محمد بن قاسم۔۔سعید چیمہ

کیا محمد بن قاسم حقیقت میں مظلوم عورت کی مدد کے لیے آیا تھا؟

مالک بن دینار بیان کرتے ہیں جب حجاج بن یوسف کا انتقال ہوا تو اس کے قید خانے میں تیس ہزار مرد اور بیس ہزار عورتیں قید تھیں، عام اندازے کے مطابق حجاج نے ڈیڑھ لاکھ بے گناہ افراد کو قتل کیا تھا (نقوشِ تاریخ)

یہ حجاج بن یوسف وہی ہے جس نے سیدہ اسماء (سیدنا ابوبکر کی بیٹی) کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں تجھے سر کے بالوں سے گھسیٹوں گا، یہ حجاج وہی ہے جس نے عبداللہ بن زبیر (جلیل القدر) صحابی کو قتل کر کے ان کی لاش سولی پر لٹکا دی تھی، یہ حجاج وہی ہے جس نے خانہ پر حملہ کر بیت اللہ کو ڈھا دیا تھا (تفصیلات صحیح مسلم میں دیکھی جا سکتی ہیں )

افسانہ یہی دہرایا جاتا ہے کہ راجہ داہر نے مسلمانوں کے ایک جہاز کو لوٹا تھا اور مسافروں کو قیدی بنا لیا تھا، ان قیدیوں میں ایک لڑکی بھی تھی جس کا نام نسیم حجازی کی مسخ شدہ تاریخ کے مطابق ناہید تھا، اس ناہید نے حجاج کو خط لکھا تھا کہ ہماری مدد کو آؤ، یہاں پر چند سوال ہیں جو جواب طلب ہیں

1) ناہید کو جیل خانے میں خط لکھنے کا سامان کس نے فراہم کیا؟

2) ناہید حجاج بن یوسف کو کیسے جانتی تھی جب کہ نسیم حجازی کے مطابق  اس کا سارا بچپن سری لنکا کے ساحل پر گزرا تھا اور وہ پہلی بار عرب جا رہی تھی؟

3) ناہید نے امیرالمومنین ولید بن عبدالملک کے نام خط کیوں نہ لکھا جو تین بر اعظموں کا حکمران تھا، اس کے بجائے بصرہ کے ایک ظالم گورنر کے نام خط کیوں لکھا جس سے مدد ملنا بعید از قیاس تھا،

4) ناہید کا یہ خط حجاج تک کس نے پہنچایا؟

5) حجاج نے ایک نامعلوم خط کی صداقت کو کیسے تسلیم کیا ؟

6) ولید جیسا سفاک حکمران اور حجاج ایسا ظالم گورنر ایک عورت کی مدد کو کیسے راضی ہو گئے جب کہ وہ بے گناہ مسلمانوں کے خون سے زمین کو مسلسل تر کر رہے تھے؟

7) محمد بن قاسم کو ہی سندھ کی مہم کا سپہ سالار کیوں بنایا گیا؟ جب کہ اس مہم سے پہلے تاریخ کی کسی کتاب میں محمد بن قاسم کے کسی کارنامے کا ذکر نہیں ملتا،

8) سلمان بن عبد الملک نے محمد بن قاسم کو قتل کیوں کروایا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سوالات کے جوابات کون دے گا، حقیقت یہ ہے کہ بنو امیہ شروع سے ہی اہلِ بیت پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے، کبھی رسول کی آل تو تختہ دار پر لے جایا جاتا تو کبھی ان کی توہین کی جاتی، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، حتی کہ ولید بن عبد الملک کے دور میں اہلِ بیت کے کچھ افراد نے سندھ کی طرف ہجرت کر کے راجہ داہر کے ہاں پناہ لی (تاریخ دمشق اور تاریخ ابنِ عساکر میں تفصیلات ملاحظہ کی جا سکتی ہیں)، ولید نے خط و کتاب کے ذریعے اہلِ بیت کے افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا، مگر راجہ داہر نے انکار کر دیا، اب ولید کے پاس صرف ایک راستہ تھا، سندھ پر حملہ کیا جائے، اب مسئلہ یہ تھا سندھ پر حملہ کرنے والے لشکر کا سربراہ کسے بنایا جائے، جو اہلِ بیت کے لیے سفاک ثابت ہو، قرعہ حجاج بن یوسف کے بھتیجے کے سوا کس کے نام نکل سکتا تھا، سو محمد بن قاسم کو اس مہم کی سپہ سالاری سونپی گئی، ولید اپنے مرنے کے بعد اپنے بیٹے کو امیر المومنین بنوانا چاہتا تھا، حجاج بن یوسف نے ولید کی سوچ کی تائید کی اور مشورہ دیا کہ اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے کی بیعت لے لیں، جب کہ ولید  اس کا چھوٹا بھائی سلمان امیر المومنین بننا چاہتا تھا، موت نے ولید کو مزید مہلت نہ دی اور وہ اپنے بیٹے کے لیے گورنروں سے بیعت نہ لے سکا، ولید کی موت کے بعد سلمان بن عبد الملک امیر المومنین بن گیا، سلمان جانتا تھا کہ کون سے گورنر اس کو امیر المومنین نہیں دیکھنا چاہتے تھے، ان گورنروں میں سرِ فہرست حجاج بن یوسف تھا، جو کہ سلمان کے امیر المومنین بنتے ہی طبعی موت مر گیا، سلمان کے مخالفوں میں موسی بن نصیر بھی تھے، اس لیے وہ بھی قید کر دیے گئے، اب اگر حجاج مر گیا تو کیا ہوا اس کا بھتیجا تو زندہ تھا جو سندھ کی مہم پر نکلا تھا، سلمان نے فوراً اس کو معزول کیا اور پابہ زنجیر دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا، اس کے  بعد محمد بن قاسم کی موت کا پروانہ جاری کیا گیا، یہ تاریخ کا دوسرا رخ ہے جو آپ کے سامنے ہے، سوالات جو درویش نے اٹھائے ہیں، ان پر ٹھنڈے دل کے ساتھ تدبر و تفکر کیجیئے گا، تعصب کی عینک اتار کر جوابات تلاش کیجیئے گا، یقینِ کامل ہے کہ آپ پر حقیقت آشکار ہو جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply