کُرم ایجنسی کا علاقہ “علی زئی”۔۔عدیل رضا عابدی

ہمیں فخر ہے کہ اپنے حصے کے چراغ ہم خود جلاتے ہیں۔ایسا کہنا ہے بہار علی طوری کا۔

زیرِنظر تصویر میں ” بہار علی طوری“ اپنی ورکشاپ میں کام سیکھنے والے بچے ” مرتضیٰ حسین “ کو حسب معمول اسکول سے ملنے والا ہوم ورک کروا رہے ہیں۔ مرتضیٰ حسین اسکول کے بعد ورکشاپ میں آکر دوپہر کا کھانا کھاتا ہے، اسکول کا ہوم ورک کرتا ہے اور پھر شام چھ بجے تک اپنے استاد موٹر مکینک ناصر حسین کا ہاتھ بٹاتا ہے۔

تین سو خاندانوں پہ مشتمل کُرّم ایجنسی کا سرسبز و شاداب علاقہ ” علی زئی “ جہاں برٹش راج میں افغانستان سے آنے والے فرنگی افسران بغرض ِ استراحت قیام کرتے تھے۔ ” علی زئی ریسٹ ہاؤس“ کی دوسو سالہ قدیم عمارت آج بھی شان و شوکت سے کھڑی ہے جو اب کُرّم ملیشیا کے زیر استعمال ہے۔

علاقہ مکینوں کی اکثریت خوشحال کاروباری ہونے کے ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے ہنر و تعلیم کو لازمی جز و سمجھنے والے نوجوانوں  کی اکثریت انگریزی ،اردو، فارسی اور فرانسسی ادب سے بھی شغف رکھتی ہے۔ علاقے میں ایک سرکاری، دو نجی پرائمری و سیکنڈری اسکول، طلبہ و طالبات کے لئے کالجز موجود ہیں جبکہ ایک انجینئرنگ جامعہ تعمیر کے آخری مراحل میں   ہے۔

2018ء میں ملحقہ علاقے بلاآمین میں طالبان کی لشکر کشی کے سبب علی زئی جنگ کی زد میں آیا ،جس کی وجہ سے یہاں کاروبار اور دیگر معمولات ِ زندگی شدید متاثر ہوئے۔ بیشتر خاندان اسلام آباد منتقل ہوگئے، حالیہ دنوں میں حلقے میں 2500 رجسٹرڈ مرد ووٹرز ہیں ،جبکہ خواتین کی تعداد کا راقم کو علم نہیں۔کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے علاقے میں ایک سرکاری ہسپتال اور دو نجی کلینک موجود ہیں، جو جدید طبی سہولیات سے آراستہ ہیں۔ فارمیسی و میڈیکل  سٹورز پہ تمام اچھی کمپنیوں کی ادویات دستیاب ہیں، لیکن یہاں کے ڈاکٹرز کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ جینرک فارمولہ لکھ کر دیتے ہیں۔

روس، افغان، پاکستان ٹریڈ ٹرانزٹ روٹ علی زئی سے گزر کر جاتا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت میں خوست بارڈر بند ہونے سے علاقے میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار متاثر ہوا، جس کی وجہ سے بڑے سرمایہ داروں نے اپنا کاروبار پشاور اور راولپنڈی منتقل کردیا ہے۔ کریانے کی دکانوں اور مارٹس پہ ایرانی، بھارتی اور کویتی پراڈکٹس کی بھرمار ہے ،جن میں اشیائے خورد ونوش کے ساتھ کاسمیٹکس آئٹمز شامل ہیں۔ علاقے میں بغیر سکیورٹی گارڈ کے ایک بینک بھی موجود ہے۔

علاقے میں موجود شاہ حسین امام بارگاہ اور جامع مسجد امام جعفر الصادق مذہبی سرگرمیوں جبکہ قومی مرکز سیاسی سرگرمیوں اور جرگوں کے لئے مخصوص ہے۔ 2018ء کے بعد ضلعی قوانین نافذ ہوئے تو مقامی نوجوانوں کو ہی پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ سود پہ پیسہ دینا، عوامی جگہوں پہ چرس پینا اور دیگر کئی” غیراخلاقی افعال “ جرم شمار ہوتے ہیں، جن کا فیصلہ مقامی مشران و ملکان پہ مشتمل جرگہ کرتا ہے۔

علاقے کو 66 کے وی اے کی لائن کے ذریعے واپڈا بجلی فراہم کرتا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں علی زئی گرڈ اسٹیشن کو اپ گریڈ کرکے 132 کے وی اے کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔
گندم، چاول، گنا، مونگ پھلی اور مونگ کی دال کی کاشت علاقے میں بڑے پیمانے پہ کی جاتی ہے، جبکہ خوبانی، انار اور انگور کے باغات بھی لوگوں نے شوق میں لگا رکھے ہیں جن سے ہر راہگیر سَیر ہوسکتا ہے، بس شرط اتنی ہے کہ پھل ضائع نہ ہو۔ سڑکوں کے اطراف میں گل مہر، سفیدے، چنار، بیری، شہتوت اور چلغوزے کے درخت بکثرت ہیں جو علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

آؤٹ ڈور گیمز میں ہر جگہ کی طرح یہاں بھی کرکٹ کو ہی اوّل درجہ حاصل ہے، ہر ماہ ٹورنامنٹس منعقد ہوتے ہیں جن میں ہنگو، ٹل، بگن، صدہ اور پارہ چنار کی ٹیمیں شرکت کرتی ہیں۔ والی بال بھی بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔ ہفتہ اور اتوار کے دن نوجوان تفریح کے لئے دریائے کُرم کا رخ کرتے ہیں، یا سید میر انور علیہ الرحمہ کی زیارت پہ حاضری دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

موسم کے حوالے سے بات کی جائے تو مئی ،جون اور جولائی میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے جو کہ کراچی یا لاہور والوں کے لئے غنیمت ہی شمار ہوگی۔ اگست میں بارشیں ہوتی ہیں جبکہ اکتوبر سے اپریل تک موسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو حکومت کی ذرا سی توجہ اس علاقے کو بہترین سیاحتی مقام میں تبدیل کرسکتی ہے جو کہ گھومنے پھرنے کے شوقین افراد کے لئے کم بجٹ ثابت ہوگا۔ ہر قسم کی سہولت سے آراستہ اس علاقے کے نوجوانوں کا حکومت سے بس ایک ہی مطالبہ ہے کہ موبائل پہ ڈیٹا انٹرنیٹ سروس جو کہ 2018 سے بند ہے ،کھول دی جائے کیوں کہ پی ٹی سی ایل وائی فائی ہر کسی کی دسترس میں نہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply