ماہ رمضان آنے کو ہے۔ مسلمان بڑے خوش و خرم ہیں کہ رب کی نعمت عظمیٰ قرار دیا جانے والا مہینہ آن پہنچا ہے۔ ہر شخص اپنے طور پر اس کے لیے تیاری کیے بیٹھا ہے۔کہنے کو یہ ماہ رب کی قربت کا ذریعہ،غریب کی دادرسی کا ذریعہ،نیکیوں کا مہینہ،رحمتوں کا خزینہ اور بہت سے عنوانات سے ہم اسے موسوم کرتے ہیں۔لیکن ایک لمحے کے لیے سوچا جائے تو کیا ہم یہ سارے کام اپنی ذات میں کرتے ہیں۔کیا ہم خدا کی منشاء کے لیے کچھ کرتے ہیں یا پھر بارہ ماہ کھانے کے لیے ان جمع کرنے کا سامان کرنے میں جت جاتے ہیں۔
بڑے بوڑھوں کو کہتے سنا ہے کہ ہم تو پورے پورے محلے والے اکٹھے ہو کر افطارو سحر کا اہتمام کرتے تھے۔اس کے علاوہ اپنے اردگرد میں بسنے والے لوگوں،خاص کر سفید پوش لوگوں کی مدد منہ اندھیرے کر دیا کرتے کہ کہیں انکی ذات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ان کا وقار مجروح نہ ہو۔اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھیں۔لیکن آج تو گنگا الٹی بہہ نکلی ہے۔ایک کلو آٹا چار تصویروں کے بنا شاید کسی کے پیٹ کی آگ بجھاتا نا مناسب سا لگتا ہے۔کیونکہ ہمیں تو فیس بک،انسٹا اور دیگر سوشل ویبسائیٹس پہ پذیرائی درکار ہے۔نمودونمائش کا کاروبار کرنا ضروری ہے چاہے پھر کسی غریب کاچولہاہی کیوں نہ بند ہوجائے۔چاہے کسی سفید پوشی کی چادر ہی تار تار کیوں نہ ہوجائے۔
مجھے کچھ عرصہ پہلے پنجاب میں رونما ہو اایک واقعہ بہت ستاتاہے کہ ایک بوڑھا شخص جو روٹی مانگ مانگ کر چوراہے کے بیچ دم توڑ گیا۔تو سامنے ایک بڑے کاروباری شخص نے دَیا دکھائی اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے چوراہے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا اس کے ختم پر تین دیگیں میری طرف سے ہونگی۔وہیں مجھ جیسا ایک کم عقل شخص بھی گزر رہا تھا جس نے ماجرا جاننے کے بعد ان صاحب سے کہا صاحب اب تو اپنی ناک اونچی کرنے،اپنی واہ واہ کے لئے تو سخاوت کا دریا بہانے کا اعلان کر دیا۔لیکن جب وہ بوڑھا اپنی عزت کو دفنائے آپ کی دہلیز پر ایک روٹی کا سوالی تھاتب تو جناب کی سخاوت نے سات پردوں میں پناہ لے لی تھی۔کیا یہ سخاوت اس وقت نہ ہو سکتی تھی۔اس وقت اگر اسے ایک دس روپے کی روٹی دی جاتی تو شاید آج وہ سسک سسک کر یوں بھرے بازار کے چوراہے پر دم نہ توڑتا۔یوں بھرے بازار تماشہ نہ بنتا۔اب جو لاش کو لیے تماش بینی کا بازار گرم ہے یہ نہ ہوتا۔تو ان صاحب کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔
یہاں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ماہ صیام کا استعمال ہم کیسے کر رہے ہیں۔پھر ایک اور جانب ہم چلیں تو ایک شیخ صاحب کی مجھے یاد آگئی۔جن پر اللہ کا کرم ہو اور ان کو اپنے پاک در کی حاضری کے لیے بلا لیا۔صاحب ہاتھ میں تسبیح اٹھائے سر پہ ٹوپی لگائے کرتا پاجاما زیبِ تن کئے عاجزانہ تکبر میں اپنی فراڈ کی دکان میرامطلب فروٹ کی دکان کی جانب آئے۔وہاں بیٹھے اپنے بیٹے کو فخریہ انداز میں فرمانے لگے۔بیٹا نماز مت چھوڑنا۔تسبیح بھی برابر پڑھتے رہنا،ہر وقت باوضو رہنا اور ہاں یاد رکھو کہ اپنا منافع بالکل جو سمجھایا ہے اس سے کم نہ کرنا۔کیوں کہ یہی مہینہ ہے سارے سال کا کاروبار کرنے کا۔ایک بات اور دھیان میں رکھنا کہ یہ جو ڈھونگی بنے چلے آتے ہیں ان پر ترس کھا کر سستا نہ بیچنا۔بلکہ انکو دگنے دام بتا کرچلتا کرنا اپنی تسبیح کا ٹائم ضائع نہ ہونے دینا۔
یہاں اقبال کا ایک شہرہ آفاق شعر میری زبان پر ہے کہ
وائے ناکامی متائے کارواں جاتا رہا،
کارواں کے دل سے احساس ضیاں جاتا رہا۔
افسوس کہ دین کی باگ ڈور سنبھالے ہم سو کالڈ مسلمان،جنہوں نے نام تو شاید مسلمانوں والے رکھ لئے ہیں لیکن کام یہود و نصریٰ سے بھی بدتر کر رہے ہیں۔کیونکہ رمضان کے آتے ہی بیرونِ ممالک جن کو ہم غیر مسلم کہتے ہیں۔مسلمانوں کے لیے اپنے تمام تر کاروباری مراکز پر پچاس فیصد سیل لگا دیتے ہیں۔یہ خیال کرتے ہوئے کہ کہیں مسلمان اپنے اس تہوار کو مہنگائی کے باعث صحیح طور پر ادا نہ کر پائیں۔تو انکی چارہ جوئی ہم اپنے منافع میں کمی کے باعث کر لیں۔جبکہ مسلم ممالک خاص کر پاکستان میں اسی ماہ کو کاروبار ی اور ہر لحاظ سے فائدہ بخش بنانے کی دوڑ لگ جاتی ہے۔پھر ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم پر یہ عذاب کیوں آتے ہیں۔یہ ظالم حکمران کیوں مسلط ہوتے ہیں،یہ وباء ہمارا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتی۔ہم کس طرف جا رہے ہیں حقوق اللہ پہ زور اور حقوق العباد سے چشم پوشی اور پھر بھی خود کو جنت کا حقدار سمجھنا کم از کم میری ناقص عقل کے پیرائے میں یہ لاجیک نہیں سما رہی۔ کون غلط ہے کون صحیح اس کا فیصلہ کر پانا کافی کٹھن لگ رہا ہے۔ شایدہم شیطان سے ہاتھ ملا ئے بیٹھے ہیں۔ہاتھوں میں تسبیح اور منہ میں رام رام کے قصیدے تو ہم آلاپتے ہیں۔خدا کرے کہ یہ قوم سنبھل جائے وگرنہ قیامت زیادہ دور نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں