کرونا وائرس اور قومی صورتحال۔۔حسان عالمگیر عباسی

کرونا وائرس نے پوری دنیا کو جہاں جکڑ لیا ہے، وہیں پاکستان بھی اس کی پکڑ میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں ایک یا دو کیسز کا سامنے آنا تھا اب ہزاروں کی تعداد تک پہنچتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ چین کو جو حضرات عذاب الٰہی کا مستحق سمجھ رہے تھے وہ عذاب اب ان کے گھر کے دروازوں پر  دستک دے رہا ہے بلکہ یوں کہیں کہ اس کی شدت کی انتہا دروازہ توڑنے کی جسارت کر رہا ہے۔ عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب میں جہاں مایوسی کا اظہار کیا ہے وہیں اس بات سے بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ ان کی مایوسی بجا ہے۔ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان وبائی امراض کو دماغ سے شکست دے سکیں۔ انھوں نے اس مایوسی کا اظہار اس لیے کیا ہے کیونکہ ایک نااُمید شخص سے نواُمیدی کی امید باندھنا امیدوں پہ پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ ہم اپنی دماغی صلاحیتوں کو لیبارٹریز میں استعمال کرنے کی بجائے دوسروں کو نیچا دکھانے اور تیزی سے کامیابی کے قدم چومتے اشخاص کے راستے میں روڑے اٹکانے میں صرف کرتے ہیں۔

ہم وہ ہیں جو اس قومی بحران میں بھی ایک قوم نہیں بن سکتے۔ جو شیعہ دشمن ہیں ان کی ساری طاقتیں ایران سے آئے زائرین کو گالم گلوچ کرتے جبکہ جو آل سعود سے چڑتے ہیں وہ سعودی عرب سے آئے حضرات پر تیروں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ ہم کبھی بھی ایک قوم نہ تھے ،نہ کبھی ہوں گے کیونکہ دشمن نہیں چاہتا کہ ہم ایک پیج پہ جمع ہوں۔ ہم سیاسی ،مذہبی ،معاشرتی ،تعلیمی اور دیگر تمام سطحوں پر تقسیم شدہ ہیں۔ یہ اختلاف اگر برائے اصلاح ہوتا تو آج ہم اختلاف رائے پہ اتفاق کر لیتے اور ایک قوم بن جاتے لیکن چونکہ تعصب ،بغض اور حسد لا علاج مرض ہیں لہذا قوم بن جانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ایسے میں ایک وزیر اعظم سے اسی مایوس کن تقریر کی امید تھی جو ہم نے سنی۔ انھیں معلوم ہے کہ یہ قوم محض ان کے اکسانے پر اپنے مختلف الخیال حضرات کی ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں تک کی عزتیں پامال و نیلام کرنے پہ اتر جانے سے نہیں کتراتی۔ عمران خان صاحب نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے قوم کو وائرس سے خود نپٹنے کا حکم صادر کیا ہے۔ جہاں تک بات احتیاط کی ہے خان صاحب نے ‘ہاتھ کیسے دھونے ہیں’ سے لے کر ‘میل جول سے اجتناب’ تک اور ‘دعاؤں کے سہاروں’ سے ‘تقدیر کے فیصلے’ تک سب قوم کو بتا دیا ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے کیسی تدابیر اختیار کرنی ہیں ،عملاً سندھ حکومت اور الخدمت فاؤنڈیشن نے بتایا ہے۔

ان شدید خطرات کی گھنٹیوں کی سنوائی میں تعلیمی اداروں کی بندش حکومت کا بروقت و برمحل فیصلہ ہے۔ لاک ڈاؤن کا اطلاق وقت کا تقاضا تھا جو پورا کیا گیا لیکن میدان عمل میں جو حضرات کام کرتے دکھائی دیے وہ مراد شاہ صاحب کے اقدامات ہیں۔ جس جماعت کو منافقت اور وکٹوں کی دو طرف کھیلنے کے طعنے ملے ،انھوں نے واقعتاً ثابت کیا ہے کہ وکٹوں کے دو طرف کیسے کھیلا جاتا ہے۔ بیک وقت صدر پاکستان کی درخواست اور حکومت کی نااہلی کے اعتراف کے بعد اور پیپلز پارٹی کی التجاؤں کے بعد جماعت اسلامی نے وکٹوں کے دو طرف کھیل کر قوم کو ششدر کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب ،مراد شاہ صاحب ،صدر علوی صاحب اور کے پی حکومت کی جانب سے الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات کا حصول بتاتے ہیں  کہ حل صرف جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کو آپ جتنا بھی برا بھلا کہہ لیں لیکن یہ وہ شجر ہے جو سنگباری برداشت کرنے کے باوجود ملک و قوم کو پھل اور سایہ فراہم کرتا ہے۔ الخدمت نے اسلام آباد سے کراچی تک ،لاہور سے ملتان تک اپنے تمام ہسپتالوں کو حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ جماعت نے اپنے تمام تر رضاکاروں کو خدمت خلق کی  خاطر گلیوں کوچوں میں پھیلا دیا ہے۔ وہ بھول گئے ہیں کہ ان کے بچے بھی ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ یہ لوگ کسی قسم کی لالچ کے بغیر عوام کو ریلیف فراہم کرنے سروں پہ کفن باندھنے سے نہیں کتراتے۔

اس عوام کی حیثیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ محسنوں سے ماسک لینے کے بعد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ماسک پہ ترازو کا نشان سیاسی ہتھکنڈا ہے۔ ان کے اوقات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے فری کورونا ٹیسٹ کے بعد یہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی اس موقع پر سیاست چمکانے میں مصروف ہے۔ ان کو بتانے کی ضرورت ہے کہ سیاست کسی گالم گلوچ کا نام نہیں بلکہ عوام کو مشکل اوقات میں ریلیف دینے کا نام ہے ،جماعت کی سیاست کسی فرد یا جماعت کی خوشی نہیں بلکہ ان کی خدمت کے بعد رضائے الٰہی کا حصول ہے وگرنہ ان رضاکاروں اور بے لوث جماعت کے بغیر کئی ہزاروں کے کورونا ٹیسٹ اور عمران خان صاحب کی زندگی کے اچھے اقدامات میں سے ایک شوکت خانم ہسپتال میں مہنگا کرونا ٹیسٹ اس بات کی دلیل ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور۔ سندھ حکومت کی طرف سے بجلی اور گیس کے بلوں میں نرمی کی خبریں خوش آئند ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ پانچ ہزار سے کم بلوں پر ریلیف دیا جائے گا۔ مراد شاہ صاحب یقیناً اس کامرانی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ خان صاحب نے آنکھیں بند کر کے اور وقت کی اشد ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ تو کر لیا ہے لیکن ان اقدام کی وجہ سے متاثر ہونے والی غریب طبقے کے لیے کسی قسم کے راشن اور فوڈ پیکجز کی عدم فراہمی حکومتی نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔ دوسری جانب وہ جماعت اور ان کے امیدوار جن کی ضمانتیں ضبط ہوتی ہیں میدان عمل میں موجود ہیں۔ اپنے تمام ہسپتالوں کو حکومت کے حوالے کیا ،صابن دیے ،سینیٹائزرز اور ماسک عوام تک فری یا انتہائی کم نرخوں پر پہنچائے۔ سراج الحق صاحب کی جانب سے بذات خود عوامی خدمت دیکھنے کو ملی جب وہ سڑکوں پر عوام کو صابن اور سینیٹائزرز دیتے دکھائی دیے۔ غریبوں تک فوڈ پیکجز کی رسائی جماعت اسلامی کی کامیابی پر مہر ثبت کر گئی۔ اس جماعت نے اہلیت اس وقت ثابت کر دی تھی جب نعمت اللہ خان صاحب مرحوم کو مشرف صاحب نے یہ کہا کہ ان میں صرف ایک کمی ہے کہ وہ ‘جماعت اسلامی’ سے منسلک ہیں لیکن اس قومی بحران میں حکومت کے شانہ بشانہ بلکہ کئی قدم آگے بڑھ کر عوامی خدمت صلاحیت کے لوہے منوا رہی ہے۔

جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف اپنی سیاسی مہم کا آغاز کیا تو ان بے ضمیر حکومتوں نے کشمیر کا سودا کر لیا ،ایسے میں مہنگائی مہم کو کشمیر سے یکجہتی میں بدل دیا۔ مہنگائی کے خلاف دوبارہ مہم کا آغاز کیا تو کرونا وائرس کا عذاب الٰہی نازل ہونے لگا۔ دنیا اور پاکستان کے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اس مہنگائی مہم کو کرونا آگاہی مہم ،رجوع الی اللّٰہ مہم اور حفاظتی انتظامات و اقدامات میں بدل کر ثابت کر دیا کہ مشکل گھڑی میں عوام کا ساتھ نبھانے کا سہرا جماعت اسلامی کے سر ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم بن کر جماعت کے ساتھ قدم ملا کر حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ عربی میں کہتے ہیں کہ ‘الوقایة خیر من العلاج’ کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ کرونا وائرس لاعلاج بیماری ہے یا یوں کہیں کہ اس کا علاج صرف احتیاط ہے۔ احتیاط ضرور کریں لیکن ان لوگوں پر بھی نظر جمائے رکھیں جو ذخیرہ اندوز اور چور لٹیرے ہیں۔ ان سرمایہ دارانہ نظام کے پجاریوں اور دوغلے لوگوں کو برہنہ کرنا بھی قومی فریضہ سمجھیں۔ ساتھ ہی غرباء اور سفید پوش لوگوں تک پہنچیں۔ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو اپنا مال اور زکوٰۃ ان تنظیموں کے حوالے کریں جو واقعتاً غریب کی جیب کاٹنے کی بجائے بھرتی ہیں۔ الله تعالیٰ سے ضرور دعا کریں لیکن اونٹ کو باندھیں اور جنگ لڑنے کے لیے گھوڑے باندھ کے رکھیں۔

اس سے بھی زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ اس بحث سے باہر تشریف لے جائیں کہ شہباز شریف صاحب ڈرامہ رچانے آئے یا اس مشکل وقت میں قوم کے ساتھ قدم ملانے ،یہ بھی بحث لاحاصل ہے کہ ڈاکٹرز کسائی ہیں یا مسیحا ،اس سے بھی دور رہیں کہ طارق جمیل صاحب سیاست کے امین ہیں یا دشمن ،یہ بھی لاحاصل گفتگو ہے کہ کرونا عذاب ہے یا محض دنیا کو جکڑنے کے لیے دجالوں کی دجالی چال ،یہ بھی فضولیات میں سے ہے کہ زائرین کو آنے دے رہے جبکہ چین میں محصور پاکستانیوں کو روکا گیا ،یہ بھی غلط ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں خدمت کر رہی یا سیاست چمکا رہی ،یہ موضوعات اہم ہوسکتے ہیں لیکن جب قوم مشکل وقت سے گزر رہی ہو تو ‘قوم’ بن جانا ہی قومیت کہلاتی ہے۔ عمران خان صاحب کو اور ان کی جماعت کو ،البتہ ،جگانا اور سیدھا راستہ دکھاتے رہنا وقت کا تقاضہ ہے۔ وگرنہ یہ حکومت واحد حکومت ہے جس کی سیلیکشن اہلیت نہیں بلکہ کسی خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کی گئی ہے۔ سلیکٹرز خود بھی حیران ہوں گے کہ وہ ایسی غلطی کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وردی والے اپنے ہسپتالوں کو عوامی خدمت کے لیے وقف کر کے اپنے اوپر لگے ‘گاؤ ماتا’ کے الزام کو دھو ڈالیں۔ دماغ کے سازشی خانے کو بھی چست رکھیں۔ اس سازشی دنیا اور دجالی دور میں ‘سب اچھا ہے’ کی رٹ لگانا کم عقلی اور سادگی ہے۔ اس سازشی خانے کی چستی کے ساتھ ساتھ اپنے حصے کے کام میں سستی بھی نہ دکھائیں کیونکہ شاعر کا کہنا ہے کہ امر ضروری یہی ہے کہ :

Advertisements
julia rana solicitors

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply