چپڑ چپڑ۔۔سیّد محمد زاہد

”میرا خیال تھا کہ  آج وہ مجھے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ہائے ہائے! مجھے تو بتایا گیا تھا کہ وہ بڑا پرہیز گار ومتقی  عالم ہے۔ صرف پڑھنا پڑھانا ہی اس کا  واحد شوق ہے۔  استادالاساتذہ ہے۔ اُف اللہ! موئے کو کیسی کیسی بری عادات ہیں ۔ ایسی حرکات کا  مجھے تو علم ہی نہیں تھا۔“سنبل کا دل مسوس کر رہ گیا تھا۔  بڑے چاؤ اور جوش سے وہ تیار ہو کر سب سے پہلے پہنچی  تھی۔اب وہ  مجسم  اشتعال  بنی بولتی جارہی تھی۔

رشیداں بھی بولتی جا رہی  تھی۔  ”میں بھی  بالکل نابلد تھی ۔ماں باپ نے تو  کبھی گھر کی چاردیواری سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ ایک ٹی وی تھا جس پر صرف سرکاری  چینل آتا تھا۔ اور یہ نئے نئے فون ، یہ بھی کبھی دیکھے،  نہ سنے۔“ دونوں  ہی غصے سے بھری ہوئی تھیں۔  ان کے لئے یہ سب نیا اور انوکھا تھا۔ وہ تو ایسے تال طریقوں سے واقف ہی نہیں تھیں۔  بلکہ انہوں نے تو شادی سے پہلے دنیائے لذت کے خواب بھی نہیں دیکھے تھے۔ جب پہلی بار اسحاق  نے سنبل کا بوسہ لیا اور کف آلودہ ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھے تو اسے کراہت محسوس ہوئی، دل متلانا شروع ہو گیا تھا۔

اور یہ سب کچھ! توبہ توبہ۔

اسحاق نے پہلی رات ہی طعنہ دیا تھا کہ وہ ابھی جوان ہی نہیں ہوئی تھی، تو ماں باپ نے اسے بیاہ کیوں دیا؟  سولہ سترہ سال کی عمر اتنی کم بھی نہیں ہوتی کہ لڑکی کو کچھ پتا ہی نہ ہو ،اور وہ بھی آج کل کے دور میں۔  لیکن وہ تو  کھانگڑ تھا، دو کی موجودگی میں تیسری لے آیا اور ساتھ یہ بھی کہہ رہا تھا وہ ایک وقت میں چار بیویاں رکھ سکتا ہے۔  یہ فقرہ اس کے منہ سے اکثر سننے کو ملتا تھا، کہ ایک  عورت کے بس کی بات ہی نہیں کہ وہ ایک مرد کو مطمئن کر سکے۔ شریعت نے چار شادیوں کی اجازت اسی لیے دی ہے کہ مرد جذبات میں بہک کرکہیں گناہ نہ کر بیٹھے۔

سنبل زیادہ غصے میں تھیں۔ رشیداں نے پکڑ کر بیڈ پر بٹھا دیا۔ اور اس کے بال کھولنے شروع کر دئیے۔ ”لاؤ، میں تمہیں کنگھی کرتی ہوں۔ بال سیدھے کر لو پھر باندھ کر سو جانا۔“

”ان حالات میں نیند آ سکتی ہے؟ میں صبح سے تیار ہو رہی تھی۔“

کبھی وہ کانوں کے بُندوں کو پکڑتی اور کبھی پازیبوں کو۔  زربفت ملبوس بھی آج ہی سلایا تھا  ،حالانکہ اس کا حسن بھڑکیلے لباس اور جواہرات کی جمال آفرینی سے مستغنیٰ تھا۔ اس نے اپنی مرصع انگشتریوں سے سجی انگلیاں رشیدہ کو دکھاتے ہوئے کہا ”میں نے اس کے لئے کیا کیا نہ کِیا۔ لیکن وہ پھاپھڑ، تین بچوں کی ماں، فھتو بی بی! پتا نہیں اس میں کیا ہے؟ اگر وہ ہی مزے دیتی تھی تو ہمیں کیوں بیاہ کر لایا؟ کمبخت ! نازک اندام ہرنی کی بجائے ہتھنی پر مرتا ہے۔ “

”چھوڑو اس  گھٹیا  کو۔ دیکھو کیسے کیسے بیہودہ کام کرتی ہے۔ اسی نے  اسحاق کو ان راستوں پر لگایا ہے؟“

”نہیں ، یہ ہمارے خصم کے ہی شوق ہیں۔  کیسی بے شرمی سے  کہتا ہے کہ سینڈوچ بننے کا مزا سب سے انوکھا ہے۔ اسی لئے چوتھی شادی بھی ضرور کروں گا۔“

”مجھ سے تو یہ فلمیں دیکھی نہیں جاتیں اور وہ کہتا ہے دیسی عورتوں کو خاوند خوش کرنا ہی نہیں آتا۔“

”بڑا آیا ولائتی  سان۔  ۔اور وہ دیسی بھینس، وہ تو اس کی چہیتی ہے۔“

”دفع کرو ان دونوں کو۔ میرا تو جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے۔ مجھے کوئی نیند کی گولی ہی لادو۔ کھا مر کر سو جاؤں۔“

”جاؤ باتھ روم میں گرم پانی  سے منہ ہاتھ دھو آؤ۔“

سنبل آئینے کے سامنے کھڑی غازہ آلودہ رخساروں کو دیکھ رہی تھی۔ صبح سے رات تک اس نے کیا کیا نہیں کِیا  تھا؟ آج رات اس کی باری تھی، لیکن وہ تجربہ کار فتو کے سامنے ہار گئی۔  رشیداں نے جب دیکھا کہ وہ ابھی بھی پریشان کھڑی ہے تو باتھ روم کے اندر آکر اس کو زبردستی شاور کے نیچے دھکیل دیا۔

نہا کر باہر آئی تو رشیداں اسے پکڑ کر ڈریسنگ ٹیبل پر لے آئی۔ بال سکھائے۔ نرم ریشم جیسے بال، جوانی کی حرارت سے جلتے ہوئے، بھیگے گلابی رخسار جنہیں دیکھ کر رشیداں بھی پریشان ہو گئی۔ سوتنیں تھیں وہ۔ دونوں کا دکھ ایک جیسا ہی تھا جو ان کو قریب لے آیا۔ خاوند ان کو ساتھ بٹھا کر ہر قسم کی فلمیں دیکھتا تھا۔ جیسی فلمیں ویسے ہی اس کے شوق تھے۔ اسحاق جو چاہتا تھا شاید وہ کر بھی  نہیں سکتی تھیں اورفتح بی بی انکو موقع بھی نہیں دیتی تھی۔ دونوں ہی جل بھن رہی تھیں۔ وہ  ایک دوسرے کو دلاسہ دیتے ہوئے سوچ رہی تھیں کہ انہیں بھی فتو جیسا ہی بننا پڑے گا۔ انہیں  بھی بیباکانہ  مائل تعیش انداز اپنانے پڑیں  گے۔ جو اسحاق چاہتا ہے ویسا ہی کرنا پڑے گا۔ لیکن پھر حوصلہ ہار دیتی تھیں۔

سنبل سنبھل  ہی نہیں رہی تھی۔ رشیداں نے اسے بیڈ پر لٹایا اور پاس بیٹھ کر اسے دلاسہ دیتے ہوئے دبانے لگی۔ سڈول رانیں، سیمیں ساق ، گول سریں کا پھڑپھڑاتا گوشت، خوشہ گندم  کی طرح  چمکدار سنہری جلد، بالی کی طرح کا لچکدار جسم ، کسی دیوی کے چھریرے ہونٹوں سے سجا  کاٹ دار گل افروز دہن ، سینے کی دلپذیر باغیانہ اٹھان ۔  وہ سوچ رہی تھی  عمر میں کہتر اور جمال میں اس سے  بہتر ،سحرانگیز سنبل،  ناکام ہے تو وہ کیسے کامیاب ہوسکے گی؟

رشیدہ نے اسے گلے سے لگا لیا اور کہنے لگی“کل میری باری ہے میں تو اب وہ سب کر گزروں گی۔”  سنبل بولی “تم نے دیکھا وہ ہم دونوں کے سامنے ہی فلم کو دیکھتے ہوئے مولوی سے چمٹ گئی تھی۔ میری تو جان ہی نکل گئی ۔ فرش کو ہی تکے جارہی تھی۔ ہمت ہی نہیں تھی کہ نظریں اٹھا کر انہیں دیکھ سکتی۔“

”ہاں میں نے بھی دیکھا ،وہ  پائینتی کی طرف لیٹی ہوئی تھی۔ پھر اس نےمنہ لحاف  کے اندر گھسیڑ کر چپڑ چپڑ چچورنا شروع کردیا۔ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہ آئی۔“میں اٹھی اور باہر چلی  آئی۔

”تم بھاگیں تو مجھے بھی ہوش آیا  اور تمہارے پیچھے ہی دوڑی  چلی آئی۔  “

”مجھے تو اس سے نفرت ہو گئی ہے۔  میں کل یہاں سے چلی جاؤں گی ۔“

”اور میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔“

”لیکن وہ ہمیں طلاق نہیں دے گا ۔“

”نہ دے ، چا ہیے بھی نہیں۔ ہم نے کونسی شادی کرنی ہے۔ ہمیں مردوں سے ہی  نفرت ہو  گئی ہے ۔“

Advertisements
julia rana solicitors

اب سنبل بھی سنبھلنا شروع  ہوگئی تھی۔ وہ چہچہارہی تھی۔ یہ دیکھتے ہی رشیدہ نے سنبل کوپوری قوت سے بھینچ لیا۔ اپنی بانہیں اس کے گلے میں حمائل کر دیں۔ ان کو پتا بھی نہ چلا کہ کب باتیں  کرتے کرتے وہ خاموش ہو گئیں۔ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ نوائیں ڈوب گئیں ، ندائیں چپ ہو گئیں اور تمام صدائیں  واصل سکوت ہو گئیں۔مائل فغاں روحیں خاموشیوں میں ڈوب گئیں۔  پھرسینے پھڑپھڑانے لگے۔ آتشین تنفس پورے ماحول کو حیات افروز گرماہٹ  بخش رہے تھے۔سرکشی عروج دکھانے لگی۔ بے خودی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ بیباک ہو گئیں۔ مرتعش ہاتھوں کی  آشفتہ تر انگلیوں کی کوروں نے زیر و بم اور پیچ و خم میں الجھ کر لمسی حرکات کا  ایک انوکھا سلسلہ شروع کر دیا۔  مساس ،معانقہ اور بوسہ  عورتوں کی فطرت لطیف میں بدرجہ اتم ودیعت ہیں۔  دونوں نے مل  کر ان فنون کو معراج تک پہنچا دیا۔ ایک بجلی تھی جو مشتعل اجسام پر  لہرا رہی تھی۔ وہ  کسی آشفتہ سر مرد کی حاجت سے بے نیاز ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد کمرے میں چپڑ چپڑ کی صدا ئیں گونج رہی تھیں۔ پھر ایک   شعلہ  سا بھڑک کر ٹھنڈا پڑ گیا۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply