میں ۲۲ اگست ۱۹۸۵ کو آغا خان ہسپتال کراچی میں پیدا ہوا۔ یہ وہ معلومات ہے جو مجھے یاد نہیں کیونکہ اس وقت میرا دماغ میرےجسم کو آپریٹ کرنے کے لیے کم ترین آپریشنل انسٹرکشنز کی بنیاد پر چل رہا تھا، اور طویل المدتیادداشت اس وقت میرے زندہ رہنے یا سروائیولکے لیےضروری نہیںتھی۔ تب میں فقط بھوک کے احساس اور تکلیف پر سگنل دینے جیسی بنیادی انسٹرکشنز پر اکتفاء کرتا تھا۔ اس کے بعدآہستہ آہستہ دماغ نے کام کرنا سیکھا، مثلاً شروعات میں مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میرا ہاتھ میرا ہی ہے اور میرے قابو میں ہے۔پھر کچھ عرصے میں مجھے ہاتھ سے بنیادی کام لینا مثلاً کوئی چیز تھامنا آیا۔ ابتداء میں میری نظر بھی ٹھہری نہیں تھی۔ کچھ وقت لگااور مجھے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا آیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں کافی کچھ سیکھتا رہا یہاں تک کہ آپ اپنے آئی فون پر یہ تحریر لکھنے تک پہنچگیا۔
یہ سارا عمل میرے بچوں نے بھی دہرایا لیکن ظاہر ہے ابھی وہ چھتیس سال کے نہیں ہوئے لہذا بہت سی چیزیں سیکھنا ان کےلیے ابھی باقی ہے۔ میکائیل کی پیدائش تک میں روٹی کپڑا اور مکان کی پریشانیوں سے تقریباً بے فکر ہوچکا تھا لہذا میکائیل کو بڑےشوق اور انہماک سے بڑھتا دیکھا۔ میکائیل بھی جب بڑا ہوگا تو یقیناً اسے اپنے ختنے یاد نہیں ہوں گے، اسی حفاظتی ٹیکے یاد نہیں ہوںگے، اسے پیمپرز یاد نہیں ہوں گے لیکن یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہوا، یہ طے ہے۔
دوسرے الفاظ میں یادداشت میں کسی واقعے کی یاد موجود نہ ہونا اس واقعے کے نہ ہونے کی برہان نہیں۔ یہ پہلا نتیجہ ہے جو ہم نےاخذ کیا۔ اب کچھ دیر کے لیے موضوع بدل کر انسانی جینز genes پر جاتے ہیں۔
فیس بک پر سائینس کی دنیا نامی گروپ ہے جو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔یہاں قدیر قریشی صاحب، ضیغم قدیر اور سلطان محمد صاحب سمیت کئی خوبصورت انسان عام مغالطے دور کرنے اور سائینسیتصورات بیان کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے قدیر قریشی صاحب نے اس گروپ میں ایک لنک مع تحریر شئیر کیا جونظریہ ارتقاء کے ثبوت کی ڈی این اے میں موجودگی پر مبنی تھا۔ اس ویڈیو اور تحریر کے مطابق ہمارے ارتقائی سفر کے دورانکئی وائرس ہم اور ہمارے ارتقائی اجداد بشمول چمپیبزیز پر حملہ کرتے رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ڈی این اے کاحصہ بن چکے ہیں۔ یہ وائرس سائینس کی زبان میں ریٹرو وائرس کہلائے جاتے ہیں۔ نظریہ ارتقاء کے حقانیت کا ایک ثبوت سائینسدانوں کے مطابق یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی ریٹرو وائرس کے ڈی این اے باقیات انسانوں اور چمپینزیز کے ڈی این اے پرایک ہی مقام پر موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا اور چمپینزیز کا ڈی این اے کسی زمانے میں ایک ہی رہا ہے۔ دوسرےالفاظ میں ہوموسیپینز کا ظہور انہی چمپینزیز کی ایک شاخ کے طور پر ہوا ہے۔
گویا ہم نے سائینسی بنیادوں پر ارتقاء کے سفر میں اپنا ماضی چمپینزیز میں ڈھونڈا ہے اور پھر چاہے ہمیں یاد ہو یا نہ یاد ہو، ہم یہ باتآج ۲۰۲۱ میں سائینسی شواہد سے ثابت کر چکے ہیں کہ ہوموسیپینز یعنی نسل انسانی کا موجودہ ماڈل چمپینزیز کی فیملی کا حصہ رہا ہے۔
کیا آپ کو ۷۰ ہزار برس قبل کوئی حملہ آور ہونے والا وائرس یاد ہے؟
یقیناً نہیں۔
مدعے پر پہنچنے سے قبل ایک چھوٹی سی مثال اور پیش خدمت ہے اور وہ ہے میرے Sketchers کے جوتے کی۔ میں واک کرنےکے لیے سکیچرز برینڈ کے جوتے استعمال کرتا ہوں جبکہ جاگنگ یا بھاگنے کے لیے نائیکی۔ سکیچرز کا جو جوتا میرے پاس ہے اس کےسول کو سکیچرز نے میموری یعنی یادداشت فوم کا نام دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ سول متواتر دباؤ کے بعد بھی دبتا نہیں بلکہ اپنی اصلشکل میں واپس آجاتا ہے اور یوں پاؤں کے لیے آرام دہ رہتا ہے۔ یہاں سکیچرز نامی جوتا بنانے والی کمپنی یادداشت سے مراد پرانیہئیت لیتی ہے۔
یادداشت، یعنی ماضی میں ہوا کوئی واقعہ جو حال میں کسی کو یاد ہو یا نہ ہو، اس کا وقوعہ اس کا واقع ہونا باطل نہیں ٹھہرتا۔ یہ ریشنالٹیپر مبنی بیانیہ ہے جن کے حق میں دلائل اوپر دیے جا چکے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں مدعے پر۔
ہمیں ایمان بالغیب کو ریشنل تناظر میں دیکھنے والے دو قسم کے جتھے ملتے ہیں۔ ایک وہ جو دور حاضر میں صرف اور صرف سائینٹفکریشنالٹی سے مطمئن ہیں اور اسی ریشنالٹی کے تناظر میں وہ وجودِ خدا اور پھر مذہب کا رد کر کے آگے چل پڑتے ہیں (یہاں “آگےچل پڑتے ہیں” اہم ہے)۔ دوسرے وہ جو کئی ساری جائز وجوہات اور ان سے زیادہ ناجائز بدگمانیوں کی بنیاد پر مذہب، بلکہ مذہبسے کہیں زیادہ مذہب کے مقلدین سے بدظن ہوکر سائینٹفک ریشنالٹی کا سہارا لیتے ہوئے مذہب کو رد کرتے ہیں۔
دوسرے قبیل کے احباب میرے لیے اتنے ہی محترم ہیں جتنے باقی سب دوست، البتہ ایسے احباب کو اپنے بارے میں میری یہرائے سنتے جب دیکھا سیخ پا ہوتے دیکھا، حالانکہ یہ میری بغیر بدظن ہوئے اپنے تئیں درست دلائل پر مبنی رائے ہے۔ گامزن بہ الحادمیں پہلے قبیل کو میں نسبتا زیادہ افضل اور حکمت سے بھرپور جانتا ہوں کہ یہ فری ول پر مبنی ایک سفر ہے۔ ان کی نسبت آخر الذکرقبیل میرے نزدیک ردعمل کی نفسیات کا شکار ہے اور ان کے تمام تر ذہنی و فکری وسائل فقط اس بات پر مرتکز ہیں کہ کسی طرحمذہبیوں کو حقیر، بیوقوف اور کمتر ثابت کیا جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک فرد گالی دینے کو برا سمجھتا ہو تاہم خود کو پڑتی گالی کےجواب میں دوسرے کی ماں بہن کر دے۔ ایسے بندے کی فری ول کمزور جبکہ اسے ڈرائیو کرنا اسے اپنی مرضی سے چلانا آسان ہے(مثلاً اگر آپ ایسے بندے سے گالی سننا چاہتے ہیں تو اسے ایک گالی خود دے دیں، اس کے سارے اصول تیل ہوجائیں گے)۔
معاملہ الحاد کی تبلیغ کا ہو تو سمجھ آتی ہے، البتہ مذہب کی تحقیر محض ردعمل کی نفسیات ہے۔ اسی ضمن میں دو روز قبل فیس بک پرموجود نہایت ہی محترم اور معزز صاحب نے عہدِ الست پر چوٹ مارتے ہوئی اس کو ریشنالٹی کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی۔ فیسبک کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جہاں دو افراد بات کر رہے ہوں تیسرا اس میں کودنا اور وہ بھی طنزیہ انداز میں کودنا نفلی عباداتکے مساوی سمجھتا ہے۔ مذکورہ بالا تھریڈ میں بھی یہی ہوا، اور تین چار معزز افراد نے انگشت انگیزی کے ذریعے رائتہ اچھا خاصہپھیلا دیا حالانکہ میرا مؤقف بڑا سادہ سا تھا کہ جب ایمان، ایمان بالغیب ہے تو آپ اسے ریشنالٹی کی نظر سے دیکھ کر کیا حاصل کرناچاہتے ہیں؟ مزید برآں، عہد الست سے میرا اتفاق آپ کی کون سی شخصی آزادی پر قدغن لگاتا ہے کہ یہ ایک آیت آپ کو دکھ دینےکا باعث بن رہی ہے؟ جواب ہمیشہ کی طرح وہی کہ “میں تو فقط ایک مخصوص سوچ کی خامی کی نشاندہی کر رہا ہوں”۔
میں ذاتی حیثیت میں آج کے دور میں کسی بھی مذہبی ریاست کو صرف ایک دھوکا سمجھتا ہوں اور سیکولرزم کو کئی مسائل کے حلکی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔ مجھ جیسے کئی مذہب پر ایمان رکھنے والوں کے ساتھ سارھ ہر آئیڈیل ملحد میری اس رائے سے متفقہوگا۔ مسئلہ البتہ غیر آئیڈیل یا شوقیہ ملحدین کا ہے جنہیں عظیم عثمانی بھائی “Wanna Be Atheist” کہتے ہیں۔ جب آپ نے مذہبکو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا تو پھر میں اللہ پر یقین رکھوں، رام پر یا یسوع مسیح پر، آپ کس حق سے مجھ سمیت جانے کتنےلوگوں کے ذاتی معاملے میں ٹانگ اڑا رہے ہیں؟ ہاں مذہب کسی بھی جگہ پر آپ کے انفرادی حقوق پر نقب زنی کرتا دکھائی دے تواسے وہیں روک دیں، میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
رہی بات اس “ریشنالٹی” پر مبنی سوال کی کہ عہد الست آج کے انسان کو کیوں یاد نہیں تو میرا سوال آپ کی ریشنالٹی کو سامنےرکھتے ہوئے یہ ہے کہ آج آپ کو ۷۰ ہزار سال قبل حملہ کرنے والا ریٹرو وائرس کیوں یاد نہیں؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہآپ روایتی ملا سے بدظن ہو کر اس کی ضد میں کسی کے ذاتی معاملات کا ٹھٹھہ اڑانے تک ہی کیوں محدود ہو چکے ہیں؟ اعتراضسوال اٹھانے پر نہیں اعتراض صرف ایک ہی موضوع پر سوال اٹھانے پر ہے۔
روایتی ملا سے میں بھی متنفر ہوں، لیکن میری کلی مذہب پر پھنسی نہیں رہ گئی۔ میرے ریشنل احباب میں سے چند کی کلی بس مذہبپر ہی کیوں پھنس گئی ہے؟ کیا یہ شوقیہ ملحد ہونے کی نشانی نہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں