چہرہ فروغ مئے سے گلستاں(قسط12)۔۔فاخرہ نورین

ہمارے مرد اور عورت دونوں ہی عورت کو جنسی مواد سے زیادہ نہ دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ مردوں کے مشاہدے کی حد پورن فلمیں یا فلمیں ہیں سو عورتوں سے ان کی واحد شکایت جنسی حوالے ہی سے ہے۔ جنسی حوالے سے شکایت بھی ایک پُرلطف موضوع ہے جو اپنی نوعیت میں اجتماع ضدین ہے اور اس تحریر سے زیادہ طوالت کا متقاضی بھی ۔

لیکن ایک بات طے ہے کہ مغرب کی عورت نے اپنے دماغ کے اثبات کی جنگ میں اپنے جسم کو بھلایا نہیں ۔وہ ستر سال کی بھی شریر اور شوخ ہے اور اپنی جسمانی اور جنسی ضروریات کے لئے فکر مند بھی ۔ہمارے ہاں عورت نے ذہن منوانے کی جدوجہد کبھی کی ہی نہیں ۔اس کا سارا فوکس جسم کے گرد ہی رہا اور جسم کو خود اس نے سب سے زیادہ بے توجہی سے برتا۔ وہ اپنے مرد کو اپنے پیچھے پاگل بھی دیکھنا چاہتی ہے اور اپنے جسم کی صحت و صفائی اور خوبصورتی سے غافل رہ کر مرد کو پاگل کرتی بھی ہے۔ مشرق میں شادی عورت کی آخری منزل ہے اور اس کے بعد وہ اپنی تمام توجہ خود سے ہٹا کر مرد کے رشتے داروں پر مرکوز کر لیتی ہے ۔

مغربی عورت لڑائی جھگڑے کے درمیان میں بھی اوہ بے بی آئی لو یو کہہ کر چپڑ چپڑ پوچ پوچ ام ام ام کے مراحل طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ لیکن مشرقی عورت کا یہ ٹیلنٹ بس اسی کے ساتھ مخصوص ہے کہ وہ عین میان وصل اور دوران کارروائی اس سے پوری طرح لاتعلق رہ کر مرد کو اس کی وڈی پھپھی کے پھاپھا کٹناپے ،اور خاندان بھر کے قصے سناتے ہوئے اسے چھت کا پنکھا صاف کرنے کے لئے ہمسایوں کے گھر سے گھوڑی مانگ لانے کی درخواست بھی کر سکتی ہے ۔یہ اس درجہ کمیٹڈ ہو سکتی ہے کہ وقت وصال بھی ماچھیوں کے گھر تعزیت کے لئے جانے کا پروگرام بنا اور بتا سکتی ہے ۔

دوسری طرف مرد کو بھی ایسی عورت چاہیے جس کا کولمبس وہ خود ہو۔ وہی اس نادریافت شده زمین پر اپنی رسائی کا جھنڈا گاڑے اور عورت اس کے لئے دلبستگی کا سامان بنی رہے ۔عورت کا محض جنسی استعمال شاید مسلمان معاشرے میں زیادہ ہے جہاں عورت سے صرف جنسی حظ منسوب کر کے اسے ایک عضو کے علاوہ کچھ اور سمجھا ہی نہیں جاتا۔اس معاملے میں دنیا میں مرد نے اپنی خواہشات، اختیارات اور اجارے کا دائرہ خواجہ سراؤں تک پھیلایا ہے۔ تو آخرت میں حوروں کے ساتھ ساتھ غلمان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔حوروں کو زوج کی بجائے بیویاں کہہ کر جنسی تسلط کے تمام حقوق اپنے ہی نام محفوظ کر لیے ہیں ۔ جن عورتوں کو ذاتی طور پر ستر ازواج کی دستیابی سے کوئی مسئلہ نہیں ان کے حقوق بعد از مرگ بھی غصب کرنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔

مجازی اور مزاجی خداؤں کے بارے میں فضول ترین من گھڑت روایات کی ایسی بھرمار ہے کہ کسی کو حضرت خدیجہ کی طاقت اور اصابت، حضرت عائشہ کی قربت اور ذہانت، بی بی زینب کی قیادت اور سیادت یاد ہی نہیں ۔ کوئی نہیں بتاتا کہ قبل از اسلام معاشرے میں ہندہ جیسی طاقتور اور بااثر عورت بھی تھی ۔یہ کمتر درجے وغیرہ اور بیٹی کا قتل وغیرہ تب بھی غریب غرباء کر رہے تھے اور آج بھی وہی طبقہ اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

مرد کی عورت سے جنسی توقعات گھر کی عورت سے الگ ہیں اور باہر کی عورت سے بالکل الگ۔
ایک دوست کی اپنے شوہر سے ہر روز لڑائی کا سن کر جب اسے مشورہ دیا کہ تم اس سے اپنے جذبات کا اظہار کیا کرو اور اسے گرم جوشی دکھاؤ تو دیکھنا ایک منٹ میں مان جائے گا ۔ اگلے دن وہ ملی تو بیپ بیپ بیپ بجنے لگی۔ مشیروں کی شان مبارک میں مغلظات کا ایک طوفان اس کے منہ سے ابل رہا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ جب میاں سے محبت جتانے کے لیے اسے پشت سے بازوؤں میں جکڑا اور کہا کہ میں آپ کے بغیر بہت اداس ہو گئی تھی تو کچھ دیر حیرت بلکہ شاک میں رہنے کے بعد وہ پلٹا اور منہ پر یہ کہتے ہوئے تھپڑ مار کمرے سے نکل گیا ۔
ایہہ کنجری بنن دا مشورہ کس دتا تینوں؟ انسان دی بچی بن تے اپنی اوقات اچ رہ۔

اب وہ گالیاں دے رہی تھی کہ اچھی بھلی شرم و حیا کے پیکر والی ریپوٹیشن بنی ہوئی تھی وہ الگ خراب ہوئی اور تھپڑ راہ جاتے میں پڑگیا ۔ ہمیں اعتراف کرنا پڑا کہ ہر عورت تو شاید فاخرہ بن ہی جائے ہر مرد زبیر تھوڑی بن سکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply