غلط بخاری۔۔انعام رانا

بخاری کب اور کیوں میرا دوست بنا ،یاد نہیں۔۔البتہ بہت کم لوگ اتنا جلد اتنا قریب آئے یہ یاد ضرور ہے۔ ویسے بھی اس میں زیادہ کریڈٹ سید مہدی بخاری کو ہی جاتا ہے کیونکہ وہ دوست بنتے ہی آپکی زندگی پہ چھا جاتا ہے۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کس بلا کو گلے لگانے لگے ہیں۔

کہتے ہیں پرانے وقتوں میں اک دن ایک جاٹ نے اپنے بیٹے کو سخت سست کہا۔ اب ابّے سے بے عزتی کچھ ایسی روایت ہے کہ جس پہ برصغیر کا بیٹا ہزاروں سال سے کاربند ہے۔ سوائے کڑھنے کے کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ سو یونہی کڑھتے ہوے پتّر جاٹ ٹریکٹر پہ چڑھ بیٹھا کہ آج سہاگہ میں پھیروں گا، تاکہ ابے کو میرا وجود کسی قابل تو لگے۔۔ اب لاڈوں پلے نے پہلے کبھی ٹریکٹر چلایا نہ تھا ،سو کبھی حویلی کی دیوار پہ مارا، کبھی کسی غریب کی چھت گرائی تو کہیں راہ چلتوں کی دوڑ لگوا دی۔ بالآخر ٹریکٹر رکا تو ابا جاٹ نے زبانی ہی نہیں عملی طور پہ بیٹا جاٹ پہ تشدد کے تمام حربے آزمائے۔ کچھ دن بعد جب چوٹیں  ذرا بہتر ہوئیں، تو بیٹا جاٹ نے طے کیا کہ اب تو کچھ تجربہ بھی ہے تو ٹریکٹر پہ چڑھ بیٹھا۔ راوی کہتا ہے کہ بس ٹریکٹر سٹارٹ کرنے کی دیر تھی، گاؤ ں میں کسی نے آواز لگائی “جٹاں دا منڈا ٹریکٹر تے بہہ گیا جے”، بس پھر گاؤ ں  پہ جیسے قیامت کا سماں تھا۔ جس کا جدھر کو منہ تھا دوڑ پڑا۔ گھروں میں موجود خواتین چھتوں پہ چڑھ گئیں اور راہ گیروں نے ٹریکٹر دیکھتے ہی کھالوں میں چھلانگ لگا دی۔

بخاری جب بھی فیس بک پہ آن لائن آتا ہے، سمجھدار لوگ وہی ری ایکشن دیتے ہیں جو جٹوں کے منڈے کے ٹریکٹر پہ چڑھنے پہ گاؤں والوں نے دیا تھا۔

بخاری جتنا آنلائن ہوتا ہے، شاید فیس بک کا بیسٹ ورکر آف دا ایئر بھی نہیں ہوتا۔ آپ کسی وقت بھی فیس بک پہ آئیے، بخاری موجود ہو گا۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ پوری ٹیم ہے جو بخاری کا اکاؤنٹ  چلا رہی ہے۔ ویسے بھی فیس بک کو جتنا سیریس بخاری لیتا ہے شاید خود مارک زکر برگ بھی نہیں لیتا۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر کچھ ماہ بعد بخاری کو ڈپریشن کا دورہ پڑتا ہے اور فیس بک اکاؤنٹ بند کرنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ اب یہ بریک بخاری فیس بک سے لیتا ہے یا اس دوران نیا کانٹینٹ تلاشتا ہے، خدا جانے۔ ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد آپ کو بخاری کی نئی پوسٹ ملے گی جو اتنی لمبی ہو گی کہ لکھتے ہوے آدھ گھنٹہ  تو لگے، اس دوران وہ پچھلی پوسٹ کے کمنٹس کے جواب بھی دے گا، دوسروں کی وال پہ اپنا تبصرہ بھی دے گا اور انباکس قریبی دوستو کو کئی  پوسٹوں پہ تبصرے بھی کرے گا۔ فیس بک اگر سمجھدار ہو تو یو این او کی مانند بخاری کو اٹھا لے، پاکستان میں بخاری سے بڑا فیس بک یوزر شاید ہی کوئی ہو۔

بخاری فیس بک کو اتنا سنجیدہ لیتا ہے کہ سمجھتا ہے کہ ہر بات اسکی وال پہ ہونی چاہیے۔ آپ جو مرضی بات کر لیں، کچھ دیر بعد وہ واقعہ وہ بات آپکو بخاری کی وال پہ اسکے الفاظ میں نظر آئے گی۔ کیونکہ وہ صدق دل سے سمجھتا ہے کہ بات کہنے کا ہنر اسے ہی آتا ہے اور جب تک کوئی واقعہ کوئی خبر اسکی وال پہ نہیں ہو گا، وہ درست ابلاغ نہیں  ہو پائے گا۔ سچ پوچھیے تو اب میں زیادہ فیس بک دیکھتا ہی نہیں، بس ہر دو چار گھنٹے بعد بخاری کی وال دیکھ لیتا ہوں کہ فیس بک پہ جس نے جو بھی کہا ہو گا، بخاری کی وال پہ آ ہی گیا ہو گا۔

بخاری اپنی تعریف کا شوقین ہے، سراہا جانا پسند کرتا ہے۔ بلکہ اس بابت آپ جھوٹ بھی بول دیں تو بخاری اعلی ٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  آپکو جھوٹا ہرگز نہیں کہے گا۔

یادش بخیر دو سال قبل لاہور گیا تو اپنے گھر کچھ قریبی دوستوں کو مدعو کیا۔ بخاری کا تعارف باقی دوستوں سے کرانے لگا تو شرارت سوجھی۔ کہا “یہ سید مہدی بخاری ہیں، بہت کمال فوٹو گرافر، یہ آجکل یو پورن پہ پاکستانی فلمیں بناتے ہیں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کی”۔

ہمارے معصوم ترین عاصم اللہ بخش بولے ماشااللّہ۔ اب انکی جانے بلا کہ یو پورن کیا ہے۔۔۔ شاید یو ٹیوب سمجھے ہوں۔ راہ جاتی لڑکی، سواری یا جانور میں بھی کوئی نیا کاروباری پہلو نکالنے والے ابن فاضل نے بھی سراہنے کے انداز میں سر کو ہلایا۔

اب کوئی اور ہوتا تو فورا تصحیح کرتا، مگر بخاری “انکسارا” مکمل خاموش رہا کہ دو معزز بندوں نے تعریف کر دی تھی۔ وہ تو برا ہو یاسر علی اور خرم مشتاق کا جو ہنس پڑے اور مجھے مزاح کی تشریح کرنا پڑی۔ ویسے اس بہانے یہ تو پتہ چلا کہ یو پورن کون کون دیکھتا ہے۔

بخاری انتہائی معصوم آدمی ہے۔ وہ پاکستان کا ایک بہترین فوٹو گرافر ہے، بہت اچھا لکھاری ہے۔ وہ اتنا معصوم ہے کہ اسکو لگتا ہے  ہر  واقعہ اسکے ساتھ پیش آیا ہے وگرنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ ہو۔ ویسے بھی وہ فطرتا ً قصہ گو ہے، بہترین قصہ گو۔ چنانچہ چشم تصور سے آپ جو کچھ بھی سوچ سکتے ہیں، وہ بخاری کے ساتھ پیش آ چکا ہے۔ اگر نہیں بھی آیا تو جیسے ہی کسی نے لکھا، پیش آ جائے گا۔ اک بار کسی نے کہا یار ایک یہ بخاری ہے، اک وہ اپنے بخاری شریف والے ہیں۔ میں نے کہا مجھے تو اب لگتا ہے  کہ وہ بھی اپنے دور کے مہدی بخاری ہی تھے۔ خیر، اسکے ساتھ ساتھ وہ دوسروں سے پیار کرنے والا ہے۔ وہ دوسروں سے اتنا پیار کرتا ہے کہ انکو پروموٹ کرنا چاہتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اگر وہ کسی کو اپنا شاگرد کہے گا تو وہ پروموٹ ہو گا۔ چنانچہ آپ پاکستان کے کسی بھی ٹریولر یا فوٹوگرافر کا نام لیجیے، بخاری  آپ کو بتائے گا کہ وہ اس کا شاگرد یا شاگردہ ہے اور اس نے ان کو ابتدائی تعلیم تو کم از کم دی ہی ہے۔ اب اگر وہ مذکورہ بندہ یا بندی بخاری کا نام سن کر “کون بخاری؟” کہے، تو یہ انکی کم ظرفی ہے۔

بخاری کی دوستی کیا ہے، ابھی اسکا تعین ہو ہی نہیں سکا۔ وہ ایک ایسا دوست ہے جو بے لوث ہے، آپ سوچیں گے کہ یار اتنا تو میری بیوی یا اولاد بھی بے لوث نہیں ہے۔ مگر پھر بخاری آپ پہ لکھے گا اور آپ اس دن پہ لعنت بھیجیں گے جب  آپ نے بخاری سے دوستی کا سوچا تھا۔ سنا ہے منٹو صاحب نے جب خاکے لکھنے شروع کیے تو کسی نقاد نے کہا تھا کہ منٹو جس شاہراہ پہ تم نے بابو موذیل اور کالی شلوار جیسے مجسمے نصب کر رکھےبہیں، آج ایک بوتل کی خاطر تم اسی   شاہراہ پہ دوستوں کا کفن بیچ رہے ہو۔ با خدا منٹو تو طفل مکتب تھا۔ دعا کیجیے آپ پہ قتل کا مقدمہ ہو جائے، آپ کاروکاری میں مارے جائیں، آپ کی بیوی کسی کے ساتھ بھاگ جائے،  آپ کو کوڑھ ہو جائے مگر بخاری کہیں آپ پہ لکھنے نہ  بیٹھ جائے۔

آپ بخاری کو دوست سمجھتے ہیں، آپ اس سے دل کی بات کرتے ہیں، بخاری بہترین دوست ہے وہ آپکی دلجوئی کرے گا، مدد کرے گا مگر پھر بخاری لکھنے بیٹھ جائے گا۔ اور بخاری مکمل یقین رکھتا ہے کہ لکھتے ہوئے  فقط قلم اہم ہے، بات اہم ہے، اور آپ فقط کیریکٹر۔ جو بات آپ اپنے فرشتوں سے چھپاتے تھے، اب پوری دنیا سنے گی۔ بخاری کا لکھا اور سانپ کا ڈسا ایک برابر نہیں ہیں، سانپ کا ڈسا پھر  بھی بچ سکتا ہے۔

ابھی میں نے معصومیت کی  بات کی، بخاری اتنا معصوم ہے کہ کچھ دن قبل، یاسر علی پہ لکھے مضمون پر اسے محاورہ سنایا کہ یار بخاری کچھ دوستو کے بارے میں بہت گندی مثال ہے کہ “شالا ماں دا یار مل جائے، بچپن دا یار نہ  ملے”۔ بخاری نے بہت انجوائے کیا اور کہا واقعی یار کئی کمینے دوست ایسے ہی ہوتے ہیں۔

بخاری سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ قصہ گوئی اور انسان دوستی سیکھی۔ اس سے سیکھا کہ جب کسی سے دوستی کر لو تو اپنا  آپ نچھاور کر دو۔ میں نے فقط جھوٹے منہ  سے کہا ،یار اپنا کام میرے نئے پراجیکٹ کیلئے دے دے، بخاری نے لاکھوں کا کام مجھ پہ نچھاور کر دیا، بنا کسی صلے کے۔ میں نے کہا بخاری چل وادی سون چلیں، بخاری نے گاڑی نکال لی۔ کہا بخاری چولستان جانا ہے، بخاری ویلنٹائن ڈے پہ بیوی چھوڑ کر میرے ساتھ چل پڑا اور ریت میں خوار ہوتا رہا۔

ویلنٹائن ڈے سے یاد آیا کہ اس دن میں  نے بھی  اک سبق سیکھا۔ بخاری خوبصورت بھی ہے اور معروف بھی۔ اب ان دو کوالٹیز کے ساتھ بندہ خواتین میں دل پسند بھی ہو جاتا ہے۔ معروف تو اتنا ہے کہ اک خوبصور خاتون مجھے ٹریپاکو پراجیکٹ کیلئے ملیں ، اور کہا آپکو جانتی ہوں، آپ مہدی بخاری کے دوست ہیں نا۔ خیر، چولستان سے واپسی تھی اور دن تھا ویلنٹائن کا۔ بخاری کا فون ہی بجنا بند نہ  ہو۔ مہدی آپ کب آئیں گے۔ مہدی آپ تھک گئےہوں گے، گھر جانے سے قبل ملیں آپ کا مساج کر دوں۔ جیلسی کی انتہا کو پہنچ کر میں چیخ پڑا کہ کمینے مانا میرے بال کچھ کم ہیں، رنگ تجھ سے کچھ سانولا ہے مگر چار لوگ مجھے بھی پڑھتے ہیں۔ مجھے تو سگی بیوی کی کال نہیں آئی اور اک تو ہے کہ کال پہ کال۔ بخاری نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا سبق سکھایا۔ اس نے کہا کہ تو ہر وقت اپنی بیوی کی تعریف کرتا ہے، اپنی خانگی زندگی کی تعریف کرتا ہے، تجھے کال خاک آئے گی۔ کال انکو آتی ہے جنکی شادی شدہ زندگی بہت بری ہوتی ہے کہ ہر عورت میں اک مامتا ہے اور وہ ماں فقط مظلوم کیلئے جاگتی ہے چنانچہ اب میں بھولے سے بھی اپنی بیوی کی تعریف نہیں کرتا بلکہ اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو اگلے سال تک کوئی نہ  کوئی “ماں” میرے لئے بھی جاگ جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تمام تر مضمون کے باوجود، حقیقت تو یہ ہے کہ بخاری وہ ریچھ ہے جو سندر عورت کے پیر چاٹ لے تو وہ اس ریچھ کی داسی بن جاتی ہے۔ بخاری کی دوستی ایسا ہی ریچھ ہے۔ یہ جس کو نصیب ہو جائے وہ کسی اور کا نہیں رہتا۔ آپ بخاری کے قلم سے لاکھ خوفزدہ ہوں، آپ کو بخاری پہ ہزار غصہ آئے، مگر ایک بار اگر بخاری آپ کی زندگی میں آ گیا ہے، تو پھر اسکے بنا زندگی نامکمل ہے، اس سے بات کیے بنا، اس سے ملے بنا آپ ہوا میں ایک کٹی پتنگ کی مانند ڈولتے رہتے ہیں، جو فضا کی تنہائیوں میں کسی ڈور ،کسی ہاتھ کی محتاج ہوتی ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply