پارلیمنٹ ہاؤس میں سِکھ رُکن کے انتخاب کی وجہ۔۔لیاقت علی

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی ملک کی کُل  آبادی کا 3 فی صد ہے۔ پنجاب میں مسیحی کمیونٹی آبادی کے اعتبار سے دوسری اقلیتوں کی نسبت اکثریت کی حامل ہے۔پنجاب کا شاید ہی کوئی ایسا شہر قصبہ اور گاؤں ہوگا جس میں مسیحی نہ رہتے ہوں۔ اسی طرح سندھ بالخصوص اندرون سندھ ہندوؤں بالخصوص دلت ہندوؤں کی آبادی دیگر اقلیتوں کی نسبت زیادہ ہے۔پارسی کمیونٹی کی آبادی گھٹتے گھٹتے اب چند سو افراد سے زیادہ نہیں ہے۔ کیلاش اور بہائیوں کی آبادی سینکڑوں میں ہے نہ کہ ہزاروں میں۔

قیام پاکستان سے پہلے سکھ کمیونٹی پنجاب کی کُل آبادی 15 فی صد تھی۔ ہرگاؤں ،شہر اور قصبے میں سکھ موجود تھے۔ تقسیم کے وقت پنجاب سکھ کمیونٹی سے خالی ہوگیا تھا۔سکھ کمیونٹی آبادی کے اعتبار سے ایک سروے ( 2010) کے مطابق 50،000   ہیں جب کہ ایک امریکی ادارے کے مطابق اعداد و شمار کے مطابق ان کی آبادی 20،000  کے قریب ہے۔پاکستانی سکھوں کی اکثریت خیبر پختون خوا  اورسابقہ قبائلی علاقوں میں بستی ہے۔ دوسری مذہبی اقلیتوں کی نسبت آبادی میں کم ہونے کے باوجود پاکستان کے  حقیقی حکمرانوں کے نزدیک سکھ کمیونٹی کی تزویراتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ آبادی میں کم ہونے کے باوجود سکھ کمیونٹی کو ریاستی ایوانوں میں بہت اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی اس اہمیت کو مختلف ریاستی اور حکومتی فورمز پر اجاگر کیا جاتا ہے بعض اوقات تو وہ پاکستانی ریاست کے پوسٹر بوائز بن جاتے ہیں۔

واہگہ بارڈر پر ہونے والی پریڈ میں ایک سکھ رینجر کو بہت اہمیت اورمقبولیت حاصل ہے۔ لاہور میں ایک وارڈن بھی سکھ تھا اور اسی طرح ایک سکھ جب کاکول اکیڈیمی سے کمیشن حاصل کرکے پاس آؤٹ ہوا تو اس کا بہت چرچا ہوا تھا اورپھر جب اس سکھ میجر کی شادی ہوئی تھی تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی بنفس نفیس اس شادی میں شریک ہوئے تھے۔

راتوں رات کرتار پور راہداری کی تیاری سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حقیقی حکمران سکھ فیکٹر کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ہمارے سکیورٹی اداروں کے نزدیک سکھوں کی کس قدر اہمیت اور وقعت ہے اس کا اندازہ ان کاموں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ سکھوں سے محبت دراصل ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بھارت دشمنی کے وسیع تر پراجیکٹ کا اہم جزو ہے۔

سکھوں کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں منتخب اداروں میں داخل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔ لاہور جہاں سکھوں  کے شاید دو ایک خاندان ہوں، وہاں سے سردار بشن سنگھ نامی سکھ کو لاہور ضلع کونسل کا رکن منتخب کرایا گیا تھا اور اس طرح اس کے بھائی سردار عطر سنگھ کو اندرون شہر سے یونین کونسل میں بطور کونسلر منتخب کرایا گیا تھا۔ یہ دونوں سکھ صاحبان پنجابی نہیں ہندکو بولنے والے تھے۔

2013 میں ن لیگ نے پنجاب اسمبلی سے ایک سکھ کو مخصوص اقلیتی نشست پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب کرایا تھا۔ پھر تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا  اسمبلی میں سردار سورن سنگھ کو منتخب کرایا تھا اور اب سردار سورن سنگھ جو قتل ہوگئے تھے کے بہنوئی سردار پردیپ سنگھ کو تحریک انصاف نے اقلیتی نشست پر سینٹ کا رکن منتخب کرایا  ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کی پارلیمٹ کے اپرہاؤس میں سکھ رکن کا انتخاب ہمارے سکیورٹی اپریٹس کی منشا کی تکمیل ہے۔سردار پردیپ سنگھ ہماری پارلیمنٹ میں پوسٹر بوائے کا رول کریں گے وہ اکثر و بیشتر بھارت کی سرکار کی مذمت کیا کریں گے اور ثابت کریں گے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو تمام آزادیاں اور حقوق حاصل ہیں اور ان کے منتخب کرانے کا یہی مقصد ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply