وارداتیا

بلدہ ولایت نشاں المعروف بملتان ایک زمانے سے غرقابِ بحرِ معاصی، بندہ ناچیز کے حواس پر سوار ہے. جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس شہر کی طرف ہمارا اتاؤلا ہونا کچھ حصولِ روحانیات یا صحبتِ اولیاء کی خاطر قطعًا نہ تھا.
بناتِ حوا جو کرہ ارض پر تجاذبِ اشیاء کے قانون کی سب سے بڑی مثال ہیں، یہی بناتِ حوا علویات و سفلیات کے لیے معلوم اسباب و مخارج میں بڑا مخرج و سبب ہے.
علویات کے ذیل میں عشق، رفق، تلطف، نرم خوئی و ایثار جیسے لطیف جذبے شمار کیے جاسکتے ہیں جن کا محرکِ اعظم وجودِ زن ہی ہے.
سفلیات میں ہوس، حرص، سفکِ دم، حرب و جدل، خود فراموشی و خدا فراموشی اور تجاوز عنِ الحدود جیسے پست جذبات ہیں جن کا بھی محرکِ اکبر وجودِ زن ہی ہے.
ہم کہ بنی آدم ٹھہریں ہیں اور کم از کم ایک صفت میں کمال رکھتے ہیں، جان رکھیے کہ وہ صفت تمام بشری خامیوں میں رسوخ رکھنے کی ہے. بنا بریں صنفِ نازک سے پھوٹنے والے ہر دو روحانی اور پاتالی لطائف و کثائف کا اولیں استحقاق اور سبقتی احتیاج بھی ہم ہی رکھتے ہیں.
کاش کہ بلدہ مذکورہ میں بھی کوئی جاذبِ نظر حور نہ سہی عکسِ حور ہی ہم پر مہربان ہوتی تو اب تک واردینِ ملتان میں ہمارا نام بھی شامل ہوکر نامِ نامی بن چکا ہوتا.
پر یوں قسمت کو منظور نہ تھا اور ملتان کی باصفا مٹی سے جو ہمیں نسبت رہی، لے دے کر کچھ عالی صفت اور بلند مرتبت اصحاب کے آبجوئے رخ سے چشمِ عطشاں کی سیر چشمی ہی ٹھہری.
انہی اصحابِ باصفا میں سے اپنے حافظ صفوان صاحب بھی یکے از در ہائے بے مثل کے طور اپنی شہرت رکھتے ہیں. راہِ سلوک میں ہماری تاثر پذیری کے لیے شرطِ اولیں دامن کا خشک ہونا نہیں بلکہ دامن کی ایسی تری ہے کہ جب اور جہاں عندالضرورہ دامن نچوڑا جائے، ملائکہ اس نچڑن سے ہی غسل و وضو کا اہتمام فرمائیں. بقول مولانا آزاد کے اس راہ میں دامن کو راہ کی چھینٹوں سے بچانا مقصدِ اصلی نہیں بلکہ جتنا دامن تر ہوتا چلا جائے ہونے دیجیے. کمال یہ ہے کہ جب واپسی کی ٹھان لی جائے تو دامن نچوڑنے کی سکت ایسی ہو کہ ایک ایک قطرہ نچڑ کر رہ جائے. اپنے حافظ صاحب ایسے ہی ہیں…
ان کا پہلا تعارف ہمیں تب نصیب ہوا جب کچھ وحشی آدم خوروں میں ان کو گھرا دیکھا. ہم نے دیکھا کہ کچھ سفید لباسوں میں ملبوس حافظ صاحب کا ماس دانتوں سے نوچ رہے ہیں. ان کچا گوشت کھانے والوں سے کچھ ورے عمامے سجائے، ہاتھ میں تسبیح کے دانے رولتے پھرولتے کچھ بدتہذیب جنگلی بیٹھے تھے جو اپنے دانت تیز کررہے تھے. کچھ شب بیدار اور ماتھوں پر محراب سجائے ہوئے بدبودار زبانوں والے ان کا خون پی رہے تھے.
ان میں سے ہر نوچنے والے اور خون پینے والے کی ہر ہر ادا پر کچھ تماش بین سبحان اللہ، ماشاء اللہ کی صدائیں بلند کر رہے تھے. مجلس کے آخر میں میرِ مجلس نے…. جو خیر سے مفتی تھا…. سب کو حافظ صاحب کی ماں بھین کرنے پر جنت کی نوید سنائی.
اس دن کے بعد سے ہم نے ان کا حرف حرف بغور دیکھنا شروع کیا. یہیں سے ہماری باقاعدہ بربادی شروع ہوئی. ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں بالکل دیری نہ لگی کہ بظاہر ان کا طریق مذہب بیزاری اور استہزاءِ ساکنانِ قصرِ مذہب لیکن بباطن مکمل ذمہ داری کے ساتھ وہاں دین داری کی شمع جلانا ہے جہاں خدا کو دربدر کیا گیا ہے. ان کا طریقہ واردات اچھوتا ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے. یہ آپ کے اندر موجود مولوی بیزاری، مذہب سے نفرت اور خدا سے ناراضی کو بار بار بالقصد اس قدر بلواتے ہیں کہ آپ کی ساری نفرت اور غصہ کب بہہ نکلتا ہے، آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی. اور پھر ایک آدھ بہت معمولی جملے سے آپ پر وار کرکے بےخبری سے آگے بڑھتے ہیں.
مجھ سے اتفاق کرنے والے بہت کم اور اختلاف کرنے والے بہت زیادہ ہوں گے. زمانہ کچھ اس سرعت سے گام کو تیز چلنی، آہستہ گامی کو تیز روی، ٹھہراؤ کو حرکتِ مسلسل پر مجبور کرچکا ہے کہ اب کسی شخص کو رک کر سانسیں درست کرنے کی بھی مہلت نہیں ملتی. اب کسی اپنے بہت قریبی کے بچھڑنے پر بیٹھ کر سوگ منانے کا بھی وقت نہ رہا. ایسے تیز رفتار اور اپنے دکھ سکھ سے بیگانہ کر دینے والی زندگی میں حافظ صاحب وہ شخصیت دیکھی جو مذہب کی چھتری تلے جاری ہوس زادوں کی شب گزاریوں پر آنکھوں میں خوننابے جاری رکھنے کی روایت کا احیاء کرتے ہیں.
حافظ صاحب کی شخصیت کا سب سے واضح اور عیاں رخ ان کا متضاد الجہات اور زمہریری الاؤ جیسی شخصیت ہے. اپنے نیک نفس اور بلند پایہ والد گرامی پروفیسر عابد صدیق کی تربیت کا روشن نمونہ اور ادب و مذہب کی نمایاں ہستیوں میں نشست و برخاست ان کے نیک نام والد کا وہ ورثہ ٹھہرا جسے انھوں نے دانتوں سے تھام رکھا ہے. تبلیغی جماعت کی نمایاں ہستیوں اور بڑوں کی نظرِ عنایت اور توجہات کا فیض انھیں ہمیش حاصل رہا ہے.
دوسری جانب وہ ادب کے میدان میں نامیدہ اشخاص سے نیازمندی اور بہت سوں سے معاصرانہ چشمک و رفاقت کا شرف رکھتے ہیں. آپ قبلہ شان الحق حقی، مرشد مشتاق احمد یوسفی، آقائی مختار مسعود اور مرحوم مشفق خواجہ جیسی سند ہستیوں سے دادِ نیاز مندی وصول کرچکے ہیں. عالمی سطح پر ان کا شہرہ آفاق کام انگریزی اردو لغت کی تدوین میں شرکت کا قابلِ ذکر کارنامہ ہے جس کی خصوصی داد پروفیسر نوم چومسکی بھی دے چکے ہیں. ملکی و علاقائی رسائل میں تکنیکی مہارتوں اور مشینی تراجم پر ان مضامین ایک الگ نوع کی مصروفیت ہے جو ان کی گوناگوں شخصیت سے تعارف دلاتی ہے.
خداوند ان کا سایہ تادیر قائم رکھے. اور ایسے افراد کی کثرت اس قحط الرجال کے دور میں ارزاں فرمائے.

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply