• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نئی اسرائیلی حکومت اور احمقوں کی جنت میں رہتے لوگ۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

نئی اسرائیلی حکومت اور احمقوں کی جنت میں رہتے لوگ۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

اصل صورتحال کو سمجھنے کے لیے ایک مثال کا سہارا لیتے ہیں، عربوں کی اکثر مثالوں کا تعلق اونٹ سے ہوتا ہے، کیونکہ اونٹ ان کی زندگی کا سب سے اہم ترین حصہ ہوتے تھے۔ کسی شخص نے ایک عرب بدو سے پوچھا کہ کیا کھاتے ہو؟ اس نے کہا اونٹ، اس نے پوچھا کیا پیتے ہو؟ اس نے کہا اونٹ، اس نے کہا کیا پہنتے ہو؟ اس نے کہا اونٹ۔ اس نے پھر پوچھا سفر کس پر کرتے ہو؟ اس نے کہاں اونٹ پر، اس نے تنگ آ کر پوچھا کہ رہتے کس میں ہو؟ اس نے کہا اونٹ میں۔ پوچھنے والا ناراض ہونے لگا تو عرب بدو نے کہا ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں نے بالکل سچ بولا ہے، میں بھوک لگنے پر اونٹ کا گوشت کھاتا ہوں، پیاس لگنے پر اونٹ کا دودھ پیتا ہوں، میرا لباس اونٹ کی اون سے بنا ہے، میں اونٹ میں ہی رہتا ہوں، کیونکہ میرا خیمہ اونٹ کی کھال سے بنا ہے اور میں جب سفر کرتا ہوں تو میری سواری بھی یہ اونٹ ہوتا ہے۔ تو خیر ذکر ایک مثال کا ہو رہا تھا، اونٹ سے کسی نے پوچھا تھا کہ اترائی اچھی ہے یا چڑھائی اچھی ہے؟ اب کیونکہ اونٹ کی اگلی ٹانگیں اونچی ہوتی ہیں اس کے لیے اترائی اور چڑھائی دونوں کسی عذاب سے کم نہیں ہیں۔ اونٹ نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر جواب دیا دونوں پر خدا کی لعنت ہو۔

اسرائیل میں سیاسی انتشار عروج پر ہے، دو سال میں چار انتخابات ہوچکے ہیں۔ اسرائیل پر بارہ سال سے قابض نیتن یاہو کی حکومت خطرے میں تھی۔ ٹرمپ نے اسے اقتدار میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ عربوں کو ان کی دہلیز پر لا کر بٹھا دیا۔ قدس شریف میں ایمبیسی کی منتقلی سے لے کر گولان کی پہاڑیوں تک میں سٹیٹس کو کی صورتحال کو تبدیل کرتے ہوئے مکمل طور پر اسرائیلی بیانیہ کو قبول کر لیا گیا۔ اس سب کے باوجود بھی نیتن یاہو الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اسرائیلی صدر کی طرف سے دی گئی مدت میں مطلوبہ اکثریت دکھانے میں بری طرح ناکام رہے۔ اسرائیلی صدر نے اپوزیشن کو حکومت بنانے کی دعوت دی، جنہوں نے مختلف گروپس کو اکٹھا کرکے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا کی مصداق ایک حکومت تشکیل دی ہے۔

نیتن یاہو نے انتہاء پسند صیہونیوں کو خوش کرنے کے لیے فلسطین پر جنگ بھی مسلط کی، اس جنگ نے اس کی مقبولیت کو مزید کم کر دیا۔ اسرائیل جنگ ہمیشہ میدان جنگ کی بجائے جاسوسی اور فریب کاری کے میدان میں لڑتا ہے۔ 1948ء کی پہلی جنگ کے دوران ہی سے اسے یہ لت پڑی ہے، جب مصر، اردن اور شام کی افواج کے برطانوی افسران نے جنگی پلان تک اسرائیل کے حوالے کر دیئے تھے۔ انہوں نے حملے کا وقت اور دیگر تفصیلات تک بتا دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا نقصان نہ ہوا اور عربوں کا بہت زیادہ نقصان ہوگیا۔ نیتن یاہو کو حماس کے ساتھ یہ جنگ مہنگی پڑ گئی اور کئی دنوں تک اسرائیلی گھروں میں محصور رہے۔ نیتن یاہو نے فلسطینیوں کو انتہائی نقصان پہنچایا، اس کا بارہ سالہ دور آزادی پسندوں کے لیے ایک تاریک دور ہے۔ اس میں فلسطینیوں کی ناکہ بندی جاری رہی۔ فلسطینی زمینیں کو ہڑپ کرنے کے لیے کارروائیاں تیزی کی گئیں۔ غرب اردن، قدس شریف اور دیگر علاقوں میں صیہونیوں کو بسانے کا عمل تیز کیا گیا۔ اسی طرح فلسطینیوں کے دیہات کو جانے والی سڑکیں اکھاڑ دی گئیں، ان کو پانی سپلائی کرنے والی لائنز کو اڑا دیا گیا۔

بین الاقوامی اور مسلم ممالک کے میڈیا نے اسرائیل میں بسنے والے عربوں کی جماعت کے الیکشن میں حصہ لینے کو بڑی تبدیلی سے تعبیر کیا۔ چند سیٹوں کی جیت کو بھی بھرپور کوریج دی گئی۔ اسرائیل میں مقیم ان عربوں کے مظاہروں کو کوئی کوریج نہیں دی گئی، جس نے اسرائیلی قابض فورسز کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی۔ اسرائیلی فوج نے انتہائی بے دردی سے انہیں کچل دیا تھا۔ استعماری قوتوں کا اٹھارویں صدی سے یہ طریقہ واردات رہا ہے کہ وہ مقامی لوگوں میں سے کچھ افراد کو شریک اقتدار کرنے کا ڈرامہ کرکے اپنے قبضے کو مستحکم کرتے ہیں۔ لیبیا میں عمر مختار کو اٹالین جنرل نے کہا تھا کہ ہم مل کر لیبیا کی تعمیر کرتے ہیں؟ عمر مختار نے کہا تھا کہ ہم لیبیا کی تعمیر خود کریں گے، آپ اپنا بوریا بسترا اٹھائیں اور جائیں، لیبیا لیبیا کے رہنے والوں کا ہے، آپ کا نہیں ہے۔ مقبوضہ فلسطین کی بھی یہی صورتحال ہے۔

اسرائیل میں حکومت میں تبدیلی پر بعض لوگ غیر ضروری پرامید نظر آرہے ہیں۔ جناب اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی سے ان کی پالیسیوں میں ذرا برابر بھی کوئی فرق نہیں آنے والا۔ نئی حکومت ماضی کی حکومتوں سے بھی زیادہ مظالم ڈھائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت صرف ایک آدمی کی اکثریت سے ہے، اسے اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے بار بار تشدد کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ اسے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے، جس کے نتیجے میں اسرائیلیون کی اکثریت ان کے ساتھ رہے اور وہ اقدامات فلسطینیوں کے لیے موت اور زمین چھن جانے کے ہی ہوں گے۔ اسرئیل کے نئے بننے والے وزیراعظم نفتل بینٹ غرب اردن میں صیہونی آبادیوں کے پھیلانے کے پرزور حامی ہیں۔ اسرائیل میں جس کی بھی حکومت ہو، وہ اونٹ کے لیے اترائی یا چڑھائی کی طرح ہے، جن دونوں پر اونٹ نے لعنت بھیجی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جو احمقوں کی جنت میں رہ کر پرامید ہو رہے تھے، انہیں خبر ہو کہ تازہ خبر کے مطابق موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نے مشرقی بیت المقدس میں باب دمشق اور مسلم اکثریتی علاقوں سے گزرنے والے مارچ کی اجازت دے دی ہے۔ اس پر حماس نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ آگے منظر نامہ بڑا واضح ہے، فلسطینی اس مارچ کے خلاف مظاہرے کریں گے، اسرائیل انہیں طاقت سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے نیتجے میں جھڑپیں ہوں گی اور اسرائیل کو مزید فلسطینیوں کو گرفتار کرنے اور مزید گھروں کو گرانے کا موقع ملے گا اور حماس کی مداخلت کی صورت میں ایک اور جنگ ہوگی۔ قابض قوتوں اور جن کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا، ان کے درمیان یہ کشمکش اس وقت جاری رہے گی، جب تک زمین اصل مالکوں کو واپس نہیں مل جاتی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply