ہم بھولے نہیں ہیں۔ ۔ ۔

ایک وقت تھا جب پاکستان میں روزانہ کہیں نا کہیں بم دھماکہ ہوتا تھا۔ پورے ملک میں خوف کی فضا طاری تھی۔ دن بھر کے تھکے ہارے جب شام کو گھر لوٹتے تو ٹیلی ویژن سکرین پر کٹی پھٹی لاشیں اور خون آلود مناظر دیکھ کر نیم مردہ سے ہو جاتے۔ زندگی اور اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگتی۔ اسکرین پر دکھائے جانے والے ہولناک مناظر کے ساتھ ٹِکرز میں بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد جلی حروف میں دکھائی جاتی۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ تعداد کم ہوتی مگر رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی اور دھماکے کے ایک دو گھنٹوں کے بعد سینکڑوں تک جا پہنچتی۔ ایسے میں جب کہ پورا پاکستان رنج و غم کی کیفیت میں مبتلا ہوتا تو اچانک اسکرین پر ٹِکرز چلنے لگتے۔ ۔
"فلاں جگہ پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان نے قبول کر لی۔ ایسی کارروائیاں مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔ طالبان ترجمان احسان اللہ احسان"
ایسی خبریں پڑھ کر جی چاہتا تھا کہ ریموٹ مار کر ٹی۔وی توڑ دیں کہ ہمارے بزرگوں جوانوں حتی کہ معصوم بچوں کو بے گناہ شہید کرنے کے بعد کس دھڑلے سے ذمہ داری بھی قبول کر رہے ہیں۔ ہمارے بچوں کو مار کر ہمارے ہی میڈیا کو اپنے پیغامات کی ترسیل کا ذریعہ بھی بنا رکھا ہے۔
سکرین پر لکھے ہوئے معصوم پاکستانیوں کے ان قاتلوں کے نام شدید ڈپریشن کا شکار کرتے تھے۔ ہر دردمند پاکستانی اس ڈپریشن میں مبتلا تھا۔ اور شدید قسم کا انتقام چاہتا تھا۔ ایسے میں حکومت کے گھِسے پٹے بیانات "دہشتگردوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ بدلہ لے کر رہیں گے وغیرہ وغیرہ" بھی پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ناکافی ہوتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سانحہ اے۔پی۔ایس کسے نہیں یاد؟ جب معصوم بچوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر بندوقوں کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مائیں اپنے بچوں کی کتابوں پر پڑے خون کے لوتھڑوں میں لختِ جگر تلاش کرتی تھیں۔ ہر پاکستانی غم سے نڈھال تھا۔ مجھ سمیت ہر ایک صرف اشکبار نہیں تھا بلکہ زاروقطار روتا تھا۔ عوام میں غصے کا یہ حال تھا کہ کمزور دل لوگ بھی دہشت گردوں کی مسخ شدہ لاشوں کو شئیر کرتے تھے۔ اور انہیں بار بار دیکھ کر اپنے اندر ابلتی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر کسی کا بس نہیں چلتا تھا کہ تاریخ کے اس اندوہناک ترین واقعے کے ذمہ داروں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دے۔ ایسے میں تحریک طالبان کے عمر خراسانی کی ٹویٹ سامنے آئی جو اس نے سانحہ اے۔پی۔ایس سے دو دن قبل کی تھی۔ ٹویٹ میں شعر لکھا تھا۔ ۔ ۔
"ہم پہ روئیں ہماری ہی مائیں
ہم نے اگرتم کو خوں رلایا نہیں"
گویا واقعے کے منصوبہ بندوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ سب پاکستانیوں کو خون کے آنسو رلایا جائے۔ اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ البتہ اس سانحے نے پوری قوم کو ایک نیا عزم دیا۔ حکومت اپوزیشن اور سیکیورٹی اداروں سمیت ہر خاص و عام بدلہ لینے کے لیے پرعظم تھا۔ نتیجہ نیشنل ایکشن پلان جیسے ایک موثر آپریشن کی صورت میں نکلا۔ جس کے بعد ملک بھر میں موجود سفاک دہشت گردوں کے سرغنہ یا تو مارے گئے یا پھر انہوں نے بھاگ کر اپنے منبع اور پڑوسی ملک میں جا پناہ لی۔ گو کہ یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں اب بھی دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اور دہشت گرد فرار ہوتے وقت بھی بزدلانہ کارروائیاں کر رہے ہیں تاہم پہلے کی نسبت ایسے واقعات میں بڑی واضح کمی آئی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے دھماکے اب ہفتوں یا مہینوں بعد ہوتے ہیں۔
گزشتہ روز طالبان ترجمان احسان اللہ احسان کو ٹی۔وی اسکرین پر دیکھ کر ایک بار پھر زخم تازہ ہو گئے۔ ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قاتل کو پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ بیان دیتے دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ ایک ساعت میں کٹی پھٹی لاشیں تباہ شدہ عمارات خون آلود مناظر اور ان کے نیچے چمکتا احسان اللہ کا بیان۔ ۔ ۔آنکھوں کے سامنے لہرا گئے۔
یہ وہی شخص ہے جو عین اس وقت بیان جاری کیا کرتا تھا جب مائیں اپنے بیٹوں اور بچوں کی لاشوں پر دھاڑیں مار کر رو رہیں ہوتیں۔ ۔ ۔
کیا یہ وہی شخص تھا؟
اگر وہی ہے۔ ۔ ۔ تو اتنا پرسکون کیوں۔ اس کے چہرے پر ذرا بھی ندامت کے آثار نہیں۔ ایسے لوگوں کو سرعام پھانسی پر لٹکا کر نشانِ عبرت بنانے کی بجائے اعترافی بیان دلوا کر ہمدردیاں کیوں سمیٹی جا رہی ہیں؟کیا یہ شخص اس لائق ہے کہ اسے اتنی پذیرائی دی جائے اور اپنا خودساختہ مؤقف سب کے سامنے پیش کرنے کی اجازت دی جائے؟ کیا اعتراف جرم کرنے سے پاکستانی قوم کو لگائے گئے زخموں کا مداوا ہو سکے گا۔ ۔ ۔ یا پھر بحیثیت پاکستانی ہم ان سب دکھوں کو بھول جائیں گے؟
نہیں جناب۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں
پاکستانی قوم اتنی بھی بھلکڑ نہیں ہے کہ بےگناہ مارے گئے اپنے بچوں بوڑھوں اور خواتین کو بھول جائے۔ یہ صرف انتقام کی بات نہیں ہے بلکہ ایک سبق کی بات ہے۔ ایسا سبق جو ان دہشت گردوں کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں۔ ورنہ ایسے لوگ بار بار پیدا ہوتے رہیں گے۔اور پاکستانیوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کے بعد ٹیلی وژن سکرینوں پر سات خون معاف کروانے کی ٹِپس دیتے نظر آئیں گے۔
بالفرض پاکستانی اداروں کو بعض وجوہات کی بناء پر ان قاتلوں کی خیریت نیک مطلوب ہے تب بھی ایسے لوگوں کو ٹاک شوز کی زینت بنانے کی بجائے سزائے موت دینے تک قید تنہائی جیسی اذیت ناک سزائیں تو ضرور دی جائیں تا کہ بقیہ زندگی جیل کی کال کوٹھڑی کی دیواریں معصوموں کی چیخیں بن کر ان کے ضمیر کو کچوکے لگاتی رہیں۔ اور انہیں یاد رہے کہ پاکستانی قوم ان کے لگائے زخموں کو بھُولی نہیں۔ ۔ ۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply