• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سانحہ ساہیوال سے سانحہ منی ایپلس تک ۔۔محمد وقاص رشید

سانحہ ساہیوال سے سانحہ منی ایپلس تک ۔۔محمد وقاص رشید

دو ممالک ہیں۔ ۔ایک پاکستان ایک امریکہ!  ایک ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔۔جس کو بنانے والوں نے ایک نعرے کی صورت میں یہ بتایا تھا کہ اس ملک کا مطلب و مقصد “لا الہ الا اللہ ” ہے یعنی اس ملک میں خدا کا عائد کردہ نظام نافذ العمل ہو گا۔اور خدا کا پورا نظام اگر ایک لفظ میں مقید کیا جائے تو وہ ہے انصاف یعنی ایک ایسا ملک جہاں عدل و انصاف کا نظام رائج ہو۔ اس ملک کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا سابقہ بھی موجود ہے۔ اس ملک کی پارلیمان کی چھت پر خدا کے نام اس لیے لکھوائے گئے کہ اسکے نیچے کھڑے اسکے نائبین ان صفاتی ناموں کے زیرِ اثر رہیں۔ اس ملک کے آئین کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں مرتب کردہ آئین کہا جاتا ہے۔ اس ملک میں ربیع الاوّل میں پورا ملک عاشقِ رسول ص ہوتا ہے  ۔محرم میں حسینی، اہلِ بیت کے عشاق و خدام۔۔ اس ملک میں اسلام کو عدل و انصاف کا مذہب کہا جاتا ہے اور جمعہ وغیرہ کے خطبوں میں اسلامی اکابرین اور تاریخی حکمرانوں کے عدل و انصاف کے واقعات سنا کر خوب داد سمیٹی جاتی ہے اور لہو گرمایا جاتا ہے۔  کوئی عالمِ دین اور اب تو حکمران بھی یہ بتانے سے نہیں چوکتا کہ برطانیہ کے آئین کو جس نسبت سے “عمر لا ” کہا جاتا ہے۔۔۔ اس عمر رض کے عدل و انصاف کے ہم دیوانے ہیں۔  اس ملک میں جتنا اسلام یعنی عدل و انصاف لوگوں کے لبوں اور زبانوں پر ہے اس سے آدھا کیا ایک چوتھائی بھی عملی شکل میں ہوتا تو ہماری زبوں حالی کا عالم یہ نہ ہوتا ۔ ہمیں آج اس نعرے پر اس ایک نسل میں آدھی کے خون اور باقی کے آنسوؤں اور پسینے سے حاصل کردہ ملک کے معرضِ وجود میں آنے کے ستر سال بعد کم از کم یہ ہی پتا ہوتا کہ ہم نے ان ستر سالوں میں کیا غلط کیا کہ جس کے باعث وہ نعرہ وہ انصاف کے نظام کا خواب سانحہ ماڈل ٹاؤن سے سانحہ ساہیوال تک ایک سراب معلوم ہوتا ہے۔  وہ خون جو مذہب کے نام پر ہی آزادی کے خراج کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا اسکے حصول کے لئے استعمال کیا جانے والا ایک خواب ایک سراب۔

خدا جسے علامہ اقبال نے “شکوہ” میں یہ بتایا تھا کہ ہم نہ ہوتے تو وہ اب تک گمنام ہو چکا ہوتا ،اسی شکوہ کے لکھاری جناب شاعرِ مشرق نے خواب دیکھا کہ خدا کے دین کے دینداروں اور پیروکاروں کو ہندوستان میں اپنی بقا کے لئے ایک الگ ریاست چاہیے۔ خدا کے نظام یعنی عدل و انصاف پر عمل پیرا ہونا اب اس ہندوستان میں بحیثیت رعایا کے ممکن نہیں جہاں صدیوں تک ہم حاکم رہے۔ جن وجوہات کی بنا پر ہم حاکم سے محکوم ہوئے اور جن کے تدارک کے لیے ہمیں ایک الگ ریاست درکار تھی وہ آج اس آزاد (اپنے مقصد سے) ریاست میں من و عن جاری و ساری ہیں ۔جس کا ثبوت ہم یوں دیکھ سکتے ہیں کہ پچھلے دور میں اس ریاست میں خدا کے نظام کی عملداری کا حلف اٹھا کر اسکی وردی پہننے والی پولیس دن دیہاڑے ماڈل ٹاؤن میں اس وقت کے حکمران کی مخالف جماعت کے لوگوں کا ایک قتلِ عام کرتی ہے۔ اس وقت کے حزبِ اختلاف کے سب سے سرکرداں رہنما وہاں پہنچتے ہیں اور اسے آئینِ پاکستان ہی نہیں بلکہ دینِ اسلام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کہتے ہیں۔ مظلوموں کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہو کر انصاف طلب کرتے ہیں۔۔۔ اپنی حکومت آنے پر انصاف کے وعدے کرتے ہیں  اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول سناتے ہیں کہ” کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔”

مظلوموں کو انصاف تو نہیں ملتا البتہ ان سرابوں کو وعدوں ،ارادوں ،قسموں اور ایک بار پھر مذہبی جذبات میں ملفوف کر کے خواب بنا کر پیش کرنے سے ان کو وزارتِ عظمی مل جاتی ہے اور وہ تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتے ہوئے مدینے کی ریاست کی تقلید کے عہد کے ساتھ حلف اٹھا لیتے ہیں ۔

وہ جنہوں نے ماڈل ٹاؤن کے مقتولین و لواحقین کو انصاف دلوانا یا دینا تھا خود انکے دور کے آغاز ہی میں ایک انسانیت سوز سانحہ پیش آتا ہے،جسے سانحہ ساہیوال کہتے ہیں ۔پولیس والے چھوٹے چھوٹے تین معصوم بچوں کے سامنے انکے ماں باپ اور ایک بہن کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں ۔ حاکمِ وقت کے کاسہ لیس اسے مدینے کی ریاست کا پہلا ٹیسٹ کیس بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔۔ جان اللہ کو دینی ہے کی قسم کے ساتھ۔۔ ۔ مدینے کی ریاست کے تسبیح بردار حاکم بچوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ایک حکمران سے زیادہ باپ ہونے کی حیثیت سے ان بچوں کا درد محسوس کر رہے ہیں ۔اور وہ رات بھر سوئیں گے نہیں اور صوبے کا آئی جی انہیں قبل از سویر رپورٹ پیش کرے۔ اس رات پتا نہیں وہ سوئے یا نہیں عمران خان کے جلسوں میں انصاف کے وعدوں کو خواب بنا کر آنکھوں میں بسا کر مینارِ پاکستان پر سونے والا راقم الحروف اس رات سو نہ پایا اور ساتھ والے بستر پر سوئی اپنی لگ بھگ اسی عمر کی بچی کو نم آنکھوں کے ساتھ بار بار اٹھ کر دیکھتا تو اسے سانحہ ساہیوال کی وہ معصوم بچی نظر آتی جسکی فیڈر پر اسکی ماں کا خون لگا ہوا تھا ۔میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر قطر سے واپس آ کر انصاف کرنے والا انگلیوں میں تسبیح پرو کر انگشتِ شہادت بلند کر کے کیا گیا وعدہ بھی وہ یوٹرن نکلا جسے وہ لیڈرشپ کہتے ہیں تو۔۔۔۔
انصاف۔ ۔یا عقیدت کا پتا صاف

اور وہی ہوا کہ مظلومیت کی تصویر بنے متاثرہ خاندان الٹا شکایت کرتا رہا کہ نام نہاد ریاستِ مدینہ کے حکمران ان پر صلح نامے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ تمام ملزمان کے ساتھ مجھے بھی رہائی مل گئی ایک جذباتیت سے بھر پور عقیدت سے۔

دوسرا ملک وہ ملک ہے جسکا  ریاستی طور پر کوئی مذہب نہیں۔ وہ متحدہ ریاست ہائے امریکہ ہے۔ اسکا حکمران مدینے میں ننگے پاؤں نہیں چلتا۔ بات بات پر یہ لیکچر نہیں دیتا کہ نبی ص نے کہا تھا میری بیٹی بھی چوری کرے تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ نہ ہی یہ کہ نبی ص نے قوموں کی تباہی کی وجہ قانون میں تفاوت و تفریق کو قرار دیا تھا ۔یہ انہی کا کمال ہے کہ اپنی حکومت کے تین سالوں میں بیشتر اقدامات میں اپنا وزن ظالم کے پلڑے میں ڈال کر مظلوموں کو لیکچر ضرور دیا اور یہ مندرجہ بالا احادیث ضرور سنائیں۔۔۔ خیر اس امریکہ میں پارلیمانی و عدالتی کاروائی کا آغاز خدا کے کلام سے نہیں ہوتا جسکے متعلق یہ قول مشہور ہے کہ اگر خدا ساری کتاب کی جگہ ایک لفظ آسمان سے نازل کرتا تو وہ “اعدلو (عدل کرو) ” ہوتا۔۔۔۔الغرض اس ملک میں اسلام یا کسی اور مذہب کا ریاستی پرچار کیا ہونا الٹا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تیسری نسل کا پسندیدہ جملہ یہ ہے کہ “جو کرا رہے امریکہ کرا رہے” ۔

ہمیں اپنی ہر ناکامی (جس میں ہم بلا شرکتِ غیرے خود ہی ذمہ دار ہیں) میں امریکہ اور اسکی سازشیں نظر آتی ہیں ۔ہمارے ممبر سے بھی یہ صدا پوری شد و مد سے آتی ہے کہ ہمارے یہاں اسلام نافذ نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ امریکہ ہے۔۔

اس امریکہ میں بھی پولیس گردی کا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے جب ایک سیاہ فام امریکی جارج فلائڈ کو ایک سفید فارم امریکی پولیس والا گرفتاری کے دوران سڑک پر اسکا چہرہ رکھ کر اسکے دونوں ہاتھ پیچھے ہتھکڑی میں باندھنے کے دوران گھٹنے کے بل پر جسم کا سارا وزن اس بے رحمی سے اسکی گردن پر ڈالتا ہے کہ اسکی موت واقع ہو جاتی ہے۔  یہ تصویر کوئی عینی شاہد کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈالتا ہے اور اس اسلام یعنی انصاف کے نظام سب سے بڑے دشمن ملک میں اس سیاہ فام شخص کے لیے نکلنے والے سفید فام لوگوں کی تعداد سیاہ فاموں سے زیادہ ہوتی ہے ۔وہاں کا حکمران و نظام اسے مدینے کی ریاست کا ٹیسٹ کیس بنانے کا زبانی کلامی وعدہ نہیں کرتا نہ ہی سفید فام پولیس والے کو بچانے کے لیے سر گرم ہوتا ہے بلکہ چند روز قبل اس سفید فام پولیس والے کو امریکی عدالت ساڑھے 22سال قید کی سزا سناتی ہے۔ اس پر انصاف کے نظام کے سب سے بڑے دشمن امریکی صدر کا اڑھائی منٹ کا خطاب سننے کے لائق ہے۔  جس میں صدر بائیڈن مقتول کے خاندان سے مل کر اس قتل کی مذمت کرتا ہے۔  اس پر اظہارِ  افسوس کرتا ہے اور انصاف ہونے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ہمارا بحیثیت ایک سماج اور ایک قوم کے ابھی کام ختم نہیں ہوا۔ اس قوم کو خود میں سے نسل پرستی جیسی برائی کو ختم کرنے کے لیے فضاؤں میں موجود جارج فلائیڈ کی آخری آواز کو سننا ہو گا کہ I can’t breath, I can’t breath ۔۔۔۔میں سانس نہیں لے پا رہا۔۔۔ میں سانس نہیں لے پا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکی صدر کے ان الفاظ سے جہاں مجھے یہ پتا چلا کہ کیوں جو کرا رہا  امریکہ کرا رہا  ،وہیں یہ سوال بھی ذہن میں جنم لے چکا کہ کیا امریکی بغیر ہاتھوں میں تسبیح پروئے ،بغیر ایاک نعبد و ایاک نستعین کہے۔بغیر مدینے میں ننگے پاؤں چلے اور بغیر اپنی تقریروں اور لیکچرز میں عدل انصاف کے متعلق احادیث اور آیات سنائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مانتے ہیں جنہوں نے کہا تھا کفر کا نظام چل جائے گا ظلم کا نہیں۔۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply