لفظوں کے زخم (10)۔۔وہاراامباکر

اس فقرے پر غور کریں، “عبدل نے پاجامے میں چوہے کو شوٹ کیا”۔ سادہ سا فقرہ ہے۔ یا پھر؟ اسے پڑھ کر میری پہلی سوچ تھی کہ عبدل نے پاجامہ پہنا ہوا تھا جب اس نے چوہے کو شوٹ کر دیا۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ چوہا فرش پر پڑے پاجامے میں گھس گیا ہو جہاں عبدل نے اسے شوٹ کر دیا ہو۔ یا پھر چوہے نے کہیں خود اپنا پاجامہ ہی تو نہیں پہنا تھا جب عبدل نے اسے شوٹ کیا؟ اور یہ شوٹ کا مطلب کیا ہے؟ پستول سے یا پھر کیمرے سے؟
الفاظ سمجھنے میں غلطیاں ہوتی ہیں اور بہت سے مختلف طریقوں سے۔ اور جب غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں تو پھر فرق بولنے والے اور سننے والے کے درمیان ان الفاظ کے معنی میں فرق کی وجہ سے۔ جب بولنے والے کا ارادہ کچھ اور تھا اور سننے والے نے سمجھا کچھ اور۔ جب ان معنوں میں تفریق ہوتی ہے تو نکلنے والے نتائج میں کنفیوژن سے مزاح تک سب کچھ ہو سکتا ہے۔
لیکن لفظوں میں صرف معنی ہی بیان نہیں ہوتے، رویے بھی بیان ہوتے ہیں۔ جب بولنے والے کا رویہ سننے والے سے مطابقت نہ رکھے تو لفظ خاصے ضرررساں بھی ہو سکتے ہیں۔
ایسے لفظ کہے اور سنے جاتے ہیں، جو ہم کہنا نہیں چاہتے اور سننا نہیں چاہتے۔ یہ ہمارے ہر طرف پائے جاتے ہیں اور یہ طاقتور ہیں۔ اس لئے ہم ان کے بارے میں بات کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“عبدل نے پاجامے میں چوہے کو شوٹ کیا” کے فقرے میں کنفیوژن کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہم زبان کو تناظر سے سمجھتے ہیں۔ کئی بار اکیلے فقروں میں تناظر موجود نہیں ہوتا۔ نتیجہ ابہام میں نکلتا ہے جس میں ایک ہی فقرے کی الگ زیادہ تشریحات کی جا سکتی ہیں۔
دوسری قسم کی صورتحال وہ ہوتی ہے جب ہمارے پاس تناظر تو ہوتا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا۔ ہم دنیا کے بارے میں کچھ انفارمیشن رکھتے ہیں، جو کہنے اور سننے والے میں مشترک ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، چوہے پاجامہ نہیں پہنتے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک ذاتی تناظر بھی ہے جو ہر کوئی اپنے ساتھ گفتگو میں لے کر آتا ہے۔
مثلاً، میں نے کسی کے عزیز کے بارے میں ایک بے وقوفانہ مذاق کر دیا۔ بغیر اس علم کے، کہ اس کی چند روز پہلے وفات ہوئی ہے۔ میرا مذاق کسی کے لئے تکلیف دہ بات بن گئی۔
غیرارادی طور پر لسانی تکلیف کی کئی اقسام ہیں۔ یقیناً، آپ کا ان سے انٹرنیٹ پر بھی واسطہ پڑا ہو گا۔ ایک نے مذاق لکھا تھا، دوسرے نے اسے سنجیدہ سمجھا اور برا مان گیا۔ جب ہم مذاق یا طنز کر رہے ہیں تو ہمارے الفاظ کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو ان کے لغوی معنی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر سننے والا اسے پہنچان نہ سکے اور اس سے وہ معنی اخذ کرے جن میں انہیں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو نتیجہ غلط فہمی میں نکلے گا۔ سوشل اشارے، جیسا کہ آواز کا اتار چڑھاوٗ یا باڈی لینگویج کے بغیر کنفیوژن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن الفاظ کے دئے گئے زخموں میں بڑا مسئلہ وہ الفاظ ہیں جو جان بوجھ کر زخم لگانے کے لئے ہی استعمال کئے جائیں۔
ہر بولی میں ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جنہیں ہم “گندے” الفاظ کہتے ہیں۔ اس میں جسمانی اعضاء، فنکشن یا کچھ حرکات ہیں جن کا سہارا لیا جاتا ہے۔ آپ کسی مہذب محفل میں انہیں استعمال نہیں کریں گے لیکن یہ الفاظ کسی کو ناگوار اس لئے لگیں گے کہ یہ ہماری حساسیت کے خلاف ہیں۔ نہ کہ کسی کے اپنے بارے میں خیالات اور شناخت کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کو اپنے جذبات کے اظہار کے لئے یا زور دینے کے لئے یا کسی کو شاک کرنے کے لئے تو استعمال کیا جاتا ہے لیکن نکتہ کسی کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے الگ قسم نفرت انگیز الفاظ کی ہے۔ یہ الفاظ جان کر کسی کے لئے اس لئے استعمال کئے جاتے ہیں کہ اس کا تعلق کسی گروپ سے ہے۔ اور خاص طور پر اس گروپ کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔
گروپ کسی شخص کی شناخت کا لازمی حصہ ہیں۔ اس میں نسل، رنگ، صنف، مذہب، شہریت جیسی چیزیں ہیں۔ اور نفرت انگیز تقریر اخلاقی لحاظ سے گندے الفاظ سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس کا مقصد ہی تکلیف دینا ہے۔
لیکن خالی لفظ کیسے تکلیف دے سکتے ہیں؟ لسانیات میں انہیں “موٹے تصورات” کہا جاتا ہے۔ الفاظ اور خیالات نہ صرف وضاحتی معنی دیتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ خاص رائے اور تناظر بھی لے کر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر “قتل” ایک موٹا تصور ہے۔ یہاں پر نہ صرف وضاحت ہے کہ کسی کی جان لی گئی ہے بلکہ ساتھ ایک رائے بھی کہ یہ بغیر جواز کے تھا۔ “اچھا قتل” کوئی شے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چارلس لارنس کہتے ہیں کہ الفاظ وضاحت اور رائے کا پیکج ہوتے ہیں۔ ایسے ہر طرح کے الفاظ بہت سے ہیں۔ ایسا کوئی بھی انتخاب خوشگوار نہیں لیکن ہم ان میں سے ایک کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر “پینڈو” کا لفظ پنڈ یا دیہات میں رہنے والے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اس کا وضاحتی تناظر ہے۔ لیکن اس لفظ میں وضاحت کے ساتھ ہی ایک نفرت آمیز رویہ بھی گندھا ہوا ہے۔ اتنا زیادہ کہ جسے یہ کہا جا رہا ہے، وہ اس رویے اور شناخت کو جدا نہیں کر سکتا۔ یہ لفظ تکلیف دیتا ہے کیونکہ یہ ٹارگٹ کو آگاہ کر رہا ہے کہ اس کی شناخت کا ایک لازمی عنصر برا ہے۔
کسی کو بتانا کہ اس کی حجامت کس قدر مضحکہ خیز ہے یا قمیض کا رنگ کس قدر برا ہے، اسے برا لگے لیکن یہ شناخت کا لازم حصہ نہیں۔ لیکن یہ بتانا کہ آپ جو کچھ بھی ہیں، اس میں کچھ غلط ہے یا برا ہے تو پھر آپ اس کی ذات پر گہرا وار کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ قوم، رنگ، نسل، صنف، مذہب، فرقہ یا شناخت کے دوسرے لازمی پہلووٗں کے بارے میں ایسے درجنوں الفاظ کا اصل مقصد ہی تکلیف دینا ہے۔
اس وجہ سے چارلس لارنس کی تھیوری کے مطابق آزادی اظہار میں نفرت انگیز تقریر کی آزادی شامل نہیں کی جانی چاہیے۔ اور ایسی تقریر کو “لڑنے والے الفاظ” میں شمار کیا جانا چاہیے۔ (قانونی لحاظ سے یہ وہ الفاظ ہیں جن کا مقصد اشتعال پیدا کرنا اور تشدد پر اکسانا ہے)۔ آزادی اظہار کی حفاظت کا مقصد رابطے کھولنا ہے۔ اس میں تشدد پر اکسانے والے یا نفرت انگیز تقریر کی جگہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹیفی روس ایک اور قسم کی وضاحت دیتی ہیں۔ ہمارے اپنے بارے میں تاثر میں ایک بڑا ہاتھ اس بات کا ہے کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور ہم اپنے ایکشن کو انہی توقعات کے مطابق رکھتے ہیں۔ کسی بچے کو اگر ہر کوئی “مصیبت” کہے تو امکان ہے کہ وہ اپنا رویہ جاری رکھے گا۔ کسی بچے کو ہر کوئی کامیاب بچہ تصور کرے تو امکان ہے کہ وہ کامیابی کے لئے زور زیادہ لگائے گا۔ روس کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ شعوری طور پر ہوتا ہے لیکن ایک ایک لفظ کر کے، الفاظ ہمارے بارے میں خود ہم سے آگاہی کے بغیر ہمارا اپنے بارے میں تاثر بناتے جاتے ہیں۔ اس لئے وہ الفاظ جو دوسرے ہمارے لئے استعمال کرتے ہیں، ان کا اثر ہماری زندگی پر پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان الفاظ کا جنہیں آپ شاید نفرت انگیز تقریر نہ کہیں لیکن تکلیف دہ ہوں؟ وہ جو ہم عام گفتگو میں دوسروں کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں؟ دوسروں کے لئے؟ مخالفین کے لئے؟ چونکہ یہ عام ہیں اس لئے یہ انجانے میں زیادہ نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی اس بارے میں رائے اور وجوہات ہیں کہ یہ استعمال کرنا کیوں جائز ہے۔ لیکن اچھا ہے کہ اگر الفاظ استعمال کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچ لیں۔ کیونکہ ان کے استعمال سے آپ اپنے رویے کے بھی سگنل دے رہے ہیں۔ کونسے رویے ایسے نہیں جو ہم اپنے گرد نہیں چاہیں گے؟ آپ کا کچھ الفاظ کے استعمال سے صاف اجتناب کر لینا اس بارے میں دوسروں کی راہنمائی کر دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر ایک اور نکتہ۔ میں آپ کو یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کو کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں۔ یہ میرا کام نہیں۔ میرا کام کچھ فاصلے پر رہ کر اس زبان کا تجزیہ کرنا ہے جس کو ہم سب استعمال کرتے ہیں۔
لسانیات کا فلسفہ بڑے اور طاقتور الفاظ کو سامنے لاتا ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ بڑے اور طاقتور کیوں ہیں۔ اور پھر عقلی دلائل سے ہم یہ سمجھنے اور وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا اثر کیا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جان بوجھ کر الفاظ کے ذریعے کسی کو تکلیف پہنچانا ایک بہت ناقص انتخاب کہا جا سکتا ہے۔ کئی بار یہ غیرارادی طور پر بھی ہوتا ہے جب بولنے والے اور سننے والے کے معنی آپس میں مختلف ہوں۔ لیکن اپنے لفظوں کے چناوٗ اور معنی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر کے ہی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سننے والے انہیں کیسے لیں گے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply