جنید جمشید ….ہماری مشکل آسان کر گیا

تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
7 دسمبر2016ءبروز بدھ جناب جنید جمشیداپنی اہلیہ سمیت فضائی حادثے میں شہید ہو گئے۔”اناللہ وانا الیہ راجعون“ان کے علاوہ تقریباً47 افراد بھی شہید ہو ئے۔ اس حادثے پہ غم اوردکھ کاجتنا بھی ا ظہارکیا جائے کم ہے۔جنید اپنی زندگی کے آخری سال میں متنازعہ بھی رہے ۔ کئی” معافی دینے والوں“ نے معاف کر دیا اورکئی ”عدالت لگانے والوں “نے زمین پہ ہی عدالت لگالی۔
جنید جمشید مرحوم کی دوخوبیاں ہر عام وخاص کی زبان پر ہیں ایک یہ کہ وہ ثناءخوانِ رسول تھے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے جوانی میں توبہ کی اور توبہ پہ قائم ودائم رہے۔ شوبز ایک ایسی دنیا ہے جہاں بہت سے نوجوان جانے کی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ گلوکار ،اداکار اورفنکاربن جائیں۔ انہیں شہرت اور دولت حاصل ہو۔ گلیمر کی دنیا ایک دلدل ہے ۔ قرآن مجید نے ”غا و¾ن اور یھیمون“ کی کیفیت کو شعراءکے حوالے سے بیان کیاہے۔ آج کے دور میں یہی صورت حال اس کی ہوتی ہے جو ایک باراس میںداخل ہو جائے وہ کبھی باہرآنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، اگر باہر آ جائے تو وہ زیادہ دیراس کے بغیررہ نہیں سکتا۔ جنیدجمشید نے عہد شباب اور شہرت کے عروج کے زمانے میں گلوکاری کوخیرباد کہا اورزندگی بھرپلٹ کرواپس نہ دیکھا۔ جوانی میں توبہ کی اورایسی ”توبہ النصوح“کی کہ خودکو دینکے لئے وقف کر دیا۔
تادمِ وفات، دین کی تبلیغ میںہی مشغول رہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں جنید جمشید کی شخصیت کا عنوان توبہ ہے۔انہوں نے زندگی بھراس وعدہ کو نبھائے رکھا جو اپنے رب سے کیا۔ جب کوئی ان سے پوچھتا جنید بھائی ! کیاا ٓپ اس زندگی میں خوش ہیںتو ہنستے کھکھلاتے چہرے کے ساتھکہتے، الحمداللہ !میں بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا خوش ہوں کہ میرے مولا نے مجھے اس کام کے لئے منتخب کر لیا بس اب یہ دعا کرو کہ اللہ میری اس خدمت کو قبول کر لے۔
دنیا جانتی ہے کہ وہ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوئے ۔تبلیغی جماعت کا تعلق دیوبند مسلک سے ہے۔ عام طور پر،اس مسلک سے متعلق یہی تاثر ہے یا یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان میں نعت اورثناءکا رواج نہیں ہے۔ جنید جمشید نے اپنی آواز کو (تبلیغی جماعت میں)نعت خوانی اور ثنائے رسول ﷺ کے لیے وقف کر دیا۔ وہ مبلغ و مقرر سے زیادہ ثناءخوان اورنعت خوان کی حیثیت سے پہچانے گئے۔انہوں نے اپنے ان جذبات کا اظہار کئی مرتبہ کیا کہ جس آواز سے میں نے گانے گائے اب اسی آواز سے زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت، اذان اورنعت خوانی کرناچاہتا ہوں تاکہ میرے لیے یہ اعمال گزشتہ گناہوں کا کفارہ بنیں۔
ڈاکٹراسرار احمد مرحوم نے حرمتِ شراب کے حکم سے قبل کے واقعات میںسے ایک واقعہ کتب احادیث سے بیان کیاجس میںانہوں نے حضرت علی ؓ کا بھی ذکر کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے خلاف باقاعدہ وال چاکنگ کی گئی اورہر طرح کی زبان اورلہجے کو روا رکھا گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کے ادارے کی طرف سے مجھے ایک میل موصول ہوئی جس میں انہوں نے کتب ِ احادیث کا حوالہ دیا جن میں اس واقعہ کا ذکر ہے۔ محترمہ میمونہ مرتضیٰ ملک نے ”لست علیھم بمصیطر“ میں”مصیطر“ کا ترجمہ اردو میں کیا تو ان کے خلاف بھی گستاخ اور کفر کے فتوے صادر ہوئے۔ جس چینل پہ وہ آتی تھیں، اس پہ ان کا پروگرام بند کر دیا گیا۔ جنید جمشید مرحوم نے اپنی تقریر میں ایک واقعہ کو اپنے انداز میں بیان کیا جس کے بعد جنید جمشید کو کچھ وقت کیلئے انگلینڈ میں بسیرا کرنا پڑا۔
میں اس بحث میں نہیں جاﺅں گا کہ ان میں حقیقت کیا ہے؟ لیکن یہ عرض کروں گا، علماءکرام کی ذمہ داری ہے کہ اگرایسا کوئی واقعہ یا مسئلہ سامنے آئے جو بادی النظر میں، منفی اثرات رکھتا ہے تو وہ متعلقہ عالم یا شخص سے رابطہ کریں اور اس سے اسکی رائے یاموقف بھی معلوم کر یں۔مثلاً ڈاکٹر اسراراحمد مرحوم نے جو کچھ بیان کیا۔ اگر وہ ہماری کتب احادیث میں موجود ہے تو یہ گفتگو کی جانی چاہئے کہ اس کا پس منظر کیا ہے اور اسکی سندکیا ہے؟ اگر وہ ہر حوالے سے درست ہے تو پھر اس کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ میمونہ مرتضیٰ نے”مصیطر “کا جوترجمہ کیا….کیاوہ ترجمہکسی نےنہیں کیا؟ عربی زبان میں اس لفظ کامعنی اور مفہوم کیاہے۔ ایسی دیگر آیات کا مفہوم کیابنتا ہے۔یہاں اللہ تعالی کی مشیت و ارادہ کیا ہے۔
طالب علمی کے دور سے ا ب تک، میں مسئلہ تکفیرپہ غورکرتا آ رہا ہوں۔ برصغیر میں تکفیر کے فتاویٰ جن علماءکرام پہ صادرکیئے گئے ۔ وہ جیّد ، متبحر عالمِ دین بھی تھے ،لاکھوں افراد کے شیخ ، ہزاروں کے استاذ ، ان کے زھد، تقویٰ، اخلاق اور ورع کی دنیا گواہ تھی۔ سلیمان رشدی اور تسلیمہ نسرین نے جو کچھ لکھا اور کہا ا س سے کروڑوں مسلمانو ں کے دل دکھے۔ ان کے خیالات اورزندگی کے شب وروز کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں ان کا طرزِ زندگی کلیتاً اسلام کے خلاف اوردشمنی اسلام پر قائم ہے ۔ ایسا طبقہ اس قابل ہی نہیں کہ ان سے تعرّض کیا جائے۔
میرا احساس کہتا ہے کہ جن علماءکرام سے علمی اورفکری اختلاف تھا، ان سے ہمارا رویہ باکل جدا گانہ ہوناچاہئے ۔وہ رویہ یہ ہے کہ ہم اپنی رائے اوربات انکی خدمت میں پیش کر دیتے۔ اگر ان کی تحریر وتقریر میں کوئی خطاءتھی۔ اس کا اظہار کرتے اوروہ خطاءان پہ واضح کر دیتے ۔ گویا اس طرح ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کرنی تھی لیکن ہم نے ان کی ذات، علم ،کرداراور ایمان کواپنے نشانے پہ رکھ لیا۔ فرقہ وارانہ سوچ نے یہی سلوک ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے….
یہاں جنید جمشید کی مثال دی جاسکتی ہے کہ جس شخص نے اپنی زندگی کاآرام وسکون تیاگ دیا،خود کو دین کے لئے وقف کر دیا، جو شراب و زنا کا رسیا تھا، تہجد گزار بن گیا۔ قرآن کی تلاوت اوررسول اللہ ﷺکی توصیف وثنا جس کی زندگی کا چلن بن گیا۔ ایسے انسان کی زندگی کی ساری ریاضت کونہ دیکھاگیا ،تقریر کے ایک جملہ پہ کسی نے ان سے وضاحت طلب نہ کی ،کسی نے فون کر کے بھی نہ پوچھا کہ جنید بھائی ! یہ آپ نے کیا کہہ دیا کسی نے بھی حسنِ ظن سے کام نہ لیا کہ دوران گفتگو بولتے ہوئے زبان پھسل گئی ہو گی۔ اگرکسی نے جذباتی اندازمیں جنید پہ تبرّا بھیجا تومحفل میں موجود عالمِ دین نے کہا ہو اس کی زندگی تو دیکھو کیسے اس نے خود کو بدل ڈالا ہے ،اس کی زندگی دیکھ کر اندازہ کر لو کہ اس نے ایسا ویسا جملہ جان بوجھ کر تو نہیں کہا ہو گا۔ آخر انسان ہے زبان پھسل جاتی ہے انسان کہنا کچھ چاہتا ہے او ر کہہ کچھ بیٹھتا ہے ….
آج جنید جمشید دنیا میں نہیں ہیںلیکن اب بھی ایسے لوگ ہیں جوفرقہ وارایت کی آنکھ سے ان میں عیب تلاش کر رہے ہیں۔د شنام طرازی کارویہ اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن جنید جمشید نے انہیں اپنی زندگی میں جواب نہیں دیا اور ہمیشہ ان کے لئے خیر خواہی کے الفاظ بولے تھے…. اب وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہو چکے ہیں…. اللہ تعالی اپنے بندے سے نرمی کا معاملہ فرمائے،غلطیوں سے درگزر فرما کر، نیک اعمال کو اس کے لئے بخشش کا ذریعے بنا دے ۔آمین۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply