اک”لبرل طالبان” کی گزارش

خود فریبی اور آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا کسی طور عقل و خرد کا مثبت استعمال تصور نہیں کیا جا سکتا، خار کو گل کہہ دینے سے وہ رونق چمن نہیں بن جاتا، شب کبھی صبح فیروزاں تصور نہیں کی جاسکتی اور ظلمت، جبر اور دہشت کے خونخوار پجاریوں کو امن، محبت اور انسانیت کا داعی نہیں گردانا جا سکتا۔۔۔بلاوجہ کی تمہید الفاظ کے زیاں کے ساتھ ساتھ قاری کا دل بھی تحریر سے اچاٹ کر دیتی ہے ،تو صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ” ہم سب” فکری مغالطوں میں گھری ہوئی اک ہجوم نما قوم کا حصہ ہیں اور اس مسلمہ حقیقت کو تسلیم کر لینا ہی اصل دانشمندی ہے،رات دن خود فریبی کی افیون پھانکتے اس حد تک نشے میں دھت ہو چکے کہ دوست،دشمن کو پہچاننے کی صلاحیت بھی عنقا ہو چکی،اس سفر کی منزل ماسوائے ابدی بربادی اور کچھ نہیں !
قاتل ہمارے سروں کا تاج ہیں اور مقتول کو ہم چند لاکھ روپے دے کر قتل ہونے والوں کے ساتھ ہی دفنا آتے ہیں ۔لوگوں کی زندگیوں سے بہیمانہ خون کی ہولی کھیلنے والوں ،لاشوں کا مثلہ کرنے کے بعد کھوپڑیوں کے پہاڑ پر فتح کا جھنڈا گاڑنے والوں کو ہم دل و جان سے معاف کر دیتے ہیں ،ہمارے قلم کی روشنائی ان کے اچھے اخلاقی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے کرتے کتنا اندھیر مچا چکی ،ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہم اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے چکنی چپڑی باتوں سے انکی خوشامد کرنے سے کسی طور گریزاں نہیں رہتے۔ صحافتی قوانین سے غداری ہمیں قبول ہے مگر انکی حمایت میں صفحے سیاہ کرنے سے باز نہیں آ سکتے۔ ا ن کی بھرپور مسکراہٹ سے مزین تصاویر جاری کر کے بڑے فخر سے یہ پیغام پژمردہ قوم تک پہنچاتے ہیں کہ ظالم اب ظالم نہیں رہا، جابر نے اب جبر چھوڑ دیا، چور نے چوری سے توبہ کرلی ہے ،اب وہ ناصح ہے، چارہ گر بننے میں مصروف ہے، نو سو چوہے پورے ہو چکے ہیں۔۔۔ اب حج مقبول ہو گا،تو کیوں نہ انہیں نئی زندگی شروع کرنے میں مددکی جائے، انہیں عملی سیاست میں شامل کیا جائے۔۔۔اچھا تو کیا سدھار لائیں گے وہ معاشرے میں؟۔۔۔۔۔ اچھا چلو کیوں نہ حمایت میں چند لفظوں کی خوبصورت مالا پرو کر چوک میں اسی کھوپڑیوں کے پہاڑ پر ٹکا دی جائے ۔۔۔ شدت پسندی اور دہشتگردی کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیئے ان کے سربراہان اور داعیان کو سروں پر بٹھا لیا جائے۔۔۔شاید ہوائیں اپنا رخ تبدیل کر لیں ،حالات سدھر جائیں ۔ بلی کو چھیچھڑوں کا رکھوالا بنا دیا جائے اور پھر چیل کے گھونسلے میں ماس تلاش کیا جائے!
کیا یہ سب باتیں خود فریبی نہیں؟۔۔۔۔ کیا ملک میں جاری دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں شہید ہو جانے والے ہماری سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور ایک لاکھ سے زائد سویلینز​ کے قتل کا قصاص ہم نے معاف کر دیا؟ شہدا کے ماں باپ جنہیں ناز ہے کہ ان کے جگر پاروں نے ملکی ناموس کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کیے ،کیا فخر سے بلند ان سروں کو جھکانے کا وقت آن پہنچا ہے؟ کہ اب ان قاتلوں کو معافی کا پروانہ تھما دیا جائے گا؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان لوگوں کی حمایت میں ایسی تحریریں صفحہ قرطاس کی زینت بنائی جائیں گی جن کے مطابق ملکی سلامتی کو چیلنج کرنے والے دہشت گرد شہید قرار پائیں گے۔۔۔ کیا یہ ان جوانوں کے پاکیزہ خون کی کھلی تذلیل کے مترادف نہ ہوگا جو اسی وطن کی بقا ء کے لیئے خود کو قربان کر گئے ؟کیا یہ شہدا کے والدین سے سنگین مذاق نہ ہوگا؟۔۔ ۔ کیا ایک مکتب فکر کو کافر قرار دیکر اسکے خلاف جہاد کی اہمیت اور اسکے قتل کی فضیلت کو بیان کر کر کے نہ رکنے اور نہ تھکنے والی زبانیں اب امن و محبت کے گیت گائیں گی؟ کیا جھنگوی و لدھیانوی اب عبدالستار ایدھی تصور کیئے جائیں گے؟ آخری عمر میں تو بھیڑیا بھی بکری کا بہترین دوست بن جاتا ہے ،لیکن کیا ہم نفسیاتی طور پر اتنے کمزور ہو چکے ہیں ، اتنے بوکھلا چکے ہیں کہ ہم نے اپنی تمام امیدیں اپنے قاتلوں سے وابستہ کر لی ہیں۔۔۔ افسوس صد افسوس!
اس طویل تمہید کا مقصدگزشتہ دنوں ترقی مسند اور روشن خیالی کے علمبرداروں کی جانب سے ایک متنازعہ شخصیت کی مدح سرائی ہے۔۔۔ وہ لوگ جو ملک میں بسنے والے ایک مکتب ِ فکر پر تکفیریت کے فتویٰ لگاتے ہیں او ر دوسری جانب فرقہ وارانہ فسادات کا سبب بھی بنتے ہیں ۔حکومتی پابندی پر عملدرآمد سے پیشتر ہی اس جنت ِ نظیر میں تفرقہ بازی اور متشدد رویوں کی سلو پوائزننگ اپنا اثر دکھا چکی تھی۔۔کسی متنازعہ شخصیت سے کی جانے والی گفتگو جب اپنے دائرہ سے باہر نکل جائے تو پڑھنے اور سننے والوں کے لیئے زہرِ قاتل ثابت ہوتی ہے۔۔اگر ایک شکرہ معصوم فاختہ کی چیر پھاڑ کے بعد چند منتخب پرندوں کے سامنے بیٹھ کر خود کو معصوم ثابت کردے تو کیا وہ واقعی معصوم ٹھہرائے جانے کے قابل ہے؟اور وہی چنیدہ پرندے اس کی شرمندگی اور شائستگی کا ڈھنڈورا پیٹ کر سب کو قائل کرنے کی کوشش کریں تو آپ انہیں کیا کہیں گے؟ پاکستان میں بسنے والی تمام فاختائیں اب چوکنی ہو جائیں کہ شِکرے تائب ہو گئے ہیں ۔۔۔۔چنیدہ پرندے جنگل میں پھیلی دہشتگردی،شدت پسندی اور عدم برداشت کی روک تھام کے لیئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔قیام امن کے حصول کے لیئے اپنا مثبت کردار ہر طور ادا کرنا چاہیے لیکن جو خود متنازعہ ہے اس کی بات کون مانے؟ مذہبی جید علما کرام و فقہا عظام کا قیام امن و بین المذاہب ہم آہنگی کے لیئے ملاقات کرنا اور انہیں اس دھارے میں اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع دینا اور ایسی جماعتوں کے لیڈران جو خود فرقہ واریت ، شدت پسندی اور عدم برداشت کو پروان چڑھانے میں پیش پیش رہے ہوں کو گفتگو کے ذریعے ماضی کے لگے بدنما داغ دھونے میں اور انہیں دور حاضر کی امن کی فاختہ شمار کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
صرف ایک تحریر نے کروڑوں پاکستانیوں سمیت بیشتر روشن خیال اور ترقی پسند اذہان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے ، بات فقط یہاں تک محدود نہ رہی،وضاحتی بیان نے ناامیدی کی فضا کو مزید بڑھا دیا۔مختلف حلقوں سے تنقید کے ڈونگرے برسنے کے بعد قلمکار صاحب نے بوکھلا کر ایک نئے فتوے کو جنم دیا اور وہ فتوی تھا”لبرل طالبان” اس نئی اصطلاح میں وہ تمام لوگ لبرل طالبان گردانے گئے جنہوں نے تنقید کو اپنا حق گردانتے ہوئے اپنا مؤقف دیا اور تحریر سے بمع شخصیت اختلاف کیا”اور اس پر متسزاد کہ جس کسی نے تنقید کی اسکو قلم کے اعجاز نے اسکی اوقات دلانے کی کوشش کی کہ تم پر تو ہمارا احسان ہے کہ پہچان دی، یہ جرات کہ تنقید کرتے ہو؟”۔۔۔۔۔۔۔ تو آج کل میرے ملک میں دلیل کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی گلے میں سجا کر پھرنے کی ضرورت بھی ہے کہ کون سچا مسلمان ہے؟ اور کون سچا لبرل!تصور کیجئے کہ آپ اچانک مسلمانیت اور لبرلزم سے فارغ کرکے ملحد قرار دے دیے جائیں گے یا لبرل طالبان آپ کی پہچان بن جائے گی۔۔۔۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک ماں اپنے بچے کو کسی عالم دین کے پاس لے کر گئی اور درخواست کی کہ آپ میرے بچے کو سمجھائیں یہ شکر کھانا چھوڑ دے۔۔۔ عالم دین نے فرمایا آپ کل تشریف لائیں، ماں نے اصرار کیا کہ آج ہی نصیحت فرمائیے ۔۔۔تو عالم نے فرمایا آج میں نصیحت نہیں کر سکتا کیوں کہ آج صبح میں نے شکر کھائی ہے،میں کل سے شکر کا استعمال ترک کردوں گا تب ہی اسے نصیحت کرنے کے قابل ہوں گا۔
قارئین کرام !بات فقط اتنی سی ہے کہ ملک میں جاری شدت پسندی، عدم برداشت اور فرقہ واریت کی روک تھام اور قیام امن میں علمائے کرام، مفتیانِ کرام، اور فقہاء عظام کی اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں، بلاشبہ وہ اپنا موثر کردار ادا کر کے ملک کی خدمت کر سکتے ہیں مگر ایسے علماء جو متنازعہ ہوں اور جن پر عوامی حلقوں میں اختلافات​ پائے جائیں جس سے ملک میں فرقہ پرستی کو فروغ ملنے کا خطرہ ہو کو یوں امن و محبت کی فاختہ بنا کر پیش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ الزام تراشی اور لبرل طالبان کی فتوی ٰ بازی ملک میں مزید انتشار کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن ترقی و کامرانی کا زینہ ہر گز نہیں !

Facebook Comments

تامینہ مرزا
تامینہ مرزا پیشے سے استاد ہیں، علم و آگہی کی شمع سے ہر طرح کی جہالت کا اندھیرا مٹانا چاہتی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply