فلسطین (28) ۔ دیوار/وہاراامباکر

اسرائیلی حکومت 2003 سے ایک مغربی کنارے میں ایک رکاوٹ تعمیر کر رہی ہے۔ اس کو مختلف نام دئے جاتے ہیں۔ اسرائیلیوں میں زیادہ مقبول security fence ہے جبکہ فلسطینیوں میں apartheid wall۔ اسرائیلیوں کے لئے یہ ان کی حفاظت کے لئے ناگزیر ہے۔ فلسطینیوں کے لئے یہ قبضے کی علامت ہے۔
سب سے پہلے یہ کہ کیا یہ دیوار ہے یا جنگلا؟ یہ دونوں ہے۔ شہروں اور ہائی وے کے قریب کا حصہ کنکریٹ کی دیوار ہے جو چھبیس فٹ تک اونچی ہے۔ یہ اس کا دس فیصد حصہ ہے۔ باقی حصہ ساڑھے چھ فٹ اونچے جنگلے پر مشتمل ہے جس پر برقی سینسر لگے ہیں جو اس کے قریب حرکت ڈیٹکٹ کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک طرف خندق ہے جس پر کانٹے دار تار ہے جبکہ دوسری طرف مٹی کی سڑک تا کہ پہرہ داری کرنے والوں کو قدموں کے نشان نظر آ جائیں۔ مکمل ہونے پر یہ سات سو کلومیٹر لمبی ہو گی۔ اس کا دو تہائی سے زیادہ مکمل ہو چکا ہے۔ اس کی تعمیری لاگت دو ملین ڈالر فی کلومیٹر کی ہے اور ابھی تک مکمل ہونے پر 2.6 ارب ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں۔ یہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر پراجیکٹ ہے۔
تو پھر اتنا مہنگا اور متنازعہ پراجیکٹ بنایا کیوں گیا؟
اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر 1994 میں برقی تار بنائی تھی۔ یہ اتنا بڑا علاقہ نہیں تھا۔ جب دوسرا انتفاضہ شروع ہوا تو مغربی کنارے پر ایسا پراجیکٹ بنانے کا آئیڈیا اسرائیلی عوام میں مقبول ہوا اور اس کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ پہلا انتفاضہ پرتشدد نہیں تھا اور اس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد میں شرکت تھی۔ دوسرا انتقاضہ ستمبر 2000 میں شروع ہوا تھا اور جلد ہی اس میں خودکش حملے ہونے لگے تھے۔ بسیں، شاپنگ مال، سپرمارکیٹ، منڈیاں، ریسٹورنٹ اور کلب وغیرہ نشانہ بننے لگے۔ زیادہ تر ان کو مغربی کنارے سے کیا جاتا۔ سب سے خونی سال 2002 تھا جب 53 خود کش حملے ہوئے۔
اس تناظر میں حکمران لیکود پارٹی نے 2002 میں جو فیصلے لئے اس میں اوسلو مذاکرات کے بعد خالی کردہ مغربی کنارے کے شہروں پر دوبارہ عسکری قبضہ کرنے کے ساتھ دیوار بنانے کا فیصلہ تھا۔ جون 2002 میں کابینہ نے اس کی منظوری دے دی۔ اس کی تعمیر اگلے سال شروع ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوار بننے کے ساتھ خودکش حملے کم ہوتے گئے۔ 2009 میں ان کی تعداد صفر ہو چکی تھی۔ اسرائیلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ دیوار سینکڑوں حملے روک چکی ہے۔ زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے صرف یہی نہیں، کئی دوسرے عوامل ہیں۔ ایک مغربی کنارے پر کیا گیا دوبارہ قبضہ ہے۔ دوسرا فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ سیکورٹی معاملات پر تعاون ہے۔ لیکن اس دیوار نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے۔ اور اس وجہ سے اسرائیل میں یہ بہت مقبول ہے۔ تقریباً تمام اسرائیلی اس کی موجودگی کے حق میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف، فلسطینی اس کی موجودگی کے شدید مخالف ہیں۔ کئی جگہوں پر اس دیوار نے ان کی زمین پر قبضہ کیا ہے اور کئی جگہ پر انہیں روزگار کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ چونکہ اسرائیلیوں کی ترجیح سیکورٹی تھی نہ کہ اس کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل۔۔۔ اس لئے اس کے راستے پر خاص توجہ نہیں دی گئی کہ اس کی وجہ سے کیا مسائل پیش آ سکتے ہیں۔
اس کو گرین لائن (1949 کی جنگ بندی کی لکیر) پر نہیں بنایا گیا بلکہ 85 فیصد حصہ مغربی کنارے میں ہے۔ اس کے راستے میں اسرائیلی آبادیوں کو بچانے کے لئے جو راستہ چنا گیا ہے، وہ کئی جگہ پر فلسطینی زمینوں پر قبضہ کرتا ہے۔ اگر یہ مکمل ہو جاتی ہے تو مغربی کنارے کی دس فیصد زمین اسرائیل کی سائیڈ پر ہو گی۔ اس زمین کو اسرائیلی seam zone کہتے ہیں۔ اس میں 71 اسرائیلی آبادیاں اور 32 فلسطینی دیہات ہیں۔
اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ اس کا راستہ صرف سیکورٹی کو مدِنظر رکھ کر بنایا گیا ہے، اسرائیلی ہائی کورٹ کئی درخواستوں میں مسترد کر چکی ہے۔ کورٹ کیسز کی وجہ سے کئی جگہ پر اسرائیل کو راستہ تبدیل کرنا پڑا ہے۔ (مثلاً، ایک جگہ پر یہ ایک گاوٗں کو دو میں تقسیم کر رہی تھی، ہائی کورٹ نے اس کو ہٹوا دیا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوار نے اس کے قریب رہنے والے فلسطینیوں کی زندگی کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر کسانوں کو اپنے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے خاص اجازت ناموں کی ضرورت ہے۔ اور یہ اجازت دن کے چند گھنٹوں یا سال کے کچھ حصے کے لئے ملتی ہے جیسا کہ زیتون اتارنے کے موسم میں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسان ہر قسم کی فصل نہیں اگا سکتے۔
وہ دیہات جو seam زون میں ہیں، وہاں کے فلسطینی رہائشی پھنس گئے ہیں اور انہیں دوسری سائیڈ پر اپنے رشتہ داروں یا دوستوں سے ملنے میں دشواری کا سامنا ہے جنہیں اس کے لئے پرمٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ (جو ہمیشہ نہیں ملتا)۔
قلقلیہ شہر کی پچاس ہزار کی آبادی ہے جس کے تین طرف بیرئیر ہے اور اس شہر میں داخلہ اب صرف ایک ملٹری چیک پوسٹ پار کر کے آتا ہے۔
مشرقی یروشلم کو باقی مغربی کنارے سے کاٹ دیا گیا ہے۔ مشرقی یروشلم میں میونسپل سروسز کا فقدان ہے۔ چونکہ اسرائیلی پولیس یہاں داخل نہیں ہوتی، اس لئے جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولائی 2004 میں عالمی عدالتِ انصاف نے اس دیوار کے بارے میں اپنی مشاورتی رائے دی تھی کہ اگرچہ اسے اسرائیل کے سیکورٹی خدشات کا احساس ہے لیکن اس کو مغربی کنارے میں بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل دیوار کی تعمیر بند کرے، بنائی گئی دیوار کو گرائے اور متاثر ہونے والے فلسطینیوں کو معاوضہ ادا کرے۔ یہ فلسطینیوں کے لئے قانونی اور سفارتی کامیابی تھی لیکن سولہ سال کے بعد بھی دیوار وہیں ہے۔
اگرچہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ یہ عارضی دیوار ہے اور صرف اس وقت تک ہے جب تک پرتشدد کارروائیاں بند نہیں ہو جاتیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اب لگتا ایسا ہے کہ یہ جلد گرنے والی نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply