مذمت کرتا ہوں ۔۔محمد اسد شاہ

بطورِ لکھاری مجھے اس اقدام کی مذمت کرنا  چاہیے ۔ چلیں کر دیتا ہوں ۔ درست ! اب آئیے ذرا پوری بات کی طرف ۔ جب یوسف رضا شاہ وزیراعظم تھے ، 2011 میں اچانک پاکستان کے قلب میں مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں ایک بڑا جلسہ کروایا گیا اور میڈیا پر بھرپور کوریج کے بھی غیر معمولی انتظامات کروائے گئے ۔ وہ سب کس نے کروایا ، کس کے وسائل استعمال ہوئے ، کیوں کروایا ، اس کا حساب کب ہو گا ۔

ان باتوں کو رہنے دیجیے ۔ لیکن اس کے فوری بعد ملک کی دو مقبول ترین جماعتوں کو توڑنے اور دشنام طرازی کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔ سب کو نظر آ رہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (نواز) کی کامیابی یقینی ہے ، اسی وجہ سے نعرے لگوائے جاتے؛ “میاں صاحب جان دیو ، ساڈی واری آن دیو !” لیکن اس طرح کون اپنی پکی پکائی کھیر آپ کے حوالے کر دے ، اور کیوں ! حسب توقع میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئے ۔ لیکن کام جاری رکھا گیا ، بلکہ اس میں تیزی ، تلخی اور تندی شامل کی گئی ۔ سوشل میڈیا سے لے کر سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کے نسخوں تک ، ہر جگہ گالی لکھوائی اور دلوائی گئی ۔

1999 سے 2021 تک ، ایک پیسے کی بھی چوری ثابت نہیں کر سکے ، لیکن بچے بچے کے منہ سے چور چور کہلوانے پر کتنے اخراجات ہوئے ۔ وہی پرانے الزامات جو لیاقت علی خان پر بھی لگائے گئے ، فاطمہ جناح پر بھی ، ذوالفقار علی بھٹو پر بھی ، بے نظیر بھٹو پر بھی ۔۔ یعنی کرپشن اور بھارت کی یاری ، نواز شریف پر بھی لگائے گئے ۔ حالانکہ   کہ بھارت کی یاری کے لیے جنرل پرویز مشرف کس حد تک گر گیا تھا ، نیپال کا دارالحکومت کھٹمنڈو گواہ ہے ۔ پھر جلسوں میں “آگ لگا دو” کے نعرے لگائے گئے ۔ رائے ونڈ کی طرف مارچ کی باتیں کی گئیں ۔ ڈاکٹر کلثوم نواز بستر مرگ پر تھیں تو ہسپتال پر پتھراؤ کروایا گیا ، ان کے بیٹوں اور نواسوں پر حملے کروائے گئے ، نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا ، خواجہ محمد آصف پر سیاہی پھینکی گئی ، زاہد حامد کے گھر پر حملہ ہوا ، پروفیسر احسن اقبال کو گولی ماری گئی ، جاوید لطیف کو تھپڑ مارا گیا ، دانیال عزیز کو لائیو ٹی وی پروگرام کے دوران تھپڑ مارا گیا ، محترمہ مریم نواز کو گالیاں دی گئیں ، منتخب حکومت کو سسیلین مافیا کہا گیا ، وزیراعظم پاکستان کو ڈان کہا گیا ، حافظ حسین نواز کو بنچ پر بٹھا کر تصویر وائرل کی گئی ، پارلیمنٹ پر لعنتیں برسائی گئیں ، سپریم کورٹ کے ججز کو گالیاں دی گئیں ، ان کے راستے روکے گئے ، لوہے کے چنے کہنے پر “سرکاری خرچ پر” ذاتی طنز اور مقابلے کیے گئے ، عدالت عظمیٰ کی دیواروں پر گیلی شلواریں ٹانگی گئیں ، پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ کیا گیا ، نشریات بند کروائی گئیں ، باقاعدہ اوزاروں کے ساتھ پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا ، جنگلے کاٹے گئے اور “کارکنوں” نے رات پارلیمنٹ کے اندر گزاری ، وزیراعظم ہاؤس پر حملے کے اعلان کیے گئے ، پولیس افسران کی ٹانگیں توڑی گئیں ، وزیر داخلہ کو احاطۂ عدالت میں داخل ہونے سے روکا گیا ۔ پھر حکومت تبدیل کی گئی

نئے پاکستان میں عظمیٰ بخاری پر مرد پولیس اہل کاروں کے ذریعے جلوس کے دوران تشدد کیا گیا ، محترمہ مریم نواز کی پیشی کے موقع پر ان کی گاڑی پر فائرنگ اور پتھراؤ کیا گیا ، ان کے کمرے کا دروازہ توڑ کر لوگ داخل ہو گئے ، کیپٹن محمد صفدر پر حملے کئے گئے ۔بہت طویل تاریخ ہے ۔۔ چھوڑیئے ۔ ابھی چند دن پہلے کی بات کر لیتے ہیں ۔۔۔۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر حملہ کیا گیا ، سینیٹر محمد مصدق ملک کا گریبان پکڑا گیا ، محترمہ مریم اورنگ زیب کو لاتیں ماری گئیں اور ان کی چادر کھینچی گئی ، پروفیسر احسن اقبال کی طرف جوتا پھینکا گیا (پہلے جن کی طرف گولی بھی چلائی گئی تھی) ۔

کس کس بات کی مذمت کی جائے ۔ لیکن گزشتہ روز جب موجودہ حکومت کے بے شمار معاونین خصوصی میں شامل ایک شخص شہباز گل پر لوگوں نے سیاہی پھینکی ، جوتا اور انڈے پھینکے تو اس پر بھی دکھ ہؤا ۔ میں اس کی بھی مذمت کرتا ہوں کہ یہ فعل بھی شرم ناک تھا ۔ اس کے بعد شہباز گل نے میڈیا سے گفت گو میں جو زبان استعمال کی ، وہ انتہائی شرم ناک اور قابلِ مذمت ہے ۔ گلی محلے کا کوئی جاہل غنڈہ ایسی زبان استعمال کرتا تو اور بات تھی ، لیکن ایک ایسا شخص جو خود کو ڈاکٹر یا پروفیسر کہتا ہو اور وفاقی حکومت کا حصہ ہو ۔ ؟

دوسرے فریق پر کتنے حملے ہوئے جن میں سے صرف چند کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ۔۔۔۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی جواباً وہ زبان استعمال نہیں کی جو پروفیسر ڈاکٹر معاون خصوصی شہباز گل نے کی ۔ فرق تو یہاں بھی واضح ہؤا ۔ لیکن کرب ناک حقیقت یہ ہے کہ سیاست کو ذاتی حملوں اور گالیوں سے لبریز کرنے کی جو فصل گزشتہ چند سالوں میں بوئی گئی ۔۔ اندیشہ ہے کہ وہ لہلہانے لگی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ حالات کو نرمی سے قابو میں کیا جائے ، ورنہ شہباز گل سے شروع ہونے والے سلسلے کو مکافات عمل کی ابتدا سمجھنا پڑے گا ۔ ابھی وقت ہے کہ گالی کی بجائے گفت گو کا ڈول ڈالا جائے ۔ “این آر او نہیں دوں گا” والا بے بنیاد اور گھسا پٹا ڈائیلاگ بند کیا جائے ۔ آٹا چوروں ، چینی چوروں ، ادویات چوروں ، ماسک چوروں ، ٹیکس چوروں ، گیس چوروں اور پٹرول چوروں کی ساری رپورٹس آپ نے کوڑے دان میں چھپا دیں ۔۔۔۔ یعنی ان سب کو تو آپ نے این آر او دے دیا ۔۔ اور خود آپ کا اپنا بنی گالہ کا وسیع و عریض محل بھی ریگولائزڈ ہو گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیجیے ۔ سابقہ تلخ نوائیوں اور دشنام طرازی پر معذرت کا اظہار کیجیے ۔ معیشت اور سیاست کو ترقی و تہذیب کے راستے پر ڈالیے ۔ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply