کوئی بھوک کا بھی علاج ڈھونڈے گا؟۔۔علی انوار بنگڑ

بہاولپور میں میاں اور بیوی نے مل کر پہلے دونوں بچوں کو زہردیا ,ان کو مار کر خود بھی زہرپی لیا ۔ وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ تنگدستی کی وجہ سے تین ماہ سے گھر کا کرایہ ادا نہیں کرپاۓ تھے۔ جس کی وجہ سے مالک مکان نے گھر خالی کرنے  کا کہا اور بجلی کا بل نہ اتارنے کی وجہ سے واپڈا والے میٹر اتار کر لے گئے۔ گھر میں بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اپنی بھوک تو شاید برداشت کر لیتے لیکن بچوں کی بھوک کہاں برداشت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی موت زندگی کی اذیتوں سے نجات کا باعث بن جاتی ہے۔

تصویر میں نظر آنے والی یہ لاشیں دراصل ہمارے دکھاوے کی نیکیوں کی لاشیں ہیں، یہ بھوک پر سیاست کرنے والوں کی لاشیں ہیں، بھوک پر عقیدوں کو فوقیت دینے والوں کی لاشیں ہیں۔ کچھ زندوں کو ہم الیکشن میں منتخب کرکے بھیجتے ہیں لیکن ہر بار وہ یہی ثابت کرتے ہیں کہ وہ بے حس چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔

لگتا کسی سے گلہ بھی نہیں کیا۔ رب سے گلہ کرلیتا۔ نہیں وہ بھی نہیں کرسکتا اس پر بھی ٹھیکیدار گردن دبوچ لیتے ہیں۔ آتے ہوں گے جنت دوزخ کے ٹھیکیدار اس بھوکے کی جنت دوزخ کا فیصلہ کرنے۔ وہ جیتے جی دوزخ میں تھا ،مر کر بھی رہ لے گا۔ بھوک دیکھ کر کسی مذہبی کی مذہب والی رگ نہیں پھڑکے گی، کسی سیاسی کارکن کی غیرت نہیں جاگے گی، کسی لبرل کو ناانصافی نہیں نظر آۓ گی۔اور  لڑتے ہیں عقیدوں، سیاست اور جھوٹی اناؤں کے لیے۔ بھوکے کے لیے کون لڑتا ہے؟ ہم چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ میرا ایک ہی سوال ہے کسی کو بھوک میں بے حیائی کیوں نہیں نظر آتی؟ کیوں کسی کو عریانی نظر نہیں آتی۔ کہاں ہے وہ سب جو کہتے ہیں پیدا ہونے والا رزق ساتھ لاتا ہے۔ ان بچوں کا رزق کہاں ہے ؟ کیوں کسی کو بھوک میں بے حرمتی نظر نہیں آتی۔ کوئی اس بھوک پر فتویٰ لگاۓ گا؟  کوئی اسے بھی غدار بولے گا۔ اسلحے، ٹینک، طیاروں غرض ہر چیز کی نمائش ہوتی ہے۔ کوئی میری بھوک کی بھی نمائش کرے گا شاید دشمن ڈر جاۓ۔
اللہ میاں تھلے آ
دنیا اپنی ویکھدا جا
یا اسمانوں رزق ودھا
یا فیر کر جا مک مکا
تینوں دھی جے ویاہنی پیندی
نانکے چھک بنانی پیندی
رسی پین منانی پیندی
لتھ جاندے سب تیرے چاء
اللہ میاں تھلے آ
ویکھ شیعے تے وہابی لَڑ پئے
سنّی ڈانگاں لے کے چڑھ پئے
اِک دوجے نوں قتل کریندے
آکھن ساڈا اِک خدا
اللہ میاں تھلّے آ
چوری دا الزام غریبی
روندی پھرے عنایت بی بی
پُت چھُڈاون لئی گُل خاناں
لیندا مَر گیا اُبھے ساہ
اللہ میاں تھلّے آ
تیرے گھر لئی چندہ منگدے
ڈر دے لوک نہ کولوں لنگھدے
سب نُوں گھر تے دے نہیں سکیا
اپنا گھر تے آپ بنا
اللہ میاں تھلّے آ
نیک محمد کِدھر جاوے
روٹی رزق حلال کماوے
تیرا حُکم تے طیّب روزی
بن گیا اوہدے گَل دا پھاہ
اللہ میاں تھلّے آ
لِکھت ملے تے ملّاں لیکھے
پنج شریعت پان بھُلیکھے
دھی دا کون حلالہ ویکھے
اَپنے جُرم دی دین سزا
اللہ میاں تھلّے آ
ملّاں قاضی ڈھِڈوں کھوٹے
وڈھی کھا کھا ہو گئے موٹے
سچ آکھاں تے مارن سوٹے
مگروں دیندے فتویٰ لا
اللہ میاں تھلّے آ
گلیاں دے وچ پھرے اداسی
پھیرا لا گئی موت دی ماسی
ڈر دی خلقت بن گئی داسی
نکلے وا دے نال تراہ
اللہ میاں تھلّے آ
ویکھ وڈیرے غدر مچاندے
دھیاں نال قرآن نکاحندے
پتراں لئی دِت دات بچاندے
دھی دا حصہ لین لُکا
اللہ میاں تھلّے آ
ویکھ اپنے نیکاں دا کارا
مال یتیماں کھا گئے سارا
اِک بیوہ دا ڈھا کے ڈھارا
دِتّی اِک مسیت بنا
اللہ میاں تھلّے آ
اِک بیوہ دا پتّر مویا
آن شریکا کٹھّا ہویا
کجھ تے لگ گیا گور کفن تے
باقی گیا شریکا کھا
اللہ میاں تھلّے آ
پِنڈاں دے پنڈ خالی ہو گئے
لکھاں ہتھ سوالی ہو گئے
کاں باغاں دے مالی ہو گئے
بُلبل لئی نیں پنجرے پا
اللہ میاں تھلّے آ
اَرباں ہتَھ کرن مزدوری
چَند کھاندے نیں گھیو دی چُوری
رزق حلال نہ پیندی پُوری
اوکھے ہو گئے لینے ساہ
اللہ میاں تھَلّے آ
جو کوئی گل لوکائی دی کردا
فاقے دکھ ہٹائی دی کردا
جابر نال ڈٹائی دی کردا
اوہنوں دینے دار چڑھا
اللہ میاں تھَلّے آ
لا قانون دی بالا دستی
بالا دَستاں لئی اے سستی
بِن پیسے دے مِٹ جائے ہستی
ماڑے نُوں نہ مِلن گواہ
اللہ میاں تھَلّے آ
ہے تُوں ہر تھاں حاضر ناظر
فیر وی تگڑے فاسق فاجر
کئی کئی عُمرے کر کے تاجر
کیویں لیندے ٹیکس لُکا
اللہ میاں تھلّے آ
کیوں کیتے نی ماڑے پیدا
کیہ سی تینوں ایہدا فیدا
نہ کوئی کُلیہ نہ کوئی قیَدا
تگڑے لیندے لُٹ لُٹا
اللہ میاں تھلّے آ
(سائیں اختر لاہوری مرحوم)
اگر ذمہ داران کی بات کریں تو اس طرح کے واقعات کے سب سے بڑے ذمہ دار حکمران طبقہ اور اشرافیہ کا وہ طبقہ ہے جو ناجائز طریقوں سے اپنے محل کھڑے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ریاستی مشینری اپنے شہریوں کو جائز حقوق دینے میں ناکام ہورہی ہے۔ ہم ہمسایوں اور امیر طبقے کو کوس کر چپ کرجائیں  گے لیکن اپنی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے اصل ذمہ داران کو کچھ نہیں   کہیں گے۔ ہر دور میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں بلکہ دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے مذہبی حلقوں کو بھی اپنے کردار پر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ جب جب حکومتوں کی طرف سے آبادی کنٹرول کرنے کے حوالے سے پروگرام لانچ کیے گئے۔ ان کی طرف سے تنقید کا نشانہ ہی بنایا گیا۔ جذباتی بیان دیے جاتے ہیں لیکن رد میں عقلی دلیل کبھی نہیں دیے  گئے ۔ شاید راہنما بھول جاتے ہیں کہ بھوک عقیدے نہیں دیکھتی۔ لوگ اپنے وسائل کی پرواہ کیے بغیر سات سات آٹھ آٹھ بچے پیدا کرلیتے ہیں پھر ان کو پالنے کے مسائل درپیش آتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں پر اشرافیہ مختلف اکائیوں کا ایک گروہ ہے جس میں بیوروکریسی، سیاستدان، عدلیہ، دفاع، مذہبی راہنما، قوم پرست، سوشلسٹ اور لبرلز غرض ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ جیسے فلور مل میں مختلف جسامت کی چھلنیاں استعمال ہوتی ہیں جن کی مدد سے ایک دانہ سے مختلف اقسام کا آٹا علیحدہ کیا جاتا ہے اسی طرح اشرافیہ نے عوام کو قابو کرنے کے لیے مختلف قسم کی چھلنیاں لگائی ہوئی ہیں۔ سب سے اوپر مذہب اور فرقہ واریت کی چھلنی ہے یہاں پر مذہب کے نام پر لوگوں کو قابو کیا جاتا ہے۔ پھر فوجی محبت کی چھلنی ہے ادھر جہاد اور غدار والی سکیم چلائی جاتی ہے۔ اسکے بعد آتی ہے سیاسی چھلنی یہاں پر لوگوں کو سیاست کے نام پر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ ان سب چھلنیوں سے چھننے کے باوجود بھی جو لوگ بچ جاتے ہیں انہیں قوم پرستی، سوشلزم یا لبرلزم کی آڑ میں قابو کرلیا جاتا ہے۔ ہم پوری زندگی ان کے دیے جھوٹے دلاسوں اور عقائد پر لڑتے گزار دیتے ہیں۔ ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں ہمیں ہماری محرومیوں کا جو جواز تھما دیا جاتا ہے اور ہم اس پر پوری زندگی اپنا سر دھنتے رہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply