چھوٹے میاں

روءف کلاسرا ہوں یا کامران خان تفتیشی صحافت (investigative journalism ) کے لئے ایک گھر کا بھیدی دستیاب ہونا لازم ہے۔ "اندر" کے بندے کے ذریعے یہ صحافی معلومات اور ثبوتوں تک پہنچ پاتا ہے۔ اندر کا یہ" بندہ" ،مفعول کے جس قدر قریب ہوگا اتنا ہی خطرناک ہو گا اور اتنا ہی بڑا ثبوت مہیا کرے گا۔ بعض اوقات آپ محض ثبوت دیکھ کر ہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کس کا " کام" ہے۔

بسا اوقات جس فیملی ، کمپنی یا گروپ کی بات کی جارہی ہو اس کی مجموعی نفسیات بھی اس گھر کے بھیدی تک پہنچا دیتی ہے۔ محترم نوازشریف صاحب اپنے گلے کا ڈھول دوسرے کی گردن میں ڈالتے ہوئے اپنے والد میاں شریف مرحوم کی " قبر کا ٹرائیل" کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی یہ ہار اپنی سگی اولاد کے گلے میں ڈالتے ہیں۔ لگتا ہے ان کے ساتھ بھی یہی ہونے جارہا ہے۔ یعنی نفع دیکھو۔۔۔ بندہ نہ دیکھو۔

بی بی سی کے نمائندے کو ملنے والی رسیدیں بھی کچھ اسی نوعیت کا ثبوت ہیں۔ جو نہ صرف نواز شریف صاحب کی کرپشن ثابت کررہی ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کررہی ہیں کہ یہ رسیدیں مہیا کرنے والا گھر ہی کا کوئی بندہ ہے جو یہ لنکا ڈھا رہا ہے۔ ورنہ ایسا ثبوت میاں صاحب کے دشمنوں کے پاس تو نہیں ہو سکتا

Advertisements
julia rana solicitors london

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اس قضیے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے beneficiary۔ یعنی یہ رسیدیں اور ثبوت منظر عام پر آنے کے بعد اس کا نقصان تو میاں صاحب کو ہوسکتا ہے لیکن فائدہ کسے پہنچ سکتا ہے۔ کہیں یہ رسیدیں وہ لائف انشورنس پالیسی تو نہیں جو کسی کی موت کے بعد وارثوں کے کام آئے؟ اور پالیسی بھی کیسی جو پروردہ وارث ( محترمہ مریم صفدر) کا پتہ بھی کاٹ دے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سب سے بڑا اور واحد beneficiary اگر کوئی ہے تو وہ محترم آصف علی زرداری ہیں۔ بعینہ محترم نواز شریف کی سیاسی موت کا beneficiary کون ہوسکتا ہے جبکہ مریم صفدر صاحبہ اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا ہی میں کومے میں جا چکی ہیں ۔
سرمایہ دارانہ نفسیات کا پہلو بھی یہاں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو صرف نفع و نقصان کی بنیاد پر اپنی ترجیحات طے کرتی ہے۔ سرمایہ دار صرف یہ دیکھتا ہے کہ نفع کس چیز میں ہے اور نقصان کس میں۔ کس جگہ انویسٹ کرنے سے کتنا نفع آنے کی امید ہے ۔ یہ رسیدیں بھی لگتا ہے انویسٹمنٹ ہی ہیں جس سے بھاری منافعے کی امید ہے۔لگتا ہے چھوٹے استاد زرداری صاحب کو تو سڑکوں پر نہیں گھسیٹ پائے لیکن بڑے استاد کی پیٹھ میں خنجر ضرور گھونپ چکے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply