکھی گئی بات عام طور پرشگفتگی کا تاثر پیدا کرتی ہے مگر کچھ ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیں جہاں بڑے سے بڑا مزاح نگار بھی کبھی کبھار کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے، اس کا احوال بھی انہوں نے بیان کیا ہے جب مزاح میں پیش کیے گئے سچ کا ان کو دفاع کرنا پڑگیا۔اپنی ایک شعری نشست جس کی صدارت جو ان کے الفاظ میں ان کو مہنگی پڑی اس کے متعلق بتاتے ہیں کہ “اہل ذوق حضرات پر مشتمل مختصر شعری نشستوں کی تعریف کرتے کرتے دل کی بات زبان پر آ گئی۔ میں نے کہا کہ آج کل بڑے مشاعروں میں پانچ دس ہزار سامعین ہوتے ہیں۔ کسی “شوبز” کی تقریب کا رنگ اور سماں ہوتا ہے. بیک وقت پانچ دس ہزار سامعین کی سمجھ میں آجائے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے شعر نہیں ہو سکتا۔دوسرے ہی دن اس پر جو لے دے ہوئی وہ آج تک جاری اور باعث خواری ہے”.

ایک اور مضمون میں فرماتے ہیں” ہمارے ہاں تمام تر التفات و توجہ کا مرکز شاعر رہے ہیں۔میں نے ایک جگہ کہیں لکھا ہے جس پر بہت سے لوگ برا مان گئے کہ جتنے ذہین اور ہونہار نوجوان ہیں وہ غزل کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ،تو میں نے ایک شعر میں تھوڑا تصرف کرکے کہا تھا کہ “غزل کھا گئی نوجواں کیسے کیسے”.شاعری جزویست از پیغمبری مگر  دور جدید میں اسے “پیغام بری “کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ۔چٹھی زرا سیاں جی کے نام لکھ دو ،حال میرے دل کا تمام لکھ دو ۔ اس نامہ بری کےلئے پہلے کبوتروں،چبوتروں یا برادران خورد کا استعمال کیا جاتا تھا اب سوشل میڈیا نے سب کچھ ہتھیلی میں سمیٹ دیا ہے ۔ شعرا کو تلامیذ الرحمن کہہ کر پکارا جاتا ہے اسی لئے  وہ زانوئے تلمذ اساتذہ کے سامنے تہہ کرکے اسباق لیا کرتے تھے اب زانوئے تلذذ کے تذکرے رقم کرتے ہیں۔یہ زانوئے تلذذ کی اصطلاح بھی یوسفی صاحب کی ایجاد کردہ ہے۔جینوئن شاعر جب تک اپنا لکھا دوسروں کو سنا نہ لے اس کے ذہنی اپھارہ کا علاج نہیں ہوتا ۔مشاعرہ اس کےلئے ایک موزوں جگہ ہے جہاں انسان اپنا کلام بیک وقت ہزاروں لوگوں کو گوش گزار کرسکتا ہے گرچہ بعض لوگ بغض میں اسے سمع خراشی و خروشی بھی کہتے ہیں۔ایک امی شاعر ہوگزرے ہیں جو “در”تخلص کرتے تھے ۔ ایک محفل میں تازہ غزل سنا رہے تھے کہ ایک شاگرد نے باآواز بلند پوچھا کہ استاد! اس شعر کی کیا معنی ہیں؟فرمایا ! شعر سنو ۔ معنی ابھی ڈالے نہیں ہیں ۔

کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ بعض شاعر نرے پھکڑ پن ،جگت بازی اور ذومعنی و ذم آمیز اشعار سے اس دھڑلے سے مشاعرے لوٹتے ہیں کہ ذوق سلیم محو حیرت نہ ہو تو کیا کرے؟ایسے مشاعرے لوٹنے والے شاعروں کو وہ جینوئن شاعر کہہ کر بلاتے ہیں۔”جینوئن شاعر کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ اپنے علاوہ صرف میر و غالب کو اوپری دل سے تسلیم کرلیتا ہے ۔وہ بھی محض اس لئے کہ وہ بروقت وفات پاچکے ہیں ۔بروقت سے ان کی مراد ان کی پیدائش سے پہلے”.ایسے شعرا زبان کے شعروں کے ماہر ہوتے ہیں ۔ “زبان کے شعرسے مراد ایسا شعر ہے جسے کہنے ،پڑھنے،سننے،سمجھنے اور جس کی داد دینےکےلئے سوائے زبان کے کسی عضو بالخصوص دماغ پر زرا زور نہ دینا پڑے.”دور جدید میں یہ حالت ہے کہ اب ایسی جینوئن شاعرات ہیں جن کے لئے دیواروں پر لکھ کر اعلان کروانا پڑتا ہے کہ اپنے شہر کی شاعرات کو صاف رکھیں.ایسی خواتین جنہیں شوق تو فینسی ڈریس شو، ماڈلنگ، گلوکاری اور اعضا کی شاعری کا شوق ہوتا ہے اور اس کا نکاس بہ زبان ترنم شاعری اور مجرائی انداز میں کرکے اپنے دل کو تسلیاں دے لیتی ہیں ۔اب سارا قصور اس میں ان بیچاریوں کا بھی نہیں ہے جب تک ان کو فاضل اور حد فاصل کے بغیر بلا روک ٹوک اصلاح کے نام پر ازکارِ رفتہ،سرد گرم چشیدہ ،کورے کاغذ پر اصلاح دینے والے موجود ہیں، یہ کام یوں ہی چلتا رہے گا۔

کراچی کے ایک نجی مشاعرہ میں داد و بیداد کا تذکرہ انہوں نے یوں فرمایا کہ ” کوئی پچاس ساٹھ تو حاضرین ہوں گے جن میں چالیس تو شاعر تھے بقیہ مصرع اٹھانے والے ۔سلیقے سے داد دینا بھی ایک ہنر ہے جو برسوں کا ریاض،مجلسی رکھ رکھاؤ اور نہ جانے کتنی شبوں کا گداز چاہتا ہے۔ بے داد یعنی بامعنی ہوٹنگ تو اور بھی مشکل کام ہے۔ داد سے صرف مذاق سخن کا پتہ چلتا ہے۔ بے داد سے سموچا آدمی پہچانا جاتا ہے۔ بعض اوقات اچھے شعر کی داد اس طرح دی جاتی ہے جیسے فٹ بال کے کھلاڑی نے سر سے گول کردیا ہو۔مطلب یہ کہ تالی بجا کر شاعر کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ہم تالی کے خلاف نہیں اس کے بھی کچھ فوائد ہیں۔ مثلا یہی کہ لوگوں کو بھری محفل میں سوتے سے جگانے اور خراٹے لینے سے باز رکھنے کا مہذب طریقہ اجتماعی تالیاں ہی ہیں۔ایک صاحب پنگ پانگ کی گیند کی طرح اچھل اچھل کر داد دے رہے تھے ۔ایسا لگتا تھا داد کے فقرے کسی کتاب سے رٹ کر آئے ہیں۔ چند یاد رہ گئے : بھئی واہ ! کیا قیامت شعر نکالا ہے ۔غالب کی زمین اب آپ کی ہوگئی۔واہ واہ میاں! جیتے رہو۔ زرا پھر سے پڑھنا ! کیا نکتہ پیدا کیا ہے ۔پڑھتے جاؤ۔جی خوش کردیا ۔حضور پھر مرحمت فرمائیے ۔وللہ سیری نہیں ہورہی ! سبحان اللہ کیسے تیور ہیں ۔ تعریف سے مستغنی ہے!۔کس رخ سے مصرع لگایا ہے ۔تعریف نہیں ہوسکتی۔ہائے کیا مقطع ہے ،گویا کلیجے میں میخ ٹھونک دی۔دوبارہ کرم ہو ۔ایک مصرع پر ان صاحب نے ایسی داد دی کہ نظام دین کے تنبوؤں کو سر پہ اٹھا لیا ۔بار بار وہ مصرع پڑھوایا ۔جب کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کو بے تحاشا داد دے کر اس طرح بار بار مصرع پڑھوائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شعر میں کوئی خامی یا فنی سقم نظر آرہا ہے جسے وہ بزبان شاعر اجاگر کرانا چاہتا ہے ۔

آج کل ایک نیا رواج انٹرنیشنل مشاعرے کا چل پڑا ہے ایسے مشاعروں کا پول انہوں نے کس خوبصورتی سے کھولا ہے۔ان کے مضمون سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔”کراچی میں کوئی مشاعرہ جس میں دبئی یا کویت یا کینیڈا سے اپنے کسی رشتہ دار کی وفات پر آیا ہوا شاعر شریک ہوجائے تو اسے انٹرنیشنل مشاعرہ کہتے ہیں ۔ ہم نے ایک انٹرنیشنل مشاعرے میں ایک بہت ہی حوصلہ مند نابینا شاعرہ کو ترنم سے پڑھتے سنا ۔ظاہر ہے ان کے نابینا ہونے پرکون اعتراض یا طنز کرسکتا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ وہ سامعین کو بالکل بہرہ سمجھ کر شعر پڑھتی ہیں ۔ایسا ترنم روایتی ڈھول کی طرح دور ہی سے برداشت کیا جا سکتا ہے۔پاس کا ڈھول صرف اسی صورت سہانا لگتا ہے کہ آپ اسے خود بجا رہے ہوں ۔ایک اور شاعرہ ہیں جو بین الاقوامی مشاعرے لوٹتی رہتی ہیں ۔وہ ایسا لباس پہن کر آتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے شوہر نابینا ہیں ۔لوگ خود شاعرہ کو طرح مصرع کی طرح طرح اٹھائے پھرتے ہیں ۔اسی طرح دساور سے ایک معروف شاعر اکثر بلائے جاتے ہیں ۔وہ اپنی ہر غزل راگ میں گا کر سناتے ہیں ،دھن بھی خود ہی کمپوز کرتے ہیں ۔چنانچہ بحر سے خارج مصرع کو سر سے بھی خارج کردیتے ہیں۔ساتھ ساتھ اشارے بھی کرتے ہیں ۔مگر سب سے ذیادہ داد انھیں کو ملتی ہے اس لیے کہ اشارے سب کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔

ایک اور رسم جو مشاعروں میں رواج پاگئی ہے وہ رسم تاجپوشی ہے۔ اپنی ایک پرانی یاد کو تازہ کرتے ہوئے ایک شاعرہ کی رسم تاجپوشی کے متعلق یوں لکھا ہے،”ایسی ہی ایک تاج پوشی ایک شاعرہ ِ بلبل کی ہوئی تھی جو اپنے والد کے ہمراہ اندرون سندھ سے تشریف لائی تھی ۔ان کے سر پر ابن انشاء نے دست خاص سے تاج رکھا اور ملکہ تغزل کے لقب سے نوازا ۔اپنے تیکھے انداز میں ایک مضمون بھی پڑھا جسے مدحیہ ہجو یا ہجویہ قصیدہ کہا جائے تو دونوں تعریفیں درست ہوں گی ۔ہال کا کرایہ ،باسی سموسوں اور خالص ٹین کے تاج کی قیمت خود ملکہ عالیہ نے جیب خاص سے ادا کی۔رہی ان کی شاعری تو اتنا اشارہ ہی کافی ہے !ملکہ اقلیم سخن کی طبع آزاد ،عروض کی غلام نہ تھی ۔غزل میں دورنگی نہیں پائی جاتی تھی ۔ مطلب یہ کہ مطلع سے مقطع تک ہر شعر وزن اور بحر سے یکساں خارج ہوتا تھا ۔پڑھتے وقت ہاتھ،آنکھ اور دیگر اعضاء سے ایسے اشارے کرتیں کہ شعر تہذیب سے بھی خارج ہوجاتا تھا”۔

آگے لکھتے  ہیں “کراچی کی ایک نامور شاعرہ نے اپنے شوہر نامدار کی موجودگی میں ہمیں بتایا کہ مشاعرے میں ان کے شوہر ان کو ڈائس پر بیٹھنے نہیں دیتے ۔بلکہ بالکل آخری صف میں اپنے پہلو میں بٹھا کر خود خزانے کے سانپ کی طرح رکھوالی کرتے ہیں۔جب نام سے پکارا جاتا ہے تو وہ ڈائس تک خدا حافظ کہنے جاتے ہیں۔شعر کی داد کے جواب میں جھک جھک کر “آداب آداب “کہنے سے سختی سے منع کرتے ہیں ۔کہتے ہیں بعضا بعضا اس سے بھی excite ہوجاتا ہے ۔تم نہیں جانتیں ہم مرد کتنے حرامی ہوتے ہیں! کلام سنا کر وہ واپس حصارِ زوجیت میں آجاتی ہیں تو سوں سوں کرکے سونگھتے ہیں کہ کپڑوں سے دیووں اور پریوں کی داستانوں والی مانس گند ( آدم بو) تو نہیں آرہی!”ایک اور شاعرہ کا قصہ یوں بیان کیا ” ہوا یہ کہ ایک شاعرہ جن کی شکل ماشاءاللہ ان کے کلام سے بدرجہا بہتر ہے ۔۔۔یعنی چشم مست عجبے زلف دراز عجبے۔۔۔۔۔۔بیرون ملک مشاعرہ پڑھنے گئیں ۔لوگ شعر کا مفہوم ان کی شکل دیکھ دیکھ کر سمجھتے اور خوب داد دیتے تھے ۔پھر ایک متمول ادا شناس نے تالی بجاتے بجاتے اسے شادی کی انگوٹھی پہنا دی۔ شادی کی خبر ملتے ہی ان حلقوں میں ایسی صف ماتم بچھی کہ اس کا ایک سرا پشاور میں اور دوسرا کراچی میں تھا ۔بعضوں نے بقیہ عمر رائگاں مردانہ عدت میں گزارنے کا عہد اور اعلان کیا ۔ وہ سکتہ جو ان کے اشعار میں پڑتا تھا اب خود ان میں پڑا ۔”

اپنی صدارت میں برپا ہونے والے ایک “مشاعرہ بیاد جوش “کے حوالے سے ان کا منتظمیں کی طرف سے انہیں آمادہ کرنے اور یوسفی صاحب کی طرف سے شائستگی سے اپنا پنڈ چھڑانے کی کوشش کے دوران ہوا مکالمہ بھی مزاح عالیہ کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔مشاعروں میں فرشی نشست کے حوالے سے یوسفی صاحب اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کہ وہ ایسی محافل سے بوجوہ احتراز کرتے ہیں ۔”مشاعرہ میں مجھے( فوم کی ) گدئ صدارت پر چھ سات گھنٹے دو زانو بیٹھنے اور ہر شعر کے بعد خود کو پہلو بدلنے اور جمائی لینے سے باز رکھنے کے علاوہ مشاعروں کی روایت اور آداب پر خطبہ صدارت بھی پڑھنا ہوگا۔ حالانکہ مشاعرے سے پہلے لمبا خطبہ صدارت سامعین اور شعرائے کرام کو اتنا ہی گراں گزرتا ہے جتنا کہ بے صبر دولہا کو قاضی کا طول طویل خطبہ نکاح۔”مشاعرے کی صدارت کے لئے مجھ جیسے نا موزوں طبع شخص کا انتخاب کرنے سے پہلے پوری تفتیش کے بعد یہ اطمینان کر لیا جاتا ہے کہ اس نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا اور آئندہ بھی اس کا احتمال نہیں بلکہ اس کی ذات سے  سخن فہمی کا بھی اندیشہ نہیں۔ داد کو بھی قرض سمجھتا ہے۔مطلب یہ کہ یکے از داد نادہندگان ہے ۔فرشی نشست کا اصل لیکن مخفی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک نظر میں سب کو معلوم ہو جائے کہ کون کون گنٹھیا میں مبتلا ہے کس کس کے گھٹنوں ،جوڑوں نے جواب دے دیا ہے”۔فرشی نشست میں دو زانو بیٹھ کر مشاعرہ کی صدارت کرنے کی پابندی سے بچنے کے لئے جب میزبان انہیں یہ آفر دیتا ہے کہ آپ چار زانو بیٹھ جائیےگا تو فرماتے ہیں کہ “میں اپنی تکلیف کو  دو سے ضرب نہیں دے سکتا”۔میزبان کے استفسار پر کہ پھر آپ خود فرمائیے کہ کس کروٹ بیٹھئے گا ؟جو پوز یوسفی صاحب نے بیٹھ کر دکھایا تو میزبان کہنے لگے “اس طرح بیٹھ کر تو گھریلو خواتین آٹا گوندھتی ہیں ۔ صدارت کے لیے یہ پوز مناسب نہیں ہوگا۔ میں نے پہلو بدل کر دکھایا کہ میں اس طرح پاؤں پھیلا کر بھی بیٹھ سکتا ہوں ۔ ار شاد ہوا!”یہ آداب مشاعرہ کے سرتاپا خلاف ہوگا”۔صدارت سے بچنے کی کوشش میں آخری ترپ کا پتا یہ پھینکا کہ میں ساری رات جاگ نہیں سکتا اور اکبر الہ آبادی کے شعر میں ذرا سی تحریف کرکے سے یوں پڑھا۔

وصل ہو یا مشاعرہ اکبر

رات بھر جاگنا قیامت ہے

ایسے مشاعروں میں جاگیں تمام رات جگائیں تمام رات والا نقشہ ہوتا ہے۔ وصل یا شعر و شاعر سے کس روسیاہ کو غرض ہے۔ بعضے بعضےکو تو جاگنے میں ہی مزا آ جاتا ہے۔

ایک اور بہت دلچسپ پیرا میں یاسفی صاحب میرِِ مشاعرہ کی بابت یوں گوہر افشانی کرتے ہیں کہ” اگلے وقتوں میں جو شخص پہلے مبتدی شاعر سے لے کر آخری استاد تک، یعنی عشاء کے بعد سے اذان فجر تک ہر طرحی غزل کو مطلع سے مقطع تک ایسے مبہم سکوت و سکون سے سنتا تھا کہ دیکھنے والا یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ اس باوقار سکوت مسلسل کا سبب محویت ہے یا نیند کا غلبہ، ثقل سماعت ہے یا ضعف پیری۔۔۔۔اسے میرِ مشاعرہ کہتے تھے۔ وہ بیچارہ منہ تک آئے فقروں، جماہیوں، حوائج ضروریہ اور اپنی تازہ غزل کو کو ضبط کیے آٹھ نو گھنٹوں تک بت بنا بیٹھا رہتا تھا کہ پہلو بدلنا مشاعرے کے آداب کے خلاف اور تقاضائے فطرت کے عین مطابق تھا۔وہ مثالی صبر و تحمل اور صدارتی تجمل کے ساتھ ساری رات سو سناروں کی سہتا رہتا۔اس لالچ میں کہ جب اس کی باری آئے گی تو ساری کسر نکال لے گا لیکن جب اس کی باری آتی تو اس کی زندگی کی واحد خواہش اور ضرورت غیر شعری یہ ہوتی تھی کہ مختصر ترین راستے سے، کم ترین وقت میں، قریب ترین باتھ روم میں پہنچ جائے”۔

مشاعروں میں ہونے والی ہوٹنگ اور ہلڑ بازی سے مشاعرہ الٹنے تک کے تمام پینتروں اور حربوں سے وابستہ اپنی یادوں کی پٹاری سے انہوں  نےجون ایلیا اور نظر امروہوی کی بابت یوں لکھا۔”یہ خوبی ہم نے جون ایلیا اور نظر امروہوی میں ہی دیکھی کہ مشاعرے کا رنگ دگر ہوجائے ،ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اچھا بھلا شاعر داد پائے بغیر یا باقاعدہ ہوٹ ہوکر بغل میں بیاض دبائے الٹے پاؤں رخصت ہوا ہو ، سامعین کتنے ہی سرزور،بے قابو اور ہلڑ بازی پر اتارو کیوں نہ ہوں ،وہ ان کو پہلے ہی مصرع سے اپنی مکمل گرفت میں لینے پر قادر تھے۔اس کے بعد مجمع ان کو حسن سماعت کی گرفت سے نکلنے نہیں دیتا “۔مشاعروں میں وہ شعرا زیادہ پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں جو اپنے کلام کو ترنم سے سنا کر مشاعرہ لوٹ لیتے ہیں۔جن نامور شعرا کو ترنم سے شعر پڑھتے سنا ان میں جگر مراد ابادی سرفہرست ہیں ۔ان کے بعد آنے والوں میں مجروع سلطان پوری ،شکیل بدایونی،خمار بارہ بنکوی،سرور بارہ بنکوی،نشور واحدی اور حبیب جالب نے لفظ و معنی میں اپنے ترنم سے کیسا جادو جگایا ۔جگر کے بعد درباری ٹھاٹ کا ترنم صرف زہرہ نگاہ کے حصے میں آیا”۔

یوسفی صاحب نے مشاعرہ کے تمام لوازمات کو ہی اپنے مزاح کا موضوع نہیں بنایا بلکہ یہاں تک لکھ گئے کہ “آرٹس کونسل کی کی چھت بلاشبہ بے حد مضبوط ہے۔ اس کے نیچے شام ڈھلے ہر ہفتے عادتاً،مروتاَََ اور اخلاقاً بے حد و حساب غلوکاری ہوتی ہے اور اور بے تحاشہ جھوٹ بولا جاتا ہے پھر بھی یہ نہیں گرتی۔کہنے کو تو میں نے اپنی دانست میں سچ بات بھڑ سے کہہ دی ۔موقع محل ذرا نہ دیکھا۔سامعین خفا ہو گئے۔ ان کی خفگی بجا تھی۔ ان میں سے نصف تو وہ تھے جن کی کتابوں کی رسم رونمائی اسی جگہ اور شام کے ایسے ہی جھٹ پٹے میں ہوچکی تھی۔بقیہ نصف وہ تھےجنہوں نے ان کتابوں کی تعریف میں دھواں دھار تقریریں کی تھیں۔ قیامت یہ قصیدہ گویوں اور ثنا خوانوں کی فہرست میں اس حقیر پر تقصیر کا نام بھی آتا ہے “۔

*پولے=پنجابی (نرم٫گداز)

حوالہ جات کے لئے شکریہ

1) کتاب “شام شعر یاراں “ناشر جہانگیر بکس،لاہور

2)مجلہ “اجرا” یوسفی نمبر۔کراچی

Advertisements
julia rana solicitors

موٗقر ادبی جریدے “اثبات” انڈیا کی اشاعت خاص” مشاعرہ نمبر” کے لئے لکھا گیا.

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مشاعرے کی رویت و روایت ۔بزبانِ یوسفی۔۔۔ احمد رضوان

Leave a Reply