• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسلم معاشرہ اور جنسی انحراف کے پرانے اور نئے رجحانات۔۔محمد عمار خان ناصر

مسلم معاشرہ اور جنسی انحراف کے پرانے اور نئے رجحانات۔۔محمد عمار خان ناصر

مذہبی راہ نماؤں کے جنسی بداخلاقی میں ملوث ہونے کے واقعات گذشتہ کچھ عرصے سے ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک واقعے نے غیر معمولی توجہ حاصل کی اور اس کی سنگینی کے باعث معاشرے کے کم وبیش تمام طبقات اس کی مذمت میں یک زبان ہو گئے۔ ملزم کے متعلقین میں سے بعض حضرات نے اس بنیاد پر دفاع کرنے کی کوشش کی کہ اس مسئلے میں علما   کی مثال کو خاص طور پر ہدف تنقید بنانا درست نہیں، کیونکہ اس بیماری میں سارا معاشرہ مبتلا ہے، بلکہ بعض غیر محتاط حضرات نے تو اس کے لیے صحابہ کرام سے گناہوں کے سرزد ہونے کا حوالہ دینا بھی گوارا کر لیا۔ اسی طرح واقعے کی مذمت کرنے والے لبرل اہل دانش نے اس معاملے میں اپنے اعتراض کو اس نکتے پر مرکوز رکھا کہ اس میں متاثرہ فریق پر جبر کیا گیا یا شخصی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو دباؤ میں لا کر جنسی استحصال کیا گیا ہے۔ ان حضرات کے نقطہ نظر سے اگر یہ پہلو نہ ہو تو لواطت یا ہم جنس پرستی وغیرہ میں فی نفسہ کوئی اخلاقی خرابی نہیں۔

ان دونوں گروہوں کے شاذ موقف کے برعکس معاشرے کی اکثریت نے اسلام کی واضح تعلیمات کی روشنی میں ان دونوں مواقف پر صد نفرین بھیجی اور ہم جنس پرستی کو ایک رذیل اور ملعون ہوس پرستی قرار دیا جس کی شناعت بہت بڑھ جاتی ہے جب اس میں جبر، دباؤ اور استحصال شامل ہو اور زمین وآسمان کانپ اٹھتے ہیں اگر مذہبی علماء کے اس میں عادتا ملوث ہونے کو ایک معمولی اور ہلکا عمل باور کرانے کی کوشش کی جائے۔

حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ پوری دنیا میں ایک بھی صاحب ایمان نہ ہو تو اللہ کی شان میں مچھر کے پر کے برابر فرق واقع نہیں ہوتا۔ دین سے نسبت رکھنے والے اپنے اعمال کی بدولت خود کو اور اپنے ساتھ دین کو رسوا کریں تو اللہ کو اس سے ہرگز کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور نہ اس کی شان میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے، بلکہ کبھی کبھی ایسی رسوائیوں کا سامان وہ خود کرتا ہے۔ اہل مذہب نے معلوم نہیں، کس خوش فہمی یہ فرض کر لیا ہوا ہے کہ اعمال بد کا وبال صرف فاسقوں فاجروں پر آتا ہے، جبکہ دین خداوندی کے پاسبان اس سے مستثنی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اللہ اپنی طرف نسبت رکھنے والوں کا زیادہ سخت محاسبہ فرماتا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ ہم حالیہ رسوائی کو بارگاہ الہی کی طرف سے ایک تنبیہ سمجھیں، اور صرف دشمنان دین کے ہاتھ آ گئی ایک بات سمجھ کر نہ گزر جائیں۔

اس پوری صورت حال میں دینی مدارس کے موجودہ نظام میں فضلاء کو عالم دین کی سند جاری کرنے کے علمی واخلاقی معیارات کا سوال نہایت اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ جدید دور میں دینی مدرسہ تاریخی تغیرات کے جس عمل سے گذرا ہے، اس کے کچھ پہلوؤں پر گزشتہ دنوں بعض معروضات پیش کی گئی تھیں۔ اٹھارہ سو ستاون کے بعد جب دیوبند میں جدید دینی مدرسے کی تشکیل ابھی ابتدائی مراحل میں تھی تو سرسید احمد خان نے اس کے مستقبل کے حوالے سے تین اہم خدشات پیش کیے تھے: ایک یہ کہ یہ مدرسہ علم جدید کے سوالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر پائے گا۔ دوسرا یہ کہ اس سے پیدا ہونے والے طبقے کو معاشرہ تدریجاً  ایک معاشی بوجھ تصور کرنے لگے گا۔ اور تیسرا یہ کہ بلند کرداری کا وہ معیار جس کی توقع دین کے علمی وروحانی نمائندوں سے کی جاتی ہے، اس نظام میں مجموعی طور پر اسے برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔

اس تیسرے نکتے میں آج ہم ڈیڑھ سو سال کے بعد بآسانی اس شق کا اضافہ کر سکتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں ایک طبقے کو ’’مذہبی علما “ کی شناخت دے کر معاشرے میں متعارف کروانا، جبکہ ان میں سے اکثریت علمی صلاحیت اور دینی اخلاق وکردار کے اعتبار سے اس معیار پر پورا نہیں اترتی، بالآخر اس طبقے اور مدارس کے پورے نظام کے وقار اور وقعت کو برباد کر دینے پر منتج ہوگا۔ مدارس کے ذمہ داران کو اس صورت حال کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ایک موقر ادارے کو ، جو اس وقت مسلم معاشرے کی اہم ترین دینی ضروریات کو پورا کرنے کا ذمہ دار ہے، غلط اور غیر حکیمانہ ترجیحات اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی بھینٹ نہ چڑھا دیا جائے۔

بہرحال حالیہ واقعات کے نتیجے میں پاکیزگی کے پردوں میں مستور اور تقدس کے لبادوں میں محجوب جنسی بداخلاقی کے کلچر پر گفتگو کا دروازہ کھلا اور اس کے سدباب کے لیے درکار ضروری تجزیے کی راہ ہموار ہوئی ہے جو ایک بہت خوش آئند، ضروری اور ناگزیر پیش رفت ہے۔ بچپن اور لڑکپن کی عمر کے تجربات، انسان کی نفسیاتی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اور اس عمر میں اگر کسی معاشرے کی پوری نسل جنسی استحصال کی زد میں ہو تو اس کا تسلسل اگلی نسل میں بھی یقینی ہے، کیونکہ جو نسل جنسی استحصال کو ایک معمول کے عمل کے طور پر قبول کرتے ہوئے جوان ہوگی، اس کے ہاتھوں اگلی نسل کے جنسی استحصال کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس تسلسل کو روکنے کے لیے اسی طرح کا ایک انقطاع لایا جانا ضروری ہے جو مثلا ً کورونا جیسے وائرسز کی روک تھام کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ بچپن اور لڑکپن کی عمر میں نئی نسل کو تمام تدابیر بروئے کار لاتے ہوئے ایسا تحفظ فراہم کیا جائے جس سے اس موروثی اور اجتماعی مرض کا اگلی نسلوں کو انتقال محدود سے محدود تر ہوتا چلا جائے۔

حالیہ دنوں میں بچوں یا نوجوانوں کے جنسی استحصال کو سہولت اور معاونت فراہم کرنے والے ماحول کی مختلف خصوصیات پر اہل دانش نے انسانی نفسیات کی روشنی میں توجہ طلب اور کافی حد تک حقیقت پسندانہ تجزیے پیش کیے۔ اس میں تین چار نکات بہت اہم ہیں:
۱۔ بچوں یا بچیوں کے جنسی استحصال کی بیماری کسی ایک طبقے تک محدود نہیں، بلکہ ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی معاشرتی بیماری ہے۔ تاہم اس کا ظہور بدیہی طور پر اس ماحول میں (مثلا اقامتی دینی اداروں میں) زیادہ ہوتا ہے جہاں بچے، کلیتا بڑوں کے رحم وکرم پر ہوں، غیر محتاط اختلاط کے مواقع بکثرت ہوں اور بچے گھر جیسی ضروری حفاظت سے بالکل محروم ہوں۔

۲۔ اس جرم کو ہلکا سمجھنے اور اس کے تسلسل کو قائم رکھنے میں بنیادی اور اہم ترین عامل، ماحول میں موجود یہ پیغام ہوتا ہے کہ یہ ہوتا آ رہا ہے اور ہر جگہ ہو رہا ہے اور اس کو خاموشی اور پردہ پوشی کی مضبوط پناہ حاصل ہے۔

۳۔ جرم کی تحریک وترغیب کے اسباب موجود اور مواخذہ کے امکانات معدوم ہونے کے باعث انسانی رشتوں کا تقدس ذہنوں میں بالکل دب جاتا ہے اور قریبی رشتہ دار تک اس جرم کے ارتکاب میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے۔ ایسی صورت حال میں دینی اداروں کا نیکی اور تقوی وطہارت کی تلقین پر مبنی ظاہری ماحول بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پاتا، بلکہ جبلی ونفسیاتی محرکات، تقوی وطہارت کی ظاہری تلقین پر غالب آ جاتے ہیں۔

۴۔ ایک اہم تجزیہ طلب نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ فطری جنسی داعیات کی موجودگی میں، صنفین کے تعامل اور اختلاط کے مواقع موجود نہ ہونے اور جنسی رغبت کو بالکل منفی انداز میں پیش کرنے کا معکوس اثر مرتب ہوتا ہے، یعنی اس سے جنسی تجسس اور رغبت بڑھ جاتی ہے اور اس کا رخ ماحول میں موجود آسان شکار یعنی بچوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔

اس سارے تجزیے سے جو بنیادی بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے، وہ ہے کسی خرابی کو روکنے کے لیے سد ذریعہ اور امتناعی تدابیر کی اہمیت۔ اگر کوئی عمل واقعتا اخلاقی لحاظ سے غلط ہے اور اسے روکنا مقصود ہے تو ان تمام تدابیر کی ضرورت اور اہمیت سے بقائمی ہوش وحواس انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کی معاشرتی تعلیمات میں بالکل اسی اصول پر مرد وزن کے اختلاط کے حدود وآداب مقرر کیے گئے ہیں جو اس بنیادی حکم پر مبنی ہیں کہ شادی کے رشتے کے باہر مرد وعورت کا جنسی تعلق ممنوع ہے۔ اسلام اور موجودہ غالب تہذیب کا اصل اختلاف اسی بنیادی موقف میں ہے، اور مردوزن کے اختلاط کی امتناعی تدابیر کے حوالے سے اختلاف اس بنیادی اختلاف پر متفرع ہے۔ تہذیب حاضر کے موقف کے مطابق چونکہ آزاد جنسی تعلق، انفرادی آزادیوں میں شامل ہے جس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی، اس لیے اس کی تجویز کردہ امتناعی تدابیر صرف جبر اور اکراہ کو موضوع بناتی ہیں۔ اسلام کا موقف یہ ہے کہ آزاد جنسی تعلق فی نفسہ ممنوع ہے، اس لیے ان تمام ذرائع، محرکات اور وسائل کا سدباب بھی ضروری ہے جو اس کی راہ ہموار کرتے ہوں۔

مسلم معاشروں میں لبرل جنسی اخلاقیات کے حامی اہل دانش یہاں اخلاقی جرات سے کام لیتے ہوئے وہ اصل موقف بیان کرنے کے بجائے جو غالب تہذیب کا موقف ہے، ایک عجیب الجھا ہوا موقف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ اس حساسیت کو (کم سے کم فی الحال) مجروح نہیں کرنا چاہتے جو آزاد جنسی تعلق کی قباحت کے حوالے سے مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے، اور دوسری طرف انفرادی آزادیوں کے اس ماحول کو فوری طور پر اپنے ارد گرد دیکھنا چاہتے ہیں جو غالب تہذیب کے اصل معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ اس دو ذہنی یا مخمصے کے نتیجے میں وہ مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے امتناعی تدابیر کے خلاف ایسے بے معنی قسم کے استدلالات پیش کرتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی اصل اخلاقیات چونکہ اس کے دل میں ہوتی ہے، اس لیے ماحول میں خواہ مخواہ کی قدغنیں عائد کرنا ایک فضول بات ہے۔ یوں یہ فکری طبقہ بچوں کے جنسی استحصال کے سدباب کے لیے جن تمام تدابیر کی اہمیت خود فصاحت وبلاغت سے بیان کرتا ہے، مرد وزن کے اختلاط کی بحث میں ان میں سے ایک ایک کی نفی کر کے صریح فکری تضاد کا نمونہ بن جاتا ہے۔

مثلا ً بچوں کے باب میں ان اہل دانش کو غیر محتاط اختلاط کے مفاسد صاف دکھائی دیتے ہیں، لیکن مرد وزن کے اختلاط میں ان کی توقع یہ ہوتی ہے کہ ظاہری حجابات اور فاصلوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف کردار کی داخلی مضبوطی پر اعتماد کیا جائے۔ بچوں کے باب میں وہ بالکل درست طور پر اس حقیقت کا ادراک کرتے ہیں کہ جبلی اور نفسیاتی تقاضوں کے سامنے، ضروری احتیاطی تدابیر کی غیر موجودگی میں، ظاہری دینداری کا ماحول بھی غیر موثر ہو جاتا ہے، لیکن مرد وزن کے اختلاط میں ان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ظاہری حدود وآداب کی پابندی کو ایک بے جا تکلف اور اس حوالے سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو کسی کے نجی معاملے میں غیر مطلوب مداخلت باور کیا جائے۔ جنسی گھٹن کے ماحول کا یہ اثر تو ان کی نگاہ بصیرت گہرائی میں جا کر دیکھ لیتی ہے کہ وہ جنسی رغبت کو زیادہ شدت کے ساتھ ابھارنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ کہ خواتین کا لگاوٹ بھرا انداز گفتگو، جسمانی محاسن کی نمائش، نامناسب لباس اور صنف مخالف کے ساتھ بے تکلفانہ اختلاط بھی جنسی تحریش وترغیب کا ذریعہ بنتا ہے، یہ ’’دقیانوسیت“ ان کے ذہن رسا کی گرفت میں نہیں آتی۔ایسے تمام اہل دانش کی دونوں مسئلوں پر لکھی گئی تحریروں کو آمنے سامنے رکھ کر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس ذہنی مخمصے کا شکار ہیں اور قسم قسم کے منطقی مغالطوں سے ایک سیدھی اور صاف بات کے متعلق مسلم معاشرے سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ وہ اسے غیر ضروری اور بے مقصد تسلیم کر کے اس سے دستبردار ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مسلم معاشروں کے لیے تہذیبی بقا اور معاشرتی سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ وہ اپنے اندرون میں موجود اخلاقی انحرافات سے متعلق بھی اپنی سوئی ہوئی حساسیت کو بیدار کریں اور موجودہ غالب تہذیب کے زیراثر جو نئے انحرافات ان پر مسلط کرنے کی کوشش داخل وخارج سے ہو رہی ہے، ان کے حوالے سے بھی اپنی حساسیت کو زندہ اور توانا رکھیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو فہم سلیم کی نعمت ارزاں فرمائے۔ آمین

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply