• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ” اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارس” / اسٹیٹ ایجنٹس لیڈروں کا ذوقِ نگب وفکر ممنوع۔۔اعظم معراج

” اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارس” / اسٹیٹ ایجنٹس لیڈروں کا ذوقِ نگب وفکر ممنوع۔۔اعظم معراج

دو ہزار سولہ کی بات ہے۔جن دنوں اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف یا فٹیف کی خوشنودی کے لئے صوبائی خودمختاریوں کی سستیوں کے ردعمل میں زمین جائداد کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کیا تھا۔ان دنوں اسٹیٹ ایجنٹ ورغلاو سلسلے کے بسیک آف رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ کے کورسز ڈیفکلریا اور مریری (معراج رئیل اسٹیٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ) کے اشتراک سے ڈیفکلریا آفس میں چل رہے تھے۔اس لئے ہفتے کے ہفتے میں بھی وہی ہوتا تھا۔اکثر منجیجنگ کمیٹی کے لوگ کسی انکم ٹیکس کمشنر یا ایف بی آر کے سندھ بورڈ آف ریونیو کے درمیانے درجے کے افسران سے ملنے جاتے۔مجھے یہ بات ہمشیہ کھٹکتی کہ افسران تو حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد کروانے یا آگاہی دینے آتے ہیں ۔جب کہ ہمارے لوگ بنیادی قوانین میں تبدیلی کروا کر اپنی برداری کے لئے ریلیف چاہتے ہیں۔تو پھر یہ بابوں لوگوں سے کیوں ملتے ہیں۔ جب کہ صوبائی دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے سب سے پوش علاقے میں کاروبار کرنے کی وجہ سے بیشتر سینٹر ممبران قومی وصوبائی اسمبلی انکی دسترس میں بھی ہوتے ہیں جنکی پالیسی سازی میں رائے کو اہمیت بھی دی جاتی ہے۔پھر میرے لیڈر گفتن، نشستن،برخاستن میں توانائی ووقت کیوں نہ ضائع کرتے ہیں کیا یہ صرف شوق تصویریا ہے یا ذوقِ پی آر۔۔یا اس بظاہر بے نتیجہ مشق نگب (نشستن,گفتن، برخاستن) کا واقعی کچھہ فائدہ بھی ہوتا ہے۔ پھر میں سوچتا” بھولے بادشاہ تمہیں کیا پتہ لیڈروں کی حکمت عملیوں کا” لیکن میرے دل و دماغ میں یہ بات ہمشیہ رہتی کہ داد رسی کے لئے شائد صحیح فورم استمال نہیں کئے جارہے۔۔ جبکہ وہ آسانی سے دستیاب بھی ہیں.اج کل پھر حکومت وقت نے فٹیف کی آڑ میں یا ان کا ہی بنایا ہؤا کوئی ساٹھ ایسے سوالات کے جوابات اسٹیٹ ایجنٹ حضرات جیولرز حضرات سے مانگ لئے ہیں۔جنکے جوابات دینے کے لئے اسٹیٹ ایجنٹوں کو سابقہ سکریٹ ایجنٹس، انٹلیجنس افسران کو ہی بطورِ کنسلٹنٹ رکھنا پڑے گا۔جوکہ ہمارے ایک آدھ نام نہاد اسٹیٹ ایجنٹ کے علاؤہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں لہذہ پھر وہ ہی ایف بی آر فٹیف ڈی این ایف بی پی کے نمائندے حکومتی پیغامات لے کر آرہے ہیں۔ مان جاؤ ورنہ پچھتاؤ گے۔ اور ہمارے اسٹیٹ ایجنٹ لیڈر انھی عطار کے لونڈوں سے دوا مانگ رہےہیں ہیں جنہوں نے فٹیف اور حکومت کو ٹرک کی بتی کی بجائے اسٹیٹ ایجنٹوں کے چولہوں سے اٹھتی آگ کی طرف لگایا ہے۔ جب کہ اس میں دو نقطہء نظر ہیں ۔ایک یہ رجسٹریشن ہمیں کچھہ نہیں کہتی یہ ٹیر فنانسنگ کی روک تھام کے لئے وکلاء جیولرز، اسٹیٹ ایجنٹ، اور ٹیکس کنسلٹنٹ کی رجسٹریشن ہے۔جب کہ دوسرا نقطہء نظر ہے۔ ان پیشوں سے وابستہ افراد کے رجسٹرڈ ہوتے ہی انکی پکڑ دھکڑ شروع ہو جائے گی۔اور انکے دھندے ٹھپ اور چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ حالانکہ اگر فنٹف اور ڈی این ایف بی پی والے سنجیدہ ہیں تو زمین جائداد ٹرانسفر کرنے والی اتھارٹیز اور نجی ہاوزنگ والوں کے پاس فارم رکھوائیں۔اسٹیٹ ایجنٹ کی رجسٹریشن بھی ہوجائے گی اور بیچنے خریدنے والے کی مخبری بھی۔خیر اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے دیگر پورے ملک کی ایسوی ایشن کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن ڈیفکلیرین پھر صحیح فورم سے ریلیف نہیں مانگ رہے نا اپنے تحفظات ان تک پہنچا رہے ہیں جہاں سے ریلیف مل سکتا یے۔مثلا صدر پاکستان کے حلقہ انتخاب کے علاقے میں ہمارا یعنی ڈیفکلریا کا پورا علاقہ آتا ہے۔ کئی ڈیفکلیرین کے ان سے ذاتی تعلقات بھی ہیں۔ایک وفد فورا ان تک پہنچنے اور اپنے جائز تحفظات ان تک پہنچائیں یہ ہی صورت حال گورنر سندھ صاحب کی ہے۔ انکا تو پورا حلقہ ہی ڈیفکلیریا کا علاقہ ہے۔ان کو بھی فورہ وفد کی صورت میں ملنا چاہئیے اس حلقے کے موجودہ ایم این اے صاحب بھی پی ٹی آئی کے ڈونر کلب میں سے ہیں اور یقنیا ڈونر کلب کی پی ٹی آئی میں فین کلب سے زیادہ عزت ہے۔اور وہ پراپرٹی کے معاملات کروڑوں پاکستانیوں سے “زیادہ بلکہ بہت زیادہ”سمجھتے ہیں۔ انکی اس سمجھ داری کے ثبوت انکے حکومتی ایم این اے بننے کے بعد رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے” حقوق” کے لئے احتجاج کرتے ہوئے انکی تصاویر اور ویڈیوز میں موجود ہیں۔ اسی طرح دیگر شہروں کی اسٹیٹ ایجنٹ انجمنوں کے عہدے داروں کو بھی اپنے اپنے حلقے کے ایم این اے اور اپنے علاقوں کے سینیٹرز تک اپنے تحفظات و خدشات پہنچانے چاہئیے۔اپوزیشن لیڈر بلاول بھٹو زرداری کی رہائش بھی ڈیفکلریا کے علاقے میں ہے۔اور ہمارے کئی ڈیفکلیرین کی رسائی بلاول ہاؤس تک بھی ہے۔اپوزیشن کو بھی اپنے دکھڑے سنانے میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہیئے۔ کپتان کا زیرو پر آؤٹ ہوئے والا بیٹس مین اسد عمر،بھی کئی اسٹیٹ ایجنٹس کا جاننے والا ہے۔ہاری ہوئی ٹیم کا سابقہ گورنر بھی معشیت پر روز اپنی مہارتیں ٹی وی چینلوں پر نچھاور کر رہے ہوتا۔۔۔دوہزار سولہ میں جب ڈیفکلیرین کا وفد ان سے ملا تھا تو انھوں نے وفاقی کابینہ میں ہونے کے باوجود حکومت کے ملک وقوم کے لئے بظاہر اچھے اقدام کو اسٹیٹ ایجنٹ بلکہ سرمایہ گیروں کے خلاف سمجھتے ہوئے ڈھکے چھپے الفاظ میں ہمارا ہی ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔اسی طرح ابھرتا ہوا حزبِ اختلافی ورکر سابقہ وزیر مفتح اسمعیل کو بھی اپنا مسلہ بتایا جاسکتا ہے۔وہ بھی اسی علاقے میں دستیاب ہے۔ یقین مانیئے جناب صدر پاکستان،گورنر سندھ ایم این اے آفتاب صدیقی، اور ایسے دیگر اول الذکر سیاسی لوگ ڈی جی فیٹف پاکستان خواجہ عدنان ظہیر اور چیر مین ایف بی آر عاصم احمد سے زیادہ حکومت وقت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ ہاں پچیس سال سے ہم ایک میڈیا سیکرٹری بھی رکھتے ہیں ۔اسے کہیں پریس کلب میں جاکر لابی کرے اور صحافیوں اور اینکروں کے سامنے اپنے جائز تحفظات کو چاہے ناجائز طریقوں ( وہ ہی جو اسٹیٹ ایجنٹ ایم ای او،سی بی سی،رجسٹرار آفس،ڈی ایچ اے آفس کے اسٹاف پر استمال کرتا ہے۔) اُجاگر کریں۔ بڑے اینکروں کو بڑے اسٹیک ہولڈرز سے رام کروائیں۔ جن کی وہ بہت مانتے ہیں۔اخر وہ بیچارے بھی تو انسان ہیں ۔۔لہذہ انکی انسانیت کے تقاضے پورے کریں اور کروائیں۔ بس ہر بندہ اپنے اپنے کام لگے نہ کہ سارے ایک نقطے پر جٹ جایا کریں۔ بس ایک شرط ہے۔معاملہ فہمی اپنے مسائل کا ادراک اور ان کے حل کی پیشہ ورانہ انداز میں تیار کی گئی سفارشات تیار ہوں۔ لیکن ظاہر ہے۔الیکشن جیت کر آنے والے اسٹیٹ ایجنٹ لیڈرز مجھ سے تو ان چیزوں کو زیادہ ہی سمجھتے ہیں تبھی تو وہ کمشنروں اور اسٹنٹ ڈریکٹروں کے اگے پیچھے کچھہ سوچ کر ہی پھرتے ہیں۔ ہاں اگر یہ مشورہ پسند آئے (خاکم بدہن) تو ہوم ورک مکمل کرکے جائیں،اور پہلے تمام ممبران نہیں تو کم ازکم ممبران مینجنگ کمیٹی کو یہ ساٹھ سؤالات والا فارم پڑھوا تو دیں۔ تحفظات کو عام ممبران کو سمجھانے کے لئے آگاہی مہم بھی چلائیں ۔مکمل اگاہی کے بعد حکومت کو ایسی تجاویز دیں جن میں ہمارے پیشے کا فائدہ بھی ہو اور یہ تجاویز بنیادی انسانی، مذہبی ،اخلاقی قدروں،وطن کے مفادات سے متصادم بھی نہ ہوں۔یعنی سب دا بھلا سب دی خیر ۔۔نہ کسی سے دشمنی نہ بیر۔۔کیونکہ آخر وطن بھی اپنا ہم وطن بھی اپنے ۔ اور تھوڑی سی عرق ریزی سے ایسا ہوسکتاہے، کہ اپنا نقصان کئے بغیر بھی وطن کا فائدہ کیا جاسکتا ہے۔بس صحیح سمت سوچنے کی بات ہے۔ جوکہ اخلاقی قدروں کے پرچارک سماج میں بادی النظر میں ایک فکر ممنوع ہے۔

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply