جمہوریت خطرے میں ہے ۔۔نازش ہما قاسمی

 جمہوریت کی بنیاد چار ستونوں پر قائم ہے، جس طرح گھر کی مضبوطی کیلئے ستون ناگزیر ہے، بعینہ جمہوریت کیلئے بھی ناگزیر ہے، اگر چاروں میں سے کسی ایک بھی ستون کو گھن لگ جائے یا اس میں دراڑ پڑنے لگے تو بروقت اس کی مرمت ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ اس سے غفلت پورے گھر کی تباہی کا سبب بن جائے۔ لیکن افسوس کہ دنیا کی سب سے بڑی ہماری جمہوریت کے اس گھر کو گھن بھی لگ گیا ہے اور اب اس کے تیسرے ستون “عدلیہ،، میں بھی شگاف ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، جمہوریت کا چوتھا ستون جسے عوام کی آواز کہا جاتا ہے اب وہ کہیں گم ہوچکا ہے، پہلے جو عوامی آواز سمجھا جاتا تھا اب سیاسی بن چکا ہے، جسے عوامی مسائل پر گفتگو کیلئے قائم کیا گیا تھا اب سیاسی گفتگو تک منحصر ہوچکا ہے، معاشی مسائل پر گفتگو کرنے کے بجائے اب سیاسی مسائل پر بات چیت ہوتی ہے، ایک خاص نظریہ کو تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے،اس کے ذریعہ سے ہندوتو کو فروغ دیاجارہا ہے، سیکولر ذہنوں کو ورغلانے کی کوشش کی جارہی ہے، کثرت میں وحدت کو ختم کرنے کی سعی کی جارہی ہے، نفرت کی دیواریں اس قدر بلندکردی گئی ہیں کہ ہندو مسلم کے علاوہ کچھ دکھائی ہی نہیں پڑتا، ڈیبیٹ میں سنجیدگی کی جگہ شور شرابہ ہوتا ہے، بلکہ اب تو ڈیبیٹ کانیانام اکھاڑہ رکھ دیناچاہیے۔

میڈیا ہاؤس کے زعفرانی رنگ میں رنگنے کے باوجود عوام کو اس بات کی امید تھی کہ ہماری  عدلیہ پاک و صاف ہے، انصاف کے مندر میں آج بھی امن کے پجاری رہتے ہیں ، لیکن گزشتہ دنوں چار سینئر ججوں کی پریس کانفرنس نے پورے ملک کو انگشت بدنداں کردیا، ہمارے ملک میں پہلی بار ایسا ہوا جب سپریم کورٹ کے ججوں نے پریس کانفرنس کرکے اپنی بات عوام کے سامنے رکھی، پرائم منسٹر نریندر مودی کا یہ جملہ سچ ثابت ہوگیا کہ کانگریس نے اپنے ساٹھ سالہ اقتدار میں کیا دیا ؟ کانگریس کے ساٹھ سالہ اقتدار میں عوام کو جب بھی انصاف کی ضرورت پڑی تو انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا ہے، لیکن مودی جی کے تین سالہ دور اقتدار میں ججوں کو ہی انصاف کیلئے عوامی عدالت کا سہارا لینا پڑا۔

وہ جو انصاف دیا کرتے تھے خودانصاف کے طلب گار نظر آئے۔ ہاتھ جوڑے ہوئے جج کی تصویر یہ پیغام دینے لگی کہ اب جمہوریت ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی ہے کہ خدارا ملک کی سلامتی کے لیے آگے آئیں ، ملک خطرے میں ہے۔ ججوں کی پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اب ہمارا ملک کس سمت میں جارہا ہے، اب مجرموں کے دفاع کیلئے عدالت کا استعمال بھی کیا جانے لگا ہے، بلکہ اب تو شرپسند عناصر کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ آئے دن سرکاری افسران کی کھلے عام بے عزتی کرتے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں ہوپاتی ہے، سر عام پولیس اور دیگر افسران کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حکومت خاموش ہے۔ جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ جملہ مسلمانان ہند کب سے بولتے چلے آرہے تھے کہ جمہوریت خطرے میں ہے، لیکن کوئی دھیان نہیں دے رہا تھا، مسلمان دلت اور برادران وطن کی قلیل سیکولر تعداد اپنے ناتواں کندھوں پر اس بار گراں کو ڈھو رہے ہیں ، انہیں خوف ہے کہ اگر فرقہ پرستی اسی طرح پروان چڑھتی رہی، پھلتی پھولتی رہی تو ملک ٹوٹ جائے گا، خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا، اسی لیے وہ ان فرقہ پرستوں کے جواب میں جگہ جگہ قومی یکجہتی کیلئے  آواز بلند کررہے ہیں ، خوشحال ہندوستان کیلئے کوشاں ہیں ، لیکن کامیاب اس لیے نہیں ہورہے ہیں کہ زمام اقتدار فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں ہے۔

جمہوریت خطرے میں ہے جب یہ جملہ ملک کی سب سے بڑی عدلیہ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے کہا تو سیکولر عوام متفکر ہوگئے۔۔انہیں خوف ستانے لگا کہ کیا اب ہمارا ملک جو گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار تھا، ہندوراشٹر میں تبدیل ہوجائے گا؟ چاروں سینئر ججوں کی پریس کانفرنس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قومی میڈیا جوجمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے اس نے جمہوریت کے تیسرے ستون کی آواز کو دبادیا،جو آواز ملک کے کونے کونے میں پہنچنی چاہیے تھی وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ آج میڈیا میں چاروں سینئر ججوں کے سوالات گردش نہیں کررہے ہیں ، ان کا خوف (کہ جمہوریت خطرے میں ہے) نہیں دکھایا جارہا ہے، اگر کچھ دکھایا جارہا ہے تو وہ ہندو مسلم، طلاق، حج سبسڈی ، کیونکہ یہی سب سے بڑا مدعا ہے اس ملک کا۔اگر فرقہ پرستوں کی دجل کاریاں ، ان کا فریب، ان کی گندی سوچ اسی طرح پروان چڑھتی رہی، عدلیہ میں انصاف کا خون ہوتا رہا، ظالم کیفر کردار کے بجائے کرسیوں پر اور مظلوم ہمدردی کے بجائے ناانصافی کی بھینٹ چڑھتےرہے تو یقینا ملک ٹوٹ جائے گا اور جمہوریت ختم ہوجائے گی۔

ایسے نازک موڑپر ہمیں اب کرنا کیا ہے؟ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ کیا ہم ان فرقہ پرستوں کی چیرہ دستیوں کے سامنے سپر ڈال دیں ، ان کی سازشوں کے شکار ہوکر خاموشی اختیار کرلیں ۔ نہیں ! ایسا کرنا بزدلوں کا شیوہ ہے۔ وہ حالات سے سمجھوتہ کرکے وقت کے فرعونوں کے سامنے جھکاکرتے ہیں ۔ ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس نے کبھی ہار نہیں مانی، نامساعد حالات سے ٹکرانا ہمارا مشغلہ رہا، نفرت کی دیواروں کو ہم نے محبتوں سے ڈھایا ہے۔ اس لیے بڑے پیمانے پر ہمیں زمینی کام کرنے ہیں ، برادران وطن جو ورغلائے گئے ہیں ، انہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ تم سیاست کی بھینٹ چڑھ رہے ہو یہ سیاسی بازی گر،نفرتوں کے سوداگر آپ کو استعمال کررہے ہیں اور جب آپ استعمال ہوچکے ہوں گے تو توگڑیا کی طرح کہیں پھینکے ہوئے ملیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی سوچیں !… بی جے پی اقتدار میں اس لیے آئی تھی کہ وہ روزگارمہیا کرے گی، سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیا گیا تھا، کیا حکومت سب کے ساتھ ہے، سب کی ترقی ہورہی ہے، نہیں ؟ ان کے نعروں کے فریب میں آکر لاکھوں نوجوان بے روزگار ہوگئے، کانگریس حکومت سے زیادہ اس حکومت میں کسان خودکشی کررہے ہیں ، ملکی معیشت کم ظرفوں کی طرح روز گرتی جارہی ہے، کیا ہندو بنام مسلم سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے؟۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا! اس لیے ہمیں برسوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کرنی ہوگی، ججوں کے خدشات کو سمجھنا ہوگا، جمہوریت کی بقا کے لیے فرقہ پرستوں سے لوہا لینا ہوگا،تبھی ہم اپنے ملک میں جمہوریت کوبچاسکیں گے اوراس ملک کی صدیوں پرانی گنگاجمنی تہذیب کی حفاظت کرسکیں گے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جمہوریت خطرے میں ہے ۔۔نازش ہما قاسمی

Leave a Reply