​کیا شاعری کی کوئی مخصوص زبان بھی ہے؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

سوال :کیا شاعری کی زبان اور لسانی اجتہادات کو معاشرتی زبان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ؟

جواب:میں پہلے ایک سوال کے جواب میں لکھ چکا ہوں کہ شاعری کی زبان اور محاورہ ایک آوارہ اور غیر مستعمل تخلیقیت نہیں ۔۔ جس کو لغت بھی اعتماد سے قبول نہیں کرتی۔
شاعری کی زبان کا تو ٹنٹا ہی مٹتا نظر آتا ہے ، کیونکہ غزل کے نئے مدرسوں کے شاعر تو وہ زبان استعمال کر رہے ہیں جسے کسی وقت اساتذہ ’عامیانہ‘ یا ’رذیل‘ سمجھتے تھے۔نظیر اکبر آبادی کو انیسویں صدی کے آخر تک شاعر ہی تسلیم نہ کرنے کی مثال اظہر من الشمس ہے۔انگریزی میں انیسویں صدی میں جس زبان کا استعمال ورڈزورتھ، کالریج، کیٹس اور شیلے نے کیا تھا، اسے آج کو ئی بیوقوف شاعر ہی استعمال کرے گا۔

لسانی اجتہادات‘ کو ’آگاہ سطح‘ پر معاثرتی بنانے کی کوشش کی کیا ضرورت ہے ؟ عوام تو زبان کے پیچھے نہیں چلتے۔ زبان عوام کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر آپ اپنی زبان کی تاریخ دیکھیں تو اس اصول کو جھٹلایا نہیں جا سکے گا۔کہ زبان عوام کے پیچھے چلتی ہے، عوام زبان کے پیچھے نہیں چلتے۔۔۔ آج عوام یا کم از کم پڑھے لکھے لوگ اور نیم خواندہ لوگ ہی معاشرتی زبان اوّل و آخر استعمال کر رہے ہیں، اگر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا یہ زبان استعمال کر رہے ہیں، تو شاعری خود بخود ہی اس سے متاثر ہو گی۔ اس کے لیے کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے اپنی کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کے حوالے دیے ہیں۔ فرانسیسی زبان خود پرستی کی حد تک اپنے آپ میں گم ہے۔ اور دیگر زبانوں سے بہت کم نئے الفاظ قبول کرتی ہے، اس لیے عالمی زبان نہیں بن سکی، جب کہ ہر نئے سال میں معروف انگریزی ڈکشنریوں کے نئے ایڈیشن آتے ہیں، اور ان میں گزشتہ برس کی نسبت پانچ سے دس فیصد الفاظ کا اضافہ ہو جاتا ہے، یہ الفاظ وہ ہیں جو دنیا کی دیگر زبانوں سے عوام نے (اور ان کے توسط سے میڈیا نے) قبول عام کی سطح پر اپنی بات چیت اور تحریروں میں شامل کر لیے ہیں۔ انگریزی آج عالمی زبان ہے اور فرانسیسی جو ں کی توں، جہاں تھی، وہیں کھڑی ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply