• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • ڈاکٹر ابھے کمار:جدید اردو صحافت کا ایک بے لوث خادم۔۔وصی احمد الحریری

ڈاکٹر ابھے کمار:جدید اردو صحافت کا ایک بے لوث خادم۔۔وصی احمد الحریری

وہ جمعہ کا دن تھا اور نماز سے ذرا قبل ہم اپنے ہاسٹل کے میس میں چند دوستوں کے ساتھ لنچ کر رہے تھے کہ ابھے کمار بھائی کے اسی دن روزنامہ انقلاب میں شائع کسی مضمون پر کھانے کے درمیان بات چل پڑی،تو میں نے موقع پر موجود چمپارن والے شاہد بھائی سے جو اس زمانے میں ان کے قریبی دوستوں میں تھے سے پوچھا کہ کیا ان کے اردو مضامین کے تراجم آپ کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ وہ خود ہی اچھی اردو جانتے ہیں اور وہ خود ہی اس میں لکھتے ہیں،میرا یہ سوال ان سے شاید اس لیے تھا کہ ہم اب موجودہ ہندوستان کے جس ماحول میں جی رہے ہیں وہاں اب شاید یہ تصور ختم ہوچکا ہے کہ ایک شخص جو مسلم بیک گراؤنڈ سے نہیں آتا ہے وہ بھی اردو جانتا ہوگا، حالانکہ یہ تصور نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن اردو زبان پر جس طرح سے ہم نے اپنی ایک خاص طرح کی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے یا پھر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے جس طرح اردو کے ساتھ غیر منصفانہ اور بے حسی پر مبنی رویہ قائم ہوگیا ہے اس سے یہ تصور تقریباً لوگوں میں عام ہوگیا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے اور اسے مسلمان ہی سیکھتے اور اس میں پڑھتے اور لکھتے ہیں، یہی حال عربی کے ساتھ بھی ہے،بلکہ اردو کے تعلق سے لوگوں کو حیرت کم اور عربی و پرشین کے تعلق سے حیرت زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ اردو میں بہترین ادیبوں کا ایک پورا طبقہ ہے جو مسلم پس منظر سے نہیں آتے لیکن انہوں نے اردو ادب اور اس کی تہذیب و ثقافت میں گرانقدر اضافہ کیا ہے اور اب تک کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہم مالک رام، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، چکبست، فراق گورکھپوری، پریم چند اور تلوک چند محروم جیسے سیکڑوں نام لے سکتے ہیں جنہوں نے بلا تفریق اردو کے فروغ کے لئے خود کو وقف کردیا تھا۔

یہی حال عربی زبان و ادب کا بھی ہے کہ عربی ادب کا جو قدیم حصہ ہے اور جس کی حیثیت مرجع کی ہے اس کے تقریباً بہترین شعراء و ادبا مسلم بیک گراؤنڈ سے نہیں ہیں بلکہ اگر ہم جدید عربی کے اہم ناموں کو بھی دیکھیں تو وہاں بھی تقریباً چوٹی کے ادباء عیسائی مذہب سے آتے ہیں اس سلسلے میں نمایاں نام جرجی زیدان، خلیل جبران، خلیل مطران،میخائیل نعیمہ،می زیادہ اور ایلیا ابو ماضی کے ہیں جنہوں نے جدید عربی کے فروغ میں زبردست کردار ادا کیا ہے، سو پتہ چلا کہ زبان کا تعلق کسی خاص قوم سے نہیں ہوتا ہے بلکہ ہوا اور پانی کی طرح یہ تمام انسانیت کی وراثت ہوتی ہے۔ خیر، ذکر چل رہا تھا ابھے کمار کے اردو مضامین کا اور ان کی اردو دانی کا،جو لوگ اردو اخبارات و رسائل اور بالخصوص “انقلاب” اور “دعوت”کے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں وہ ضرور ابھے کمار کے مختلف سماجی، سیاسی، ملکی اور عالمی موضوعات پر لکھے گئے دانشورانہ،جرأت مندانہ اور عالمانہ مضامین سے واقف ہونگے،وہ نہ یہ کہ اردو کے ایک اچھے صحافی ہیں بلکہ وہ بیک وقت انگلش، ہندی اور اردو تینوں زبانوں میں وقت کے سلگتے مسائل پر پوری جرأت اور بے باکی سے مضامین لکھتے ہیں اور ساتھ ہی عربی اور پرشین کے اچھے جانکار بھی ہیں،یوں تو ابھے کمار کا اردو سے شوق اور رشتہ بھت پرانا ہے لیکن اس رشتہ میں مزید نکھار اور پختگی شاید اس دوران آئی ہوگی کہ جب انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں “مسلم پرسنل لا بورڈ “کے نظریات و خدمات کو اپنی پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا ہوگا اور اس کے لیے اردو اور عربی کے مصادر و مراجع کا مطالعہ براہ راست کیا ہوگا،وہ خود اردو سے اپنے رشتہ کو روزنامہ انقلاب میں شائع اپنے ایک مضمون ” اردو نے کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا”میں اس طرح بیان کرتے ہیں “میں نے اردو کی پڑھائی ابتدائی کلاس سے نہیں کی،سیکنڈری میں آکر میں نے اردو لکھنا اور پڑھنا جانا،صحافت کی شروعات میں نے اردو اخبارات سے کی تھی پھر بعد میں انگریزی اخبار میں آگیا،اردو صحافت سے میرا رشتہ دو دہائی سے بھی زیادہ لمبا ہے”۔

ابھے کمار کا اردو صحافت سے نہ یہ کہ قدیم رشتہ ہے بلکہ وہ اردو کے ایک بہترین صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ کئی زبانوں کے ماہر ہیں اور ساتھ ہی ، تاریخ داں،مبصر،دانشور اور اسلامیات و سیاسیات کے اچھے جانکار بھی ہیں، ان کا مذہب ظلم و ستم کے خلاف پوری بے باکی سے لکھنا، بولنا ہے اور مظلوموں کے انصاف کے لیے عملی طور پر صدائے احتجاج بلند کرنا ہے،اور اس کی مثال مختلف سلگتے مسائل پر ان کے لکھے ہوئے مضامین ہیں، میری خواہش ہے کہ وہ جلد ہی اپنے بہترین مضامین کے مجموعہ کو کتابی شکل میں لاکر اہل اردو کی خدمت میں یہ قیمتی ہدیہ پیش کرینگے،اس طرح ان کے افکار و خیالات منظم طریقے سے کتابی شکل میں بھی آجائیں  گے، اور تشنگان علم و فن کے مطالعہ کے لئے رسائی بھی آسان ہو جائے گی۔۔

یہ تو صرف مختصر ذکر ہوا ان کی صحافت کا،وہ صحافتی خدمات کے علاوہ جو خاموشی اور پورے انہماک سے ایک بہت ہی بنیادی اور اہم کارنامہ انجام دے رہے ہیں وہ کارنامہ ہے اردو تدریس کا،وہ   تمام دیگر مشاغل  کے ساتھ ساتھ پچھلے کئی سالوں سے اردو آن لائن کلاس چلا رہے ہیں اور پوری کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں ،ان کے اس آن لائن اردو کلاس سے کئی بیچ سیکڑوں کی تعداد میں اردو سیکھ کر اردو کی خوشبو کو پورے ہندوستان میں پھیلا رہے ہیں ۔  بلکہ اس موقع پر ایک اور بات جو قابلِ  ذکر ہے ان کی اردو خدمات کے حوالے سے ،وہ یہ ہے کہ آج کل انہوں نے اردو کے یومیہ استعمال والے الفاظ کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جس میں وہ اردو کے معانی ہندی اور انگلش  دونوں ہی زبانوں میں بیان کرتے ہیں، اگر یہ قیمتی سلسلہ دور تک چلا تو اس طرح اردو کو ایک بہترین سہ لسانی لغت مل جائے گی، میری ان سے درخواست ہے کہ وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں اور اسے ایک بہترین لغت میں تبدیل کر دیں،اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اردو زبان پر ان کا ایک بڑا احسان ہوگا،کیونکہ میری نظر میں وہ تینوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھنے کی وجہ سے اس کام کے لئے زیادہ موزوں اور مناسب ہیں۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ابھے بھائی کے حلقہ احباب میں شامل ہونے کا مجھے بھی شرف حاصل ہے، اور نہ یہ کہ لفظی شرف بلکہ عملی طور پر جب بھی کوئی علمی استفسار ہو،کوئی ذاتی مسئلہ ہو،کوئی قومی ایشو ہو تو وہ فوراً  ہی اس کے حل کے لئے مخلصانہ طور پر حاضر ہوجاتے ہیں۔

میں نے پوچھا تھا کہ اخلاص کسے کہتے ہیں
ایک بچہ تری تصویر اٹھا لایا تھا

ابھے بھائی جیسے نوجوان اسکالر سے مل کر ہمیشہ لکھنے پڑھنے اور زندگی میں کچھ نہ کچھ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے،وہ خود میں ایک انجمن،ایک تحریک،ایک انسائیکلوپیڈیا اور چلتی پھرتی لائبریری ہیں،یہ کہنا مبالغہ آمیز  نہ ہوگا کہ وہ جے این یو کی دانشورانہ وراثت کے امین اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے پاسبان ہیں،سماج میں ایسے صاف دل، نیک، ملنسار، متحرک و فعال شخصیت کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ہے، دعا ہے کہ وہ یوں ہی پوری دیوانگی کے ساتھ ظلم و تشدد کے خلاف عِلِم بغاوت بلند کئے رہیں اور سماجی انصاف کی جنگ علمی اور عملی دونوں سطحوں پر یوں ہی بے خوف ہوکر لڑتے رہیں-

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی-

Advertisements
julia rana solicitors

وصی احمد الحریری،ریسرچ اسکالر، جے این یو، نئی دہلی-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply