کشمیریوں کی سیاسی یتیمی پر ایک اور مہر(1)۔۔افتخار گیلانی

بتایا جاتا تھا : جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندو ں کو گنا جاتا ہے ۔ یعنی عددی طاقت کے بل پر حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور اکثریتی آبادی کو حق خود اختیاری کا احساس دلا کر ملک کو استحکام فراہم کرتی ہے۔ ویسے تو اسکو بائی پاس کرنے کیلئے دنیا کے مختلف خطوں میں ایک مخصوص گروپ نے پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کی روایت ڈالی ہوئی ہے مگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت نے حال ہی میں مسلم اکثر یتی خطے جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی گیری منڈرینگ Gerrymanderingیعنی چالاکی اور دھوکہ دہی کا سہارا لیکر جس طرح پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندیوں کا اعلان کیا ہے اس کی واحد مثال دنیا میں جنوبی افریقہ کے سابق نسل پرستانہ نظام (اپارتھیڈ رول) میں ملتی ہے۔ جہاں جمہوری اداروں کے ہوتے ہوئے بھی اکثریتی سیاہ فام آبادی کو بے وزن اور بے اختیار بنایا گیا تھا۔ جس خطے میں طاقت کے سبھی اداروں ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں اکثریتی آبادی کی نمائندگی پہلے ہی برائے نام ہو، وہاں ایک موہوم سی امید سیاسی میدان یا اسمبلی میں نمائندگی پر ٹکی ہوئی ہوتی تھی، اب اس پرکاری ضرب پڑ چکی ہے۔ اس کی ساتھ شاید نئی دہلی کے حکمرانوں کو کشمیر خطے میں میر صادق یا میر جعفروں کو پالنے کی بھی اب ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ گیر مینڈرنگ کے ذریعے اب وہ خود ہی اقتدار اور عوام کی تقدیر کے مالک ہونگے۔ 5اگست 2019کو جب ریاست کو تحلیل کرکے اسکو دو مرکزی تحویل والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا تو اسی وقت بتایا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی میں کل 114نشستیں ہونگی، جس میں 90نشستوں پر انتخابات ہونگے، بقیہ 24نشستیں آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام خطے کیلئے مخصوص ہونگی۔ لداخ خطے میں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔ چونکہ سیٹیں 83(لداخ کی چار نشتوں کو چھوڑ کر) سے90کر دی گئی تھیں اسی لئے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن تشکیل دیکر اس کو سیٹوں کی نئی حد بندی کا کام تفویض کیا گیا ۔ دنیا بھر میںانتخابی حد بندی کیلئے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کرنشستوں کا تعین کیا جاتا ہے مگر کشمیر کا باو آدم ہی نرالا ہے اسلئے ان دونوں انڈکسز کو پس پشت ڈال کر فرقہ وارانہ بنیاوں پر اور ہندو اکثریتی جموں خطے کو بااختیار بناکر ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کا عمل کیا گیا ہے۔ کمیشن میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نمائندے جیتندر سنگھ نے پہلے تو آبادی کے بجائے جغرافیہ کو معیار بنانے کی ضد کی تھی کیونکہ آبادی کے لحاظ سے گو کہ وادی کشمیر کر برتری حاصل ہے جغرافیہ کے لحاظ سے جموں خطے کا رقبہ زیادہ ہے۔ مگر بعد میں ان کو ادراک ہوا کہ جغرافیہ کا معیار ان کے اپنے مفادات پر پورا نہیں اترتا ہے ، کیونکہ جموں خطے میں جغرافیہ کے لحاظ سے اسکے دو مسلم اکثریتی ذیلی خطوں پیر پنچال اور چناب ویلی کا رقبہ ہندو اکثریتی توی خطے سے زیادہ ہے۔ان خطوں میں مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب 74.52فیصد اور 59.97فیصد ہے۔ کمیشن نے اپنی فائنل رپورٹ میں جموں کیلئے چھ سیٹیں بڑھانے اور کشمیر کیلئے محض ایک نشت بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ یعنی ا ب نئی اسمبلی میں وادی کشمیرکی 47اور جموں کی 43سیٹیںہونگی۔ان نشستوں میں 16 محفوظ نشتیں ہونگی۔ نچلی ذات کے ہندوں یعنی دلتوں یا شیڈیولولڈ کاسٹ کیلئے سات اور قبائلیوں یعنی گوجر، بکروال طبقے کیلئے نو سیٹیں مخصوص ہونگی۔ اس سے قبل کشمیر کے پاس 46اور جموں کے پاس 37سیٹیں تھیں۔ وادی کشمیر کی سیٹیں اسلئے زیادہ تھیں کیونکہ 2011کی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 68.8لاکھ تھی، جبکہ جموں خطے کی آبادی 53.7لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے 13لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے نو سیٹیں زیادہ تھیں۔ جبکہ اصولاً یہ تفاوت 12سیٹوں کا ہونا چاہئے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ 50ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا، جبکہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ 45ہزار رکھی گئی تھی۔ پچھلی اسمبلی میں بھی مسلم آبادی کی نمائندگی جو آبادی کے اعتبار سے 68.31فیصد ہونی چاہئے تھی، 66.66فیصد تھی۔ جبکہ ہندو نمائندگی ، جو 28.43فیصد ہونی چاہئے تھی، 31فیصد تھی۔ اب وادی کشمیر میں 1.46لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی اور جموں میں 1.25لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ تفاوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کے مسلم اکثریتی ذیلی پیرپنچال خطہ میں 1.40لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی، جبکہ ہندو اکثریتی جموں۔توی خطہ میں بس 1.25لاکھ آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ یعنی وادی کشمیر کا ایک ووٹ جموں کے 0.8ووٹ کے برابر ہوگا۔ یوں جمہوریت کی اس نئی شکل میں بندو ں کو گننے کے بجائے تولنے کا کام کیا گیا ہے اور ان کے مذہب اور نسل کو مدنظر رکھ کر ان کے ووٹ کو وزن دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ پیر پنچال کی 8میں سے 5سیٹوں کو گوجر آبادی کیلئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس خطے میں چونکہ پہاڑی آبادی کثیر تعداد میں آباد ہے، اسلئے یہ قدم مستقل طور پر ان دونوں مسلم برادریوں کے درمیان تنازعہ کا باعث ہوگا۔ قانونی طور پر گوجر وں کو شیڈولڈ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، مگر ان ہی علاقوں میں ان ہی جیسے غربت اور پسماندگی کے شکار پہاڑی طبقے کو اسے مبرا رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ 1990میں کشمیر سے ہجرت کر چکے کشمیری پنڈتوں یعنی ہندوں کیلئے دو نشستیں محفوظ کی جائیںگی۔جس میں ایک کیلئے لازماً پنڈت خاتون ہونی چاہئے۔ ان دو نشستوں کیلئے انتخابات کے بعد نئی حکومت ممبر نامزد کریگی۔ اسی طرح دہلی ، ہریانہ، پنجاب اور جموں میں مکین1947میں تقسیم ہند کے وقت جو مہاجرین، پاکستان کے زیر انتظام خطوں یا آزاد کشمیر سے آئے تھے، ان کیلئے بھی سیٹیں مخصوص کرنے اور امیدوار نامز د کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مگر ان کیلئے تعداد کا تعین حکومت پر چھوڑا گیا ہے ۔ ان دونوں زمروں میں آنے والے امیدوار گو کہ نامزد ہونگے، مگر ان کو قانون سازی اور حکومت سازی کیلئے ووٹنگ کے برابر حقوق حاصل ہونگے۔ گو کہ حکومتیں، قانون ساز ایوانوں میں امیدوار نامزد کرتی ہیں، مگر وہ ووٹنگ رائٹ سے محروم ہوتے ہیں۔عام طور پر حکومت سازی کیلئے ووٹنگ رائٹ براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب امیدواروں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق 1947کے مہاجرین کیلئے چار سے پانچ نشستیں مخصوص ہوسکتی ہیں۔چونکہ پنڈتوں اور مہاجرین کیلئے مخصوص نشستیں 90سے اوپر ہیں، اسلئے ان کیلئے جولائی میں پارلیمان کے مون سون اجلاس میں قانون سازی کی جائیگی۔(جاری ہے)روزنامہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply