چہرہ فروغ مے سے گلستاں(قسط5)۔۔فاخرہ نورین

سلیقہ طریقہ سیکھنے سے ان کی دلچسپی صرف ان عورتوں کی ہڈ حرامی کا نتیجہ ہے ۔چھوٹے چھوٹے گھریلو کام کمیوں سے کروانے کا رواج ہے اور خواتین کے لئے کسی کام کو نہ جانتے کا دعویٰ کرتے کبھی شرم نہیں آتی ۔ مجھے یہ امر حیران کن لگتا تھا کہ گھریلو عورت کے لئے گھر کے کام ایسا طلسم ہوشربا تو نہیں ہوتے کہ یہ تو ہم جیسے بھی جانتے اور کرتے ہیں ۔مگر یہ عقده وا ہونے میں ایک آدھ تقریب اور سال لگا۔ کسی کام کو جاننے کا مطلب ہے کہ وہ آپ کی ذمہ داری بن جائے گا اور بیٹھے بٹھائے بلکہ لیٹے لٹائے ذمہ داری کون گلے ڈالے۔زیادہ بہتر اور پُرحکمت جواب وہی ہے کہ جو سیانوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی بات تم نہیں جانتے تو لاادری کہہ لو اور مشقت سے بچو۔دیہاتی عورت نے کتاب نہیں پڑھی لیکن وہ اس امر پر بھی لاادری کہنا جانتی ہے جس میں اسے مہارت حاصل ہو۔ آپ ان کو صفائی ستھرائی یا سلیقه سکھانے کی کوشش کریں اور پھر اپنے خلاف ان کی محاذ بندی دیکھیں ۔میرے کیس میں تو میں نے دیکھی کم اور بھگتی زیادہ ۔
بھابھی صاحبہ تو “ہر فن ” مولا ہیں ۔
بچے نہیں ہیں نا تو دوسرے بچوں سے چڑتی ہیں ۔
ہک ہا اللہ بچے دیوے سو شوہدی کل نو اس گھر وڑنے جوگی بنے۔
اتنی کمائی تے پڑھائی کس کم دی جے زنانی کول اولاد نہ ہووے
چنگی اے شوہدی، ساریاں واسطے ،سارے طریقے سلیقے جان دی اے لیکن ایہ سب کس کھاتے اللہ چا کوئی بچہ دیوس تے پیر لاوس

میں بتانا چاہتی ہوں کہ ٹھیک ہے کہ بے اولادی ایک دکھ ہے مگر یہ میرا قطعی ذاتی ہے اور یہ کہ بچوں سے چڑنا میری کسی محرومی کا نتیجہ نہیں ورنہ میں تمہارے بچوں کے منہ میں نوالے نہ ڈالتی ۔چڑ تو مجھے تب ہوئی جب میں نے ان بچوں کو پوٹی سے اٹھ کر اپنی روٹی پر ہاتھ مارتے دیکھا ۔میری پہلی چیخ تب نکلی جب میں نے بچی کو چلھانی کے پاس بنے سوراخ پر پیشاب کرنے کے بعد شلوار میں ہاتھ ڈالے خارش کرتے ہوئے سیدھا اپنی ٹرے کی طرف آتے دیکھا ۔ اور جب مجھے بتایا گیا کہ اس بچی کی یہ حرکت پہلی یا اجتہادی نہیں بلکہ اس کی والدہ کی ہدایات کے عین مطابق ہے اور میں نے چشم تصور میں دسیوں بار اپنی روٹی پر رگڑے گئے اور آملیٹ کو چھو کر ہنستے اس بچی کے کئی لمحات کے ساتھ ساتھ مزے سے کھائے گئے اپنے لقمات کو یاد کیا تو میری چیخ تک نہیں نکلی تھی ۔میں کھا پی کر گٹر کی رونق ہو چکے نوالوں کے بارے ميں سوائے کراہت کے کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی البتہ آئندہ نوالوں کو اس دست درازی سے بچانے کا اہتمام تو کر سکتی تھی چنانچہ میں نے اپنے کھانے میں بچوں کو شریک کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ۔

کہتے ہیں دنیا میں کوئی کام کوئی بات پہلی بار نہیں ہوتی سب کچھ پہلے سے ہو چکا ہوتا ہے ۔میرے ساتھ بھی ایسا واقعہ پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ پہلے بھی ہو چکا تھا ۔
گرل گائیڈ کے ایک پندرہ روزہ تعلیم بالغان پروگرام کے تحت میں اپنی ساتھی گائیڈز کے ساتھ نیلور سیکٹر کے ایک گاؤں میں صبح سویرے دو سوکھے توس اور سڑی ہوئی چائے کا کپ پی کر نکلتی خود کو ایک اہم مشن پر تصور کرتی گیان بانٹنے نکلتی۔گاؤں کی جوان، ادھیڑ عمر اور بزرگانیاں ہمارے پراجیکٹ کا مرکز تھیں ۔ہم اپنے اپنے ٹھیے سجا کر ٹاٹ بچھائے اس پر پیوند کی طرح بیٹھ جاتے ۔عورتیں جوق درجوق آتیں، اپنی مرضی کی استانی کے پاس بیٹھتی جاتیں اور ہم ایک ایک کی انفرادی ضرورت اور قابلیت کے مطابق انھیں لکھنے پڑھنے میں لگاتی رہتیں ۔
دو چار دنوں کے بعد وہ اپنے گھروں سے پنجیریاں، نشاستے ہمارے لئے بنا کر لانے لگیں اور اس کے دو چار دنوں بعد پراٹھے۔
ہم توس کھا کر گئی پنجابنیں، کشمیرنیں اور پٹھانیاں ان پراٹھوں پر ٹوٹ پڑتیں۔ان پراٹھوں کا ذائقہ ہی الگ تھا ۔ آخری آخری دنوں کی ایک سرگرمی وہ فارم بھرنا تھا جس میں علاقے کی عورتوں کے عمومی مسائل لکھے جانے تھے کہ گرل گائیڈ اگلے مرحلے میں سب سے اہم مسئلے کے لئے منصوبہ بندی کر سکے۔
باجی اتھے ڈسپنسری نہیں اے
میڈم سلائی کڑھائی نا سکول کھلنا چائی دا
پتر کڑیاں نا سکول نیڑے بن وِنجے تے بہتر
جیسے مسائل کے بیچوں بیچ
میڈم اساں نے کراں چو بتھ روم نہیں بنے ہوئے
کی گونج ہر تعلیمی ٹھیے پر گونج اٹھی تو سرکاری ملازمت کے مزے لوٹتی گائیڈ گرلوں کے ساتھ ساتھ کراچی کی بھئیانی سٹائلش گرل گائیڈز بھی چونک اٹھیں۔
ایٹمی بم کے پہلو میں بسے گاؤں کے لوگ دھماکہ خیز مواد کی طرح کھلے عام کھیتوں میں ٹھا ٹھا پھٹتے ہیں یہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں سمجھتا تھا ۔
دارلحکومت کی بغل میں گندے مواد بھرا پھوڑا ہو سکتا ہے، یقین نہیں آتا تھا ۔حیرت اور صدمے کی فراوانی کا اندازہ لگانے کے لئے یہ جان لیں کہ ہم سب اپنے اپنے ٹھیے چھوڑ ایک ساتھ بیٹھ گئے اور وہ سب ہمارے گرد اور سامنے بیٹھ ہمارے سوالوں کی بوچھاڑ پر ہنستے ہنستے جواب دینے لگیں ۔
باتھ روم نہیں تو پھر لوگ کدھر کدھر جاتے ہیں؟
باجی کھیتوں میں ۔
کھیتوں میں کیسے ادھر تو فصلیں ہوتی ہیں؟
جی جی فصلوں میں ہی جاتے ہیں ۔
فصلیں نہیں ہوتی تو کدھر جاتے ہیں؟
پتر پھر بھی کھیتوں میں ہی جاتے ہیں ۔
عورتیں بھی؟
جی جی میڈم عورتیں، مرد بچے سب ۔
سب ساتھ ساتھ؟ کراچی کی پاپا کی پری کے تصور میں تصویر نہیں بن پا رہی تھی ۔
نہیں بیٹی ایسے ساتھ ساتھ تو نہیں لیکن بہر حال انہی کھیتوں میں ہی۔

نظام الاوقات، بیٹھک کی کیفیات اور احساسات کے حوالے سے تابڑ توڑ سوالات پر اکثریت کی حیرت اور سراسیمگی نے دیہاتی عورتوں کو ایک طرح کی برتری عطا کی اور اپنی محرومی کو فن بنا کر وہ شہریوں کی اکثریت کا مذاق اڑانے اور ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارے ہنسنے لگیں ۔میں کھیتوں میں رفع حاجت پر حیران نہیں تھی البتہ اکیسویں صدی میں ملک کے سب کچھ خوبصورت مقتدر شہر کے ساتھ اس عمل کے وقوع پذیر ہونے پر پریشان تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ لوگ واش کے لئے پانی کہاں سے لیتے ہیں، بوتل وغیرہ ساتھ لے جاتے ہیں یا تبلیغی جماعت کی طرح لوٹا اٹھائے پھرتے ہیں ۔ حیات آباد کی رہائشی فیشن کی دلدادہ میڈم گل نے ہیئر ٹریٹمنٹ کے دوران ناقص کیمیکل کے زائد استعمال سے اڑ جانے والے بالوں کی یاد میں سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک جناتی ہاہاہا ( جو پشتون انداز کی وجہ سے ہواہواہوا کی صورت نکلتی تھی) کے ساتھ پوچھا ۔
باجی ادھر تو وٹا یا ٹاکی استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھی فصل کے پتے بھی ۔
میرے علاقے کی فصلوں میں گنا، کپاس، چاول، گندم کے پتے میرے ذہن میں مذکورہ مقصد کیلئے استعمال ہوتے نظر آئے تو ایک شدید چھِلاہٹ اور تیز جلن کے احساس نے پہلو بدلنے پر مجبور کر دیا ۔ چھلی چھلائی گندی ان دھلی تشریفات والے بچے اور مردوزن میدان تخیل میں دوڑنے لگے لیکن اس گھوڑے کی لگام کھینچنا ضروری تھا سو سوال کا بند باندھا ۔
نہیں جیسے مطلب آج کل تو آپ لوگ نو دس بجے ادھر آ جاتے ہیں تو پھر کھیتوں میں کب جاتے ہیں؟
میڈم ہم لوگ ادھر آتے ہوئے ہو کے آتے ہیں ۔
“ہوکے” آتی عورتوں میں سے شاید ہی کوئی ہاتھ دھوتی تھی ہم سب نے بے ساختہ اپنے پہلوؤں کے ساتھ ہاتھ رگڑے کہ وہ سب منہ سے سلام کے ساتھ ہاتھ ملانے کی بھی عادی تھیں ۔ہر آنے والی ہر ہر بیٹھی ہوئی سے ہاتھ ملاتی ہر ہر دفعہ السلام علیکم کہتی تھی اور باجیوں کی عزت افزائی کے لئے دونوں ہاتھ ملائے جاتے تھے ۔
اچانک ایک طرف سے کسی ازحد رسا ذہن کی سراسیمہ آواز سانپ کی طرح مجمعے میں چھوڑ دی گئی ۔
آپ لوگ تو خالی ہاتھ نہیں ہوتے آج کل، کھانا وانا ہوتا ہے آپ کے پاس ۔
وہ ہم منڈیر پر رکھ دیتے ہیں باجی، بھلا کھیتوں میں بھی کوئی کھانا لے کر جاتا ہے ۔
ناقص سے ناقص اور ادنیٰ ترین تخیل کا مالک بھی کھیت کی منڈیر پر فراغت کے منتظر پراٹھوں اور نشاستے کو دیکھ سکتا تھا ۔
اپنے کھائے لقموں کو سانپ کے گلے اٹکی چھچھوندر سے بھی تشبیہ دینے سے معذور، دوسروں کی خدمت کے جذبے سے معمور، دیہاتیوں میں گیان بانٹنے پر تیرہ دن سے مامور عورتوں میں کسی ایک کا دھیان بھی اس طرف نہیں گیا تھا کیونکہ ایک تو ہمیں علم نہیں تھا اور دوسرا ہماری تربیت نہیں تھی ۔
اس وقت صرف کراہت آمیز احساس کے ساتھ  بس  پچھتایا جا سکتا تھا اور آخری دو دن لوگوں کو کچھ بھی لانے سے روک کرانھیں ہاتھ دھونے کی اہمیت پر لیکچر دیا جا سکتا تھا ۔ میں نے تو البتہ ہاتھ نہ ملانے اور صرف منہ سےسلام کرنے کی فضیلت پر لیکچر بھی دے دیا ۔
ان کی غربت اور محرومی پر ایمان لانا اور اسے موردالزام ٹھہرانا آسان ہے لیکن سونے کی چوڑیاں اور لاکٹ انگوٹھیاں پہنے شیفون، جارجٹ یا دیگر فینسی جوڑے پہن کر آئی عورتوں کو غریب نہیں کہا جا سکتا خاص طور پر اس صورت میں کہ آپ گزیٹڈ پوسٹ پر ہونے کے باوجود بھی کوئی زیور یا قیمتی کپڑا نہ بنا پائے ہوں ۔ ان کے بارے میں غربت کا جواز فراہم کرتے ذہن کے سامنے سونے کی چوڑیاں لشکارے مارتی اور اس جواز کو دھندلا دیتی ہیں ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply