دل پیارا سا۔۔روبینہ قریشی

کبھی کبھار ہم لوگوں کے بارے میں  جلدی رائے  قائم کر لیتے ہیں ،ضروری نہیں ہوتا کہ جو جیسا نظر آرہا ہو وہ واقعتاً بھی ایسا ہی ہو۔

جہاز سعودیہ میں لینڈ کر رہا تھا، اس مرتبہ پھر میں اکیلے سفر کررہی تھی، . بچوں نے سعودیہ کی سم میرے موبائل میں ڈال کے پاکستان میں ہی مجھے دیدی تھی۔ادھر بابر نے اس میں بیلنس بھی کروا دیا تھا۔اس لیے میں مطمئن تھی۔

بس کچھ یہ فکر تھی کہ بورڈنگ والا مرحلہ آسانی سے طے ہو جائے۔جہاز کے اندر تو حالات ایسے تھے جیسے، “ٹبہ” والی بس پہ ہوتے  ہیں ،پاکستان سے جانے والے زیادہ تر محنت مزدوری کرنے والے لوگ نظر آرہے تھے۔
ایک صاحب نے تو جہاز پہ بیٹھتے ہی شور مچایا ہوا تھا کہ میرا دل گھبرا رہا ہے۔آخر کار ایک اسٹیورڈ نے آکر  اسے سمجھایا کہ اگر دل گھبرا رہا ہے تو تحمل سے کام لو۔۔ نہیں تو ابھی جہاز سے اتار دیں گے،ٹکٹ بھی ضائع اور وقت بھی ضائع۔

اس کے بعد ان کا دل گھبرانا بالکل ٹھیک ہو گیا۔

مجھے ایک پیاری سی بیٹی کے ساتھ جگہ ملی،بچی نے جینز پہنی ہوئی تھی، اوپر فل بازوؤں والی شرٹ، بالوں میں اونچی سی پونی،فل ٹائم چیونگم چباتے ہوئے وہ پُر اعتماد سی لڑکی مجھے اچھی لگی۔

بچی پاکستان میں انجینئرنگ کر رہی تھی  اور اب گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین کے پاس جارہی تھی۔سعودیہ میں اور یو  اے  ای میں اچھی تعلیم کا نہ ہونا پاکستانی کمیونٹی کا مشترکہ مسئلہ ہے۔بچی نے کچھ اپنا بتایاِ، کچھ اس کو میں نے اپنا بتایا کہ پہلے بھی دو مرتبہ سعودیہ گئی ہوں۔ اب اپنی بیٹی کی ڈیلیوی کے سلسلے میں جارہی ہوں۔
کچھ دیر کے بعد لڑکی نے ہینڈز فری لگا کے آنکھیں بند کر لیں
مجھے اس پیاری سی لڑکی پہ تھوڑا سا غصہ آرہا تھا
یہ کیا بات ہوئی۔۔
مجھے لگا کہ مجھے ignore کرنے کیلئے اس نے ایسا کیا

خیر!ہم کسی سے کم نہیں
ہم نے بھی نیا موبائل نکالا، ہینڈز فری لگائی اور تلاوت سننے لگے۔
کچھ دیر سو گئی۔۔
ائیر ہوسٹس کی آواز پہ آنکھ کھلی
فس (فش) چکن۔۔فس (فش)، چکن
وہ سب سے پوچھ رہی تھی

شروع میں تو جہاز والے کھانے کی سمجھ ہی نہیں آتی تھی، بہرحال کھانا کھاتے ہوئے دل چاہ رہا تھا کہ اس بچی سے مزید کچھ بات کروں لیکن اس کا موڈ نہیں لگا بات کرنے والا، تو خاموش رہی۔

جب جہاز لینڈ کرنے لگا تو اس بچی نے اپنے ہینڈ بیگ سے گاؤن نکالا اور اپنے آپ کو مکمل پردے میں ڈھانپ   لیا۔
اور شیطان نے  میرے دل میں  یہ خیال ڈال    دیا  تھا کہ
“کتنی ہوشیار ہے، ماں باپ کے سامنے گاؤن میں جائے گی۔۔حالانکہ ان دنوں سعودیہ میں چھوٹے شہروں کے ائیر پورٹ پہ گاؤن لازمی تھا۔
.
سعودی عملہ تیزی سے لوگوں کو ڈیل کررہا تھا۔جیسے ہی سیڑھی سے کوئی اترتا وہ پوچھتے”قدیم، جدید”؟
میں ہمیشہ اپنے آپ کو جدید اور up to date رکھنا پسند کرتی ہوں، جونہی متعلقہ آفیسر نے مجھے پوچھا”قدیم، جدید”؟
میں نے فوراً کہا “جدید”

اتفاقاً وہی بچی میرے پیچھے تھی۔۔ اس نے کہا
“کیا کرتی ہیں آنٹی، جدید کہاں ہیں آپ.۔۔آپ تو قدیم ہیں،
ابھی میں سوچ رہی تھی کہ اسے بتاؤں کہ قدیم تو ضرور ہوں لیکن اب اتنی بھی قدیم نہیں ہوں کہ جگہ جگہ میرے قدیم ہونے کا اعلان ہو رہا ہو۔

جب اس بچی نے مجھے قریب آکے بتایا۔۔” آنٹی، جدید وہ ہیں جو پہلی مرتبہ سعودیہ میں داخل ہورہے ہیں۔ انکا procedure بہت لمبا ہوگا۔آپ تو پہلے بھی آتی رہی ہیں، تو اس لیے آپ کو قدیم کہہ رہے۔اس کا آپ کی عمر سے کوئی لینا دینا نہیں۔

اُس بات سے مجھے تسلی ہوئی،اور شرمندگی بھی۔۔

میں نے اُصے ساتھ لگا کر  شکریہ  کہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کبھی کبھار بظاہر ماڈرن اور نک چڑھے  نظر آنے والے   لوگ بھی  خوبصورت دل کے  مالک ہوتے  ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply