• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہماری نظر میں ہما را مجرم کوئی قزاق نہیں حکمران ہے۔۔گل بخشالوی

ہماری نظر میں ہما را مجرم کوئی قزاق نہیں حکمران ہے۔۔گل بخشالوی

ہٹلر ایک مرتبہ ایوان میں اپنے ساتھ مرغا لیکر آیا اور سب کے سامنے اس کے پَر  نوچنے لگا، مرغا درد سے بلبلاتا رہا ،مگر ہٹلر نے ایک ایک کر کے سارے پَر  نوچ کر زمین پر پھینک دیئے اور جیب سے کچھ اناج کے دانے نکال کر مرغ کی طرف پھینک دیئے اور دھیرے دھیرے چلنے لگا، مرغا بھی دانا چگتے ہوئے ہٹلر کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ہٹلر  دانا پھینکتا گیا مرغا دانا کھاتا ہوا ہٹلر کے پیچھے چلتا رہا اور آخر کار وہ مرغا ہٹلر کے پیروں میں آکر کھڑا ہو گیا۔
تب ہٹلر نے  سپیکر  میں  تاریخی جملہ کہا، جمہوری ملکوں میں عوام اس مرغے کی طرح ہوتے ہیں ان کے لیڈر پہلے عوام کا سب کچھ لوٹ کر انہیں اپاہچ کرتے ہیں اور بعد میں انہیں تھوڑی سی خوراک دے کر ان کے مسیحا بن جاتے ہیں۔

آج ہم پاکستانی ایسی ہی صورت ِ حال سے دوچار ہیں۔ زرداروں، وڈیروں، لٹیروں کے نقاب میں شریفوں، رسہ گیروں، وطن دشمنوں، پیروں،اور انتہا پسندوں نے ہم وطن پرستوں کو انتہائی بے دردی سے اس قدر لوٹا کہ ہم اپنے دیس میں سب کچھ ہونے کے باوجود خیرات مانگنے تک سے مجبور ہوکر قومی سرحدو ں سے باہر دیکھنے لگے ہیں اوراب ہمارے خیرا ت مانگنے پر بھی ہمارا مذاق اڑایا جارہا ہے۔

ہٹلر نے غلط نہیں کہا، ہم نام نہاد پارلیمانی جمہوریت پسندوں کے ذہنی غلام بن کر رہ گئے ہیں، جانتے ہیں کہ انہی جمہوریت پسندوں نے اپنوں کے لئے ہماری پہچان کی کھال تک ہمارے وجود سے کھینچ لی ہے ۔جانتے ہیں کہ ہمارے یہ نام نہادقائد ہمارے خون پسینے ہماری ہی لاشوں پر تعمیر کئے گئے محلات کے شیشو ں سے ہمیں ہماری غربت پر ماتم کرتے دیکھتے اورہم پر قہقہے لگا کر ہنستے ہنستے جب تھک جاتے ہیں تو مگر مچھ کے آنسو بہانے کے لئے اپنے محلات سے نیچے آ کر ہمارے ماتم میں شامل ہو کر اپنی سیاست کی دکانداری چمکانے لگتے ہیں اور ہم بد بخت ان کی خوشامد کے لئے ان کے زندہ باد کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی اناؤں  کے آسمان پر بیٹھ کر گلشن دیس کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اور ہم ان پر پھول برساتے ہیں، ہمارے ہی خون پسینے کی کمائی سے عیاش زندگی گزارنے اور بے تحاشا کھانے والے جب بد ہضمی کا شکار ہوتے ہیں تو نظامِ عدل کے علمبردار ان کے شبِ عیا ش کے یار عادل ان کو باوجود قومی مجرم ہونے کے انصاف کا خون کرتے ہوئے علاج کی غرض سے وطن سے دور جانے کی جب اجازت دے دیتے ہیں تو ہم ذہنی غلام خوشی سے پاگل ہو کر ان کے حضور بھنگڑے ڈالنے لگتے ہیں لیکن اگرمدبران ِ سلطنت میں ان کی روک تھام اور ان قزاقوں کے ٹولے کو روکنے کے لئے کسی وطن کے سپاہی کی غیرت اس لئے جاگتی ہے کہ رزیل شخص سے تعلق کا کوئی فائدہ نہیں، اس لئے کہ  پٹ سن کی نے سے شَکر نہیں مل سکتی ،بدوں کے ساتھ بھلائی نیکوں کے ساتھ بدی کے برابر ہے تو ایسے قزاقوں کی غلامی میں ہماری عقل و ہوش ہمار ا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور ہم اپنے پاگل پن میں اپنے ہی دیس کے سالاروں کا ماتم کرتے کرتے ہلکان ہو جاتے ہیں، اس لئے تو ہم سے ہمارا خالق ہمار رازق تک ناراض ہے ،ہمیں ہماری عبادت گاہوں تک سے روک دیا ہے اس نے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لئے کہ ہم اپنے خالق کی نظر میں اس کی عبادت کے قابل ہی نہیں رہے ، ہم خدا پرستی اور قوم پرستی کو بھول کر شخصیت پرستی ہی کو اپنی بقا سمجھنے لگے ہیں ہم باہوش و حواس پڑھے لکھے جاہل ہیں اگر چمگادڑ دن کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتا تو اس میں نور کے چشمے یعنی سورج کا کیا قصور، ہماری نظر میں ہمار ا مجرم کوئی قزاق نہیں حکمران ہے ،شا ید شیخ سعدی نے ہمارے جیسوں کے لئے کہا ہے کہ جن کا سو جانا ان کے جاگنے سے بہتر ہو تو ا ن جیسوں کا مر جانا ہی بہتر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply