پاکستانی معیشت-مجھے ہے حکمِ اذاں۔۔نذر حافی

گذشتہ کالم تو آپ نے پڑھا ہی ہوگا۔ عنوان تھا اچھائی پر مبنی مستقبل کی امید۔ آج برائی پر مبنی مستقبل کی بات کرتے ہیں۔ یعنی آج ہمارے پاس بات کرنے کو کچھ رہ ہی نہیں گیا۔ یہ دور سازشی تھیوریوں کا دور ہے۔ لوگ سازشوں کو سمجھنے کے بجائے اُن پر اپنے عقائد بناتے چلے جا رہے ہیں۔ آج کل سازشیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ ان پر یقین کرنے میں خواص اور عوام کا بھی فرق نہیں رہا۔ یوکرائن جنگ کے موقع پر عمران خان کا دورہ روس، او آئی سی کے اجلاس کے موقع پر چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت، یورپ و امریکہ کے خلاف وزیرِاعظم کے بیانات اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دینا، نیز اسمبلی میں مردہ باد امریکہ کے نعرے لگنا۔۔۔۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سارے دیگر مسائل کو چھوڑ کر یہی رام کہانی لے کر بیٹھ جانا اور سارا سارا دن آلتی پالتی مار کر ایک دوسرے کو ہی کوسنے اور طعنے دینا۔

کہیں پر یہ رونا رویا جا رہا ہے کہ بس اب امریکہ کی خیر نہیں اور کہیں پر یہ ماتم کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی دشمنی کا نام ہی تو قیامت ہے۔ گویا بعض احباب کے نزدیک قیامت سے پہلے ہی ایک قیامت آچکی ہے۔ کچھ بزرگان تو یہ کہہ کر ہر روز نئی قیامت ڈھا دیتے ہیں کہ بھائی ہمارا مسئلہ روٹی ہے، امریکہ کی مان جاو اور پیٹ بھر کر روٹی کھاو۔ اس پر کچھ نکمّے لوگوں کی طرف سے یہ نقد کی جاتی ہے کہ امریکہ صرف روٹی نہیں دیتا، وہ ڈو مور کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ اگلا ٹارگٹ پاکستان کی عسکری طاقت، ایٹمی توانائی، کشمیر کی آزادی اور بلوچستان کی یکجہتی ہے۔ گھاگ دانشمندوں کی طرف سے اس نقد کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈومور سے کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ روٹیاں کھاتے جاو اور یس سر کہتے جاو۔ وہ مثالیں بھی چین اور جاپان کی دیتے ہیں۔ مثالیں دینے میں وہ یہ نہیں بتاتے کہ چین اور جاپان نے جو معاشی ترقی کی ہے، وہ امریکہ اور مغربی استعمار کی غلامی کو قبول کرکے کی ہے یا استقلال کے راستے پر چل کر۔

سچ پوچھیں تو حقیقی اور ماہر کھلاڑی خاموشی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ عوام کو برے لوگوں کی حاکمیت پر راضی کیا جائے۔ یہ کھلاڑی موجودہ مُلکی صورتحال سے اُس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا سکتے، جب تک لوگ مایوس نہ ہو جائیں۔ قنوطیت doctrine یا مایوسی پر مبنی عقیدے کے مطابق ہم برے لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، یہ دنیا برے لوگوں اور برائیوں سے بھری ہوئی ہے۔ کوئی چاہے بدعنوان ہے یا خائن، کوئی کرپٹ ہے یا چور، اگر ہمیں روٹی دیتا ہے تو وہی ہمارا رہبر، امام اور لیڈر ہے۔ ہم ایک بھکاری قوم ہیں، ہم دنیا سے بگاڑ کر نہیں رہ سکتے۔۔۔ لوگوں کے اذہان میں یہ قنوطیت اور مایوسی اس وقت جگہ بناتی ہے، جب لوگ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب عوام کو کوئی راہِ حل دکھائی نہیں دیتا تو وہ برائی کو ہی ایک راہِ حل کے طور پر اپنانے کی سوچ لیتے ہیں۔ عوام کانسپریسی تھیوری وغیرہ سے آشنائی ہی نہیں رکھتے۔

جب لوگ ذہنی طور پر برائی اور بُرے لوگوں کی حاکمیت کو قبول کر لیتے ہیں تو پھر سماج برائیوں کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا۔ پھر آوے ہی آوے جو مرضی آوے، والی کیفیّت ہوتی ہے۔ یہی تو خود دار اقوام کے خلاف استعمار کی سوفٹ وار ہے۔ کہیں پر بھی جب انفنٹری یا فوج کے پیدل دستے داخل ہونے لگتے ہیں تو اُن سے پہلے علاقے کو زمینی حملے کیلئے ہموار کرنے کی خاطر ٹینکوں اور توپوں کے ساتھ گولہ باری کی جاتی ہے۔ اسی طرح اس وقت استعمار کے پالتو، خائن، نااہل اور کرپٹ لوگوں کو اقتدار میں داخل کرنے کیلئے عوام کے اذہان پر زبردست گولہ باری کی جاری ہے۔ لوگوں کو آمادہ کیا جا رہا ہے کہ آپ کرپٹ اور خائن لوگوں کو ہی قبول کریں۔ آپ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ عوام کو اسی فریم کے اندر رکھا جا رہا ہے کہ صرف یہی کرپٹ لوگ ہی آپ کے نجات دہندہ ہیں۔

ماضی میں لوگوں نے عمران خان کو موروثی سیاست اور بدعنوان سیاست دانوں کا متبادل سمجھا تھا۔ بعد ازاں بیڈ گوررننس، مہنگائی، بے روزگاری، اقتصادی ناکامی، شِدّت پسندی کی ترویج، جبکہ شدّت پسندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے شہداء کے ورثاء کی توہین، یکساں قومی نصاب کے نام پر فرقہ وارّیت کی تعلیم، بداخلاقی پر مبنی سیاسی کلچر کا فروغ، اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پنجے میں دے دینا، مسئلہ کشمیر پر ناکام سفارتکاری اور کالعدم تنظیموں کی حوصلہ افزائی سمیت متعدد ایسے نکات موجود ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ عمران خان کے پاس کوئی اچھی ٹیم، بڑا وژن یا اس مُلک کو بطریقِ احسن چلانے کی اہلیت نہیں ہے۔ اب اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ خدا کی رحمت سے مایوس ہو جانا چاہیئے اور اب پاکستان میں اچھائی پر مبنی مستقبل کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیئے۔ اگر مغرب اور امریکہ کی طاقت ہمیں نظر آرہی ہے تو چین، روس اور ایران کی صورت میں مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو بھی ذرا دیکھنا چاہیئے۔

لوگوں کے اذہان کو برائی پر مبنی مستقبل کیلئے آمادہ کرنا یعنی عوام کو حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور سے مایوس کرکے دجال کی آمد کیلئے تیار کرنا ہے۔ دجال کے پاس شدّاد کی مانند اپنے پیروکاروں کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان سب کچھ ہے، اُس کے پاس اُس کی اپنی جنت موجود ہے۔ دجّال کے مدمقابل ایک دوسرا لشکر بھی ہے، جو روٹی، کپڑے اور مکان کے بجائے خود داری، عزّت، استقامت اور استقلال کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ہم اگر اس ملک سے ظلم، شقاوت، کرپشن اور رشوت کی تاریکی ختم نہیں کرسکتے تو کم از کم لوگوں کو دجال کی جنّت کی طرف دعوت بھی تو نہ دیں۔ ہمارے لئے قرآن مجید قیامت تک کیلئے مشعلِ راہ ہے اور یہ قرآن کا ہی پیغام ہے: (وَلَا تَقْتُلُوا اٴَوْلَادَکُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاھُمْ) “اور اپنی اولاد کو تنگدستی (کے خوف) سے ہلاک نہ کرنا، ہم تمہیں اور انھیں دونوں کو روزی دیتے ہیں۔” وہ جہالتِ قدیم کے رسیا تھے، جو اُس زمانے کے رائج طریقوں کے مطابق اپنی اولادوں کو تنگدستی کے خوف سے ہلاک کرتے تھے اور یہ جہالتِ جدید کی پیداوار ہیں، جو تنگدستی کے خوف سے اپنی نسلوں کو استعمار کی غلامی کے شکنجے سے ہلاک کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جن لوگوں کو امریکہ و استعمار کی مخالفت ناپسند ہے اور انہیں امریکہ کو خوش کرکے معیشت کو سدھارنا بھلا لگتا ہے، کتابِ خدا اُنہیں مسلسل وعظ کر رہی ہے: وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠(۲۱۶) “قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں ناپسند ہو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔” آپ تحقیق کرکے دیکھ لیجئے۔ تمام آسمانی ہدایتوں، انبیاء کی تعلیمات اور الہیٰ صحیفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کے کسی نبی نے کبھی بھی کسی قوم کی وقتی ترقی اور خوشحالی کیلئے اپنی قوم کو برائی کی طرف دعوت نہیں دی۔ برائی کی طرف دعوت یہ سُنّتِ الہیہ کی قطعی مخالفت اور دجال کیلئے راستہ ہموار کرنا ہے۔ ہمیں ایک طرف فلاح و بہبود کیلئے مسلسل دجال کی طرف دعوت دی جا رہی ہے اور دوسری طرف روزانہ موذن پانچ مرتبہ یہ صدا دیتا ہے کہ حی علی الفلاح: نادانو! کدھر بھٹکے جا رہے ہو!؟ فلاح اُس طرف نہیں، اِس طرف ہے۔ ہے کوئی! جو روزانہ دی جانے والی اذان پر توجہ دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply