• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اردو کی اپنی ثقافت ہے،میری اپنی۔۔پنجابی/اسد مفتی

اردو کی اپنی ثقافت ہے،میری اپنی۔۔پنجابی/اسد مفتی

نومبر ۱۹۷۷ کو دہلی میں اردو گھر یعنی انجمن ترقی اردوہندکی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم مرارجی ڈیسائی نے یہ بات کہی تھی،جب آنند نرائن مُلا نے اُردو میں اپنا سپاس نامہ ان کی خدمت میں پڑھ کر پیش کیا تو وزیراعظم ہند نے کہا “یہ کیا زبان ہے؟میں تو اسے سمجھتا نہیں،میں اپنے دوستوں سے اُس وقت بھی یہی کہتا تھا کہ یہ زبان ملک کو تقسیم کرائے گی،مگر میرے دوست نہیں مانتے تھے،آخر وہی ہوا”۔۔
اور پھرپارلیمنٹ میں ایک ممبر کا پنڈٹ جواہر لال نہرو سے یہ سوال کہ”اردو کس کی زبان ہے،جو اسے ہندوستان کے کانسٹی ٹیوشن میں زبان کی حیثیت دی جارہی ہے؟۔۔
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا اگر جواب پا لیا جائے تو آج کے پروگرام کے دعوت نامے میں جن موضوعات پر مقالات لکھنے کی دعوت دی گئی ہے،ان کے جوابات مہیا ہوجاتے ہیں۔
اُردو زبان کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک کمسن زبان ہے،جس کی عمر یہی کوئی دو ڈھائی سو سال سے زیادہ نہیں،یہ مغلوں کے دور میں ضرورت کے تحت وضح کی گئی تھی،یا عالم وجود میں آئی تھی،اور چونکہ یہ بہت سی زبانوں کا ملغوبہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی اپنی ٹھوس اور بنیادی حیثیت نہیں ہے،لہذا اسے ترقی یافتہ زبانوں کے مقابلے میں پیش کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں،وغیرہ وغیرہ۔۔
جدید تحقیق سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ برصغیر کی پرانی اور مقبول زبانوں میں سے ایک ہے،پہلے اس میں آریائی زبانوں کے الفاظ شامل تھے تو اسے ہم “ہندی”یا “ہندوی”کہتے رہے تھے،یہ بات صرف لسانی محقق کہتے رہے تھے،بلکہ حافظ محمود شیرانی سے لے کر ڈاکٹر کے -سی-چیٹر جی تک اس امر سے متفق ہیں،اردو زبان کی اپنی ایک ثقافت ہے،عجیب بات یہ ہے کا کوئی مخصوص علاقہ نہیں،مسلمانوں کی آمد کے بعد اس میں عربی فارسی ترکی اور دوسری زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہوگئے مگر اس کی بناوٹ اور ساخت میں کوئی فرق نہیں آیا،اردو ابتدا سے ہی ہندوستانیوں کی زبان رہی ہے مگر پہلے اس کے لیے “اردو”کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتاتھا،
پروفیسر سلیم اخترکا کہنا ہے کہ لسانی تحقیقات کی بِنا پر اردو کے متعلق جو قابل قدر مواد جمع ہوا ہے اس میں اردو کے بدلتے ناموں کے بارے میں معلومات دقیع ہی نہیں دلچسپ بھی ہیں،کہتے ہیں کہ شاہجہان نے اس زبان کی فضیلت کا درجہ دیتے ہوئے اس کا نام اردو معلیٰ رکھا،لیکن زبان کے لیے یہ نام زیادہ عرصہ نہ چل سکا،اور آخر کار صرف اردو رہ گیا۔
حافظ محمد شیرانی کے بقول سب سے پہلے محمد عطا حسین خان نے اپنی شاعری میں مراد شاہ لاہوری نے لفظ استعمال کیااور اس طرح شاعری میں مراد شاہ لاہوری نے لفظ اردو کو روشناس کرانا۔
یہ تو تھا اس کا مختصر خاکہ۔۔اب آئیے دوسری جانب توجہ دیتے ہیں،
روایت ہے کہ جب چنگیزی فوجیں آندھی اور طوفان کی طرح بابل و نینوا کی طرف بڑھ رہی تھیں،تو فرات کے دونوں کناروں پر علما عجیب مخمصے میں پھنسے ہوئے تھے،اور جب یہ فوجیں مہینوں کا فاصلہ دِنوں میں طے کرکے بغداد،بابل اور نینوا کی اینٹ سے اینٹ بجارہی تھیں،تو فرات کے دونوں کناروں پر گزشتہ سات روز سے علما دین،محقق،دانشور،اور عالم فاضل لوگ ان دوسوخاندانوں کی بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ امام عالی مقام حضرت امام حسین کربلا گئے،تو انہوں نے سبز لباس پہن رکھا تھا،یا کالا؟۔۔
اور دوسرا یہ کہ وہ نماز کے لیے وضو کرتے ہوئے اپنے دائیں پیر پر زور دیتے تھے یا بائیں پیر پر۔۔؟
میری بات اتنی بڑی نہ سہی،پر اہم ضرور ہے،اور وہ یہ کہ آپ حضرات برطانیہ یا مغرب میں اردو کے مستقبل کے متلاشی ہیں،لیکن میرے حساب سے بھارت اور مغرب میں اپنے عظیم الشان مشاعروں،عالمی سیمیناروں اور بین الاقوامی مذاکروں کے باوجود پنجابی زبان مر رہی ہے،زیادہ سے زیادہ دو دہائیوں کے بعد اردو ان جگہوں پر صرف بولنے کی زبان رہ جائے گی،ہمیں اس تلخ حقیقت سے جلد اور بخوبی آگاہ ہوجانا چاہیے کہ یہاں،وہاں اور تہاں،موجودہ نسل دائیں سے بائیں شعر یا افسانہ لکھ کر شاعر یا ادیب کا لقب پانے والی ان پیڑھیوں کی آخری پیڑھی سے تعلق رکھتی ہے،آخری اس لیے کہ اس کے بعد ان گھرانوں میں جو پود آئی ہے،وہ خواہ بولتی دائیں سے بائیں کو ہو لیکن لکھنے پڑھنے کا کام بائیں سے دائیں ہی کرتی ہے۔اس کی یہ معذوری اردو کا مقدر ہے،
اب رہ گئی بات پاکستان کی۔۔تو میرا یہ دعویٰ ہے کہ اگر پنجاب سے اردو رُخصت ہوگئی تو پورے برصغیر میں اردو کے تن پر صرف لنگوٹی رہ جائے گی،یہ مفروضہ نہیں،تجزیہ ہے۔
بھات پاکستان،برطانیہ،امریکہ اور کینیڈا میں اردو دان طبقے کے بڑے سے بڑے دانشور اور کروڑوں روپے کی سالانہ گرانٹ پانے والے ادارے یا وظیفہ پانے والی کسی اکیڈیمی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ اردو کا سکرپٹ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟
میرے حساب سے اردو کی بقا کا مسئلہکلچر سے زیادہ سیاسی ہے،اس کے لیے سائنسی فکر اور اعلیٰ درجہ کے علم کی ضرورت ہے،جن سے ہم فی الحال بے بہرہ ہیں،معاشرے میں ہمارا عمومی رویہ خود غرضی اور انفرادیت پسندی کا بن چکا ہے،جس معاشرے میں خواندگی(پاکستان)کی شرح مبالغہ آمیزی کے باوجود 22فیصد رہی ہو،وہاں بے چارہ دانشور 5 سٹارز ہوٹلوں کے سیمینار میں حاضرین سے اپنی دانشوری کی سند تو لے سکتا ہے،لیکن اردو کی حفاظت اور بقا کے لیے بے چارہ کیا کرسکتا ہے،
ہائے بیچارہ دانشور۔۔!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply