کرونا وائرس سے جہاں پوری دنیا کے لوگوں کی سماجی سرگرمیاں سکڑ ر رہی گئی ہیں، وہیں نظامِ دنیا پھر بھی دھڑکتا ہوا چل رہا ہے ۔ ہم سب کے بہت سے منصوبے تھے مگر کرونا نے ہمیں کچھ نہ کرنے کا بہانہ دے دیا۔ اسی صورتحال سے دو چار آزاد ریاست جموں و کشمیر میں عام انتخابات سال 2021 مدت کے اعتبار سے جولائی کے پہلے ہفتہ میں متوقع ہیں، اور چھوٹے سے علاقے کی گہری سیاست نے اپنا درجہ حرارت بڑھانا شروع کر دیا ہے ۔
امیدواران برائے قانون ساز اسمبلیوں نے کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی کوٹ خرید لیے ہیں ۔
انتخابات کی گرما گرمی دیکھنا ہو تو حلقہ دو چکسواری اسلام گڑھ دلچسپ صورتحال سے دو چار ہے ۔انتخابات کو چند ہفتے رہ گئے ہیں مگر امیدواران تاحال کشمکش میں ہیں سب سے زیادہ گھمبیر صورتحال پاکستان مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے امیدواروں کی ہے کیوں کہ پارٹی قیادت نے تاحال کسی امیدوار کو گرین سگنل نہیں دیا ،جسکی وجہ سے کوئی بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔
گزشتہ انتخابات میں مقابلہ پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار چودھری عبدالمجید اور مسلم لیگ نواز کے امیدوار نذیر انقلابی کے مابین رہا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم بمشکل آٹھ سو کی لیڈ سے الیکشن جیتے تھے جسے بعض حلقوں نے چودھری مجید کی جیت نہیں بلکہ نذیر انقلابی کی ہار لکھا تھا کیوں کہ ایک تاریخی اتحاد ، سپورٹ اورسازگار ماحول کے باوجود نذیر انقلابی الیکشن مہم میں اس طرح سے ایکٹیو نہ ہوئے جس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ممبر اسمبلی بننے کی ضرورت تھی ،اسکے برعکس چودھری عبدالمجید نے پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود جاندار کمپین کی تھی ۔
الیکشن 2016 میں 008 کے فرق سے ہارنے والے نذیر انقلابی امسال بھی موسٹ فیورٹ امیدوار بننے جا رہے تھے کہ سازشوں نے راستہ روک کر ایک بند گلی میں داخل کر د یا۔ چیئرمین عبدالمالک ، سہیل سرفراز ایڈوکیٹ، عظیم بخش ، کرنل (ر) معروف اور دیگر امیدواران نے نذیر انقلابی کو ٹکٹ ملنے کی صورت میں پارٹی قیادت کے سامنے موصوف کی سپورٹ سے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ یاد رہے مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ کسی قسم کی سفارش اور پیسے کے بغیر ہی لیا جا سکتا ہے جسے ہم میرٹ کہہ سکتے ہیں ۔پاکستان کے مختلف حلقوں میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں اس کا عملی مظاہرہ دیکھا گیا کہ ن لیگی قیادت نے زمینی حقائق کو دیکھ کر ٹکٹ دیئے اور مشکل حالات میں بھی سیٹیں نکالنے میں کامیاب رہی۔
پاکستان تحریک انصاف کی اسلام آباد میں حکومت ہونے کی وجہ سے ظفر انور بھرپور تیاری میں ہیں اور منگلا پُل پار تحریک انصاف کی حکومت کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں جانے سے پہلے ہی ناتجربہ کار مشیروں کے مشوروں اور اپنوں کے پس پردہ مقاصد کی وجہ سے جلد بازی میں سارے” پتے شو” کر بیٹھے اور عین وقت پر جب ریس تیز رفتاری کی متقاضی ہے وہ سست رفتار ہو گئے ہیں۔اب اپنے ووٹرز کو دوسری جماعتوں میں جانے سے روکنا ایک چیلنج ہے جو خاموشی سے دیگر امیدواران سے وعدے کر رہے ہیں ۔ظفر انور کو پاکستان کے مختلف ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی ہار اور وفاق میں بیڈ گورننس کی وجہ سے عوامی ری ایکشن کا سامنہ ووٹوں میں کمی کی صورت میں برداشت کرنا ہو گا۔
حالات کو اگر ماضی میں جا کر دیکھا جائے تو ظفر انور نے دو جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور تیسرے نمبر پر رہے تھے اس سال اگر مسلم لیگ ن ٹکٹ دینے میں غلط انتخاب کرے اور پیپلز پارٹی قاسم مجید کو لانچ کرے تو ظفر انور کیلئے مقابلے کی فضا قائم کرنا آسان ہو جائے گا مگر یہ سب تب ہو گا جب شطرنج کی چالیں حق میں ہو گی ورنہ تحریک انصاف اس مرتبہ بھی تیسرا نمبر لے سکتی ہے مگر ہار جیت کا فیصلہ کرنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ حلقہ کی فضا فی الحال بہت دُھندلی ہے۔
چودھری عبدالمجید نے حلقہ 2 چکسواری پر بادشاہت کی ہے اور عوامی لیڈر ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا، بچوں سے لیکر بزرگوں تک ہر ایک کی شناسائی رکھی مگر وزارت عظمیٰ ملنے کے بعد حالات کچھ اور ہو گئے شاید عوام کی توقعات زیادہ تھیں اور پسراعظم قاسم مجید عوام کو صیح ڈیل نہ کر سکے یا کچھ اور ۔۔مگر حالات وزاتِ عظمیٰ کے بعد خاص حق میں نہ رہے اور چودھری مجید کی عوام میں مقبولیت حد درجہ گِری جس کا نتیجہ گزشتہ الیکشن میں نکلا۔خبریں گردش کر رہی ہیں کہ قاسم مجید الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر میدان میں اتریں گے اور ذرائع کے مطابق قاسم مجید کی خواہش بھی یہی ہے مگر زمینی حقائق اور قاسم مجید کی پوزیشن سے واضع ہوتا ہے کہ وہ ابھی الیکشن میں حصہ لینے کے قابل نہیں اور حلقہ کی فضاء گرد آلود ہے جس سے چودھری مجید کو ہی مقابلہ کرنا ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تاحال ایسے سپورٹرز ہیں جو چودھری مجید کے ساتھ دہائیوں کی رفاقت کی لاج رکھ کر بالآخر فنانس کرتے ہیں جس سے حالات کنٹرول میں آتے ہیں اور یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے۔
نذیر انقلابی کی مسلم کانفرنس سے تال میل کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں اور سیاسی حلقوں کے مطابق موصوف مسلم لیگ نواز سے ریجیکٹ ہونے کی صورت میں مسلم کانفرنس کے امیدوار کے طور پر میدان میں اترنے کے خواہشمند ہیں مگر مسلم کانفرنس کے امیدوار سائیں ذوالفقار کی وجہ سے ان کا ستارہ گردش سے نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا اور نذیر انقلابی خود بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گزشتہ الیکشن میں چیئرمین مالک ،عظیم بخش ، سہیل سرفراز ، کرنل (ر) معروف و دیگر کے ووٹوں سے مقابلہ کی فضا قائم ہوئی تھی ۔جبکہ سائیں ذوالفقار نے مسلم کانفرنس کا تحریک انصاف سے اتحاد ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ لیا تھا اور آمدہ انتخابات کیلئے دوبارہ سے حلقہ کی قیادت نے پارلیمانی بورڈ کے سامنے ان کا نام ٹکٹ کیلئے فائنل کر دیا ہے اور ہر صورت میں ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا ہے جس کے بعد اگر نذیر انقلابی مسلم کانفرنس کا ٹکٹ کسی طرح لینے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو سائیں ذوالفقار کسی صورت ان کی سپورٹ نہیں کریں گے اور آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے اور اس ساری صورتحال کے بعد نذیر انقلابی کا انتخابات میں حصہ لینا اپنے پاؤں پر کلہاڑی کے مترادف ہوگا۔
یاد رہے مسلم لیگ ن زمینی حقائق کے پیشِ نظر وینس برادری کو کبھی نظر انداز نہیں کرے گی اور وینس برادری کی سپورٹ نذیر انقلابی کے بعد چیئرمین عبدالمالک کے ساتھ ہے جبکہ سہیل سرفراز آزاد الیکشن لڑنے کیلئے بھی تیار ہیں ۔بعض حلقوں کے مطابق وہ کسی کی ایما پر انتخابات کا حصہ بننے جا رہے ہیں جو وینس برادری کا ووٹ تقسیم کر دے گا جبکہ کرنل (ر) معروف پارٹی قیادت کا فیصلہ تسلیم کرتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔عظیم بخش کی محنت ،سپورٹرز کیلئے دوڑ دھوپ اور سیاسی شعور انہیں کبھی کوئی جلد بازی نہیں کرنے دے گا جبکہ آئندہ دنوں میں کچھ بڑی تبدیلیاں ہوں گی جو حلقہ کی فضا کو ڈسٹرب کرنے کا سبب بنے گی تاہم حلقہ کی اصل صورتحال کا فیصلہ مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ اور باقی امیدواران کا ری ایکشن کرے گا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں