اگر آپ لاہور میں رہتے ہیں ،اور اشیاء ضرورت خریدنے کے لیے بازار جائیں تو ،آپ کو مختلف دکانوں سے ایک ہی چیز کی مختلف قیمتیں ملیں گی۔ہر شخص اپنی رہائش سے قریبی دکانوں سے خریداری کرنے کا خواہاں ہوتا ہے لیکن دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں بتا کر شہریوں کو لوٹنے میں ملکہ رکھتے ہیں ۔آپ کسی پارک یا پکنک پوائنٹ پر جائیں ،وہاں بھی آپ کو کھانے پینے کی اشیاء مارکیٹ کی نسبت زیادہ دگنی قیمت پر دستیاب ہوں گی،پوش ایریاز میں بھی اشیاء دُگنے نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں ۔
آپ کو شہر میں کسی بھی چیز ی قیمت یکساں نہیں ملے گی۔۔اگر بریانی پلیٹ شہر کے ایک کونے میں 100 روپے کی ہے دو وہی بریانی شہر کے دوسرے کونے میں 200 کی فروخت ہورہی ہوگی۔
رمضان کے قریب آتے ہی مہنگائی عام آدمی کی ناک میں دم کردیتی ہے۔ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح خطرنا ک حد تک بڑھی ہے،اور مہنگائی کی شرح 19 فیصد تک جاپہنچی ہے،وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔
اڑھائی سالوں سے حکومت اور وزراء مہنگائی کا ذمہ پچھلی حکومتوں پر ڈالتے نظر آرہے ہیں اور دوسری جانب جلد اچھے دن آنے کا لارا لگا کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے ۔ عوام پر آئی ایم ایف کی جانب سے گزشتہ 15 دنوں میں 15 سو ارب روپے سے زائد کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ ۔ شاید ابھی بھی حکومت کو پناہ گاہ کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آرہا ۔ قوم کو پناہ گاہیں اور لنگرخانے کا نہیں بلکہ مضبوط معاشی نظام چاہیے جو ان کو پریشانیوں سے نجات دے۔
اگر مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو ملک میں باقی نظام کو لیکر چلنا کافی مشکل ہوگا ۔ جن قوموں نے ترقی کی ہے، انہوں نے سب سے پہلے ملک میں مہنگائی کے نظام کو کنٹرول کیا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت برسر اقتدار کے آنے کے بعد سے ہی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے ۔ تاہم اس میں کوئی خاطر خواہ نتائج اب تک برآمد نہیں ہوسکے ۔ مہنگائی پر قابوپانا حکومت کے لیے اب بھی چیلنج سے کم نہیں ۔ مہنگائی کم کرنے کے لیے پاکستان میں اشیاء کی پیداوار ہو ، پاکستان میں ہی ان اشیاء کی فروخت ہو اور پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک سے کوئی چیز خریدی نہ جائے ۔ ۔ بہترین قسم کے معاشی ماہرین کی ٹیم پر مشتمل ایک جامع منصوبہ بنایا جائے۔ اس پر پوری قوم کو ایک کیا جائے ۔ مافیاز کو کنٹرول کیا جائے ۔ اگر رمضان میں اس مہنگائی مافیا کو قابو نہ کیا گیا تو حکومت کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں