• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • مصنوعی ذہانت اور انسانی شعور کا موازنہ (پہلا حصہ)۔۔ملک شاہد

مصنوعی ذہانت اور انسانی شعور کا موازنہ (پہلا حصہ)۔۔ملک شاہد

انسان بھی بہت عجیب ہے۔ پہلے ایک چیز ایجاد کرتا ہے، اسے ترقی دیتا ہے، ترمیم و اضافہ جات کر کے اسے خوب سے خوب تر بناتا ہے، ترقی دیتے دیتے ایک غیر معمولی مقام تک پہنچا دیتا ہے، اور پھر خود ہی اپنی اس ایجاد سے خوفزدہ ہونے لگتا ہے۔ آج ہم اپنی لیبارٹریوں میں فولاد اور سیلیکان پر مشتمل ذہین مشینیں بنا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مشینیں انسان کے تابع ہی رہیں گی؟ یہ انسان کو اپنا غلام تو نہیں بنا لیں گی؟ یہ سوال طویل عرصے سے مصنوعی ذہانت کے ماہرین کو پریشان کئے ہوئے ہے کہ انسان اپنی ہی بنائی ہوئی مشینوں کا غلام تو نہیں بن جائے گا؟

کہنے کو تو مشینی یا مصنوعی ذہانت اپنے آپ میں کمپیوٹر سائنس ہی کا ایک ذیلی شعبہ ہے جس نے گزشتہ ساٹھ سال کے دوران بالعموم اور پچھلے بیس سال میں بالخصوص بہت ترقی کر لی ہے، لیکن آج اس سے کم و بیش ہر میدان ہی میں استفادہ کیا جا رہا ہے۔ گوگل کا “پیج رینک” الگورتھم ہو یا پھر مشینی ترجمے میں شماریاتی تکنیکوں کا استعمال، املا اور جملوں میں خود کار طور پر درستگی کرنے والے ورڈ پروسیسر ہوں یا پھر لیپ ٹاپ/ ٹیبلٹ/ اسمارٹ فون کا پاور منیجمنٹ سسٹم، ذہین مائیکرو ویو اوون ہو یا طیارے کا آٹو پائلٹ سسٹم، آواز سن کر حکم بجا لانے والا سافٹ وئیر ہو یا پھر چہرے از خود شناخت کرنے والا نظام، یہ سب کے سب مصنوعی ذہانت ہی کی مثالیں ہیں۔

مصنوعی ذہانت جس تیزی سے ترقی کرتی جا رہی ہے، اور جس انداز سے ہمارے روز مرہ معمولات میں دخیل ہوتی جا رہی ہے، اسے دیکھ کر “صارفانہ مزاج ” رکھنے والے افراد بہت خوش ہوتے ہیں ، کیونکہ انسان کی فطری سہل پسندی ، دراصل ٹیکنالوجی کی ترقی پر سوار ہے اور ہر روز ایک نئی بلندی سے روشناس ہو رہی ہے۔ البتہ ترقی کی اس لہر سے ہر کوئی خوش نہیں۔ کچھ افراد کو اسی ترقی میں انسانیت کے لئے خدشات و خطرات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں “اسپیس ایکس” کے بانی ایلون مسک اور مشہور طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ کا نام سر فہرست ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ آئندہ چند عشروں میں مصنوعی ذہانت کے میدان میں خوب ترقی ہو گی اور انسان اس ترقی سے مستفید ہو تا رہے گا۔ البتہ اصل خطرہ اس کے بعد آئے گا کیونکہ اس ترقی کے نتیجے میں وہ مرحلہ بھی آ جائے گا جب “سپر انٹیلی جنس” کا ظہور ہو گا۔۔ یعنی کمپیوٹر، انسان کے لئے خطرہ بننے لگے گا۔ ایک مکمل اور بھرپور قسم کی مصنوعی ذہانت، جو صحیح معنوں میں انسانی ذہانت کے ہم پلہ ہو، پوری کی پوری انسانیت کے خاتمے کا اعلان ہو گی۔

نیویارک ٹائمزنے ایک بار اپنے اخبار میں یہ شہ سرخی لگائی،” سائنسدان پریشان ہیں کہ شاید مشینیں انسانوں پر غلبہ پا لیں گی۔” اس شہ سرخی کی وجہ 2009 میں مصنوعی ذہانت کے موضوع پر ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی، جس میں دنیا بھر سے مصنوعی ذہانت کے تصور پر کام کرنے والے چوٹی کے ماہرین کو مدعو کیا گیا تھا۔اس کانفرنس کا مقصد صرف اسی بات پر ڈسکس کرنا تھا کہ اگر مشینوں نے زمین پر قبضہ کر لیا تو کیا ہو گا؟

روبوٹک انقلاب کے دعوے دار ماہرین کی طرف سے اس کی مثالیں پیش کی گئیں یعنی حملہ آور ڈرون طیارے، خود کار گاڑیاں اور “ایسیمو روبوٹ” (ASIMO) جیسی ذہین مشینیں مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ اسی سال ہالی وڈ نے اس منظر نامے میں مزید رنگ آمیزی کرتے ہوئے “Terminator Salvation “نامی مووی بھی ریلیز کر دی جس میں دکھایا گیا کہ مکینکل روبوٹس بالآخر زمین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح “Transformers” نامی مووی سیریز میں بھی کچھ ایسا ہی منظر نامہ پیش کیا گیا کہ مستقبل میں دوسرے سیاروں سے آنے والے ذہین روبوٹس، انسانوں کو اپنے مہرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس زمین کو میدان جنگ بنا دیتے ہیں۔ پھر “Surrogates” جیسی مووی میں یہ دکھایا گیا کہ لوگ “سپر ہیومن” روبوٹ کی طرح ہمیشہ جوان اور خوبصورت رہتے ہوئے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ شہ سرخی اور مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹ والی فلموں کا تجزیہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسانوں کا اختتام بس آیا ہی چاہتاہے۔ مصنوعی ذہانت کے پنڈت بہت سنجیدگی کے ساتھ یہ منظر نامہ پیش کررہے ہیں کہ کسی دن ہم انسان پنجروں میں قید ہوں گے اور روبوٹ جیسی کوئی مخلوق ہمارے سامنے مونگ پھلیاں پھینک رہی ہو گی، کہ جیسے ہم چڑیا گھر میں بندر کے ساتھ کرتے ہیں۔

تاہم اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ایسا کچھ بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ یقیناََ گزشتہ چند عشروں میں اس میدان میں بہت پیش رفت ہوئی ہے، لیکن بہرحال اسے ایک وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ 27 فٹ جسامت کا جوحملہ آور ڈرون طیارہ انتہائی بلندی پر جا کر دشمن پر مہلک میزائل داغتا ہے، اسے زمین پر بیٹھا ہوا یک انسان ہی کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ ایک عام سی جسامت کا انسان، ایک آرام دہ کرسی پر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر حملے کےہدف کا انتخاب کرتا ہے اورہدایات جاری کرتا ہے۔ نیز وہ کاریں جو ڈرائیور کے بغیر سڑک پر دوڑ رہی ہوتی ہیں، وہ بھی محض اپنی مرضی سے فیصلے نہیں کر رہی ہوتیں ، اور نہ خود اسٹیرنگ گھما رہی ہوتی ہیں۔ وہ تو بس اپنے مرکزی سسٹم میں موجود GPS سسٹم کے تحت چل رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ مکمل طور پر خودکار، باشعور اور مہلک قسم کے بھوت نما روبوٹ کا تصور ابھی بہت دور ہے۔

اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ میڈیا کسی بھی سائنسی پیش رفت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ تاہم جب مصنوعی ذہانت کے میدان میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کسی سنجیدہ سائنسدان سے یہ سوال پوچھا جائے کہ مشینیں کب تک ہماری طرح ذہین ہو سکیں گی؟ تو وہ ماہرین بہت محتاط انداز میں تخمینہ لگاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ ترقی آئندہ 100 سے 500 سال کے درمیان ممکن ہے۔

سب سے پہلے ہمیں روبوٹس کو دو اہم اقسام میں تقسیم کرنا ہو گا۔ پہلی قسم وہ ہے جس میں روبوٹ کسی انسان کے ذریعے ریموٹ کنٹرول سے آپریٹ کئے جاتے ہیں، یا ان میں کوئی پروگرام فیڈ ہوتا ہے اور وہ ان ہدایات کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتے ہیں۔ ایسے روبوٹ بہت عرصے سے ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ یہ آہستگی کے ساتھ ہمارے ماحول اور میدان جنگ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، لیکن انسانی رہنمائی یا ہدایات کی غیر موجودگی میں، یہ محض لوہے کے ڈھانچوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں دوسری قسم کے روبوٹس ہیں جو واقعی خودکار ہوں، اپنے لیے خود سوچ سکیں اور انھیں فیصلے کرنے کے لئے انسانی ہدایات کی ضرورت نہ ہو۔ ایسے خود کار اور ذہین روبوٹس کی تیاری نے ہی انسانوں کو گزشتہ نصف صدی سے پاگل کیا ہوا ہے۔

ایک بنیادی مسئلہ جسے اب ریاضی دان محسوس کرنے لگے ہیں، یہ ہے کہ سابقہ لوگوں سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے دماغ کو بھی کسی ڈیجیٹل کمپیوٹر کی طرح سمجھ لیا تھا۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ دماغ میں کوئی پینٹئم چپ نہیں ہے، نہ کوئی آپریٹنگ سسٹم ہے، نہ کوئی ایپلیکیشن سسٹم ہے، نہ کوئی سی پی یو ہےاور نہ ہی کوئی پروگرامنگ ہے۔ ڈیجیٹل کمپیوٹر کی ساخت، دماغ کی ساخت سے بالکل مختلف ہے۔ دماغ ایک طرح سے سیکھنے والی مشین ہے اور ایسے نیورانز کا مجموعہ ہے جو ہر نئی چیز سیکھنے کے بعد اپنا تانا بانا دوبارہ بُنتے ہیں (یعنی اپنی ری وائرنگ کرتے ہیں)، جبکہ ایک پرسنل کمپیوٹر بالکل نہیں سیکھتا۔

ڈیجیٹل کمپیوٹر ایک طرح کی ٹیورنگ (Turing) مشین ہےجو کہ ایک فرضی ڈیوائس ہے اور برطانوی ریاضی دان ایلن ٹیورنگ نے متعارف کرائی تھی۔ ٹیورنگ مشین کے تین بنیادی اجزا ہوتے ہیں۔ پہلا ان پٹ، دوسرا سنٹرل پروسیسر جو اس ڈیٹا کو ہضم کرتا ہے اور تیسرا آئوٹ پٹ۔ تمام ڈیجیٹل کمہیوٹر انھی تین سادہ اصولوں پر کام کرتے ہیں۔ اس اپروچ کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک سافٹ وئیر تیار کیاجائے جس میں ذہانت کے تمام اصول فیڈ شدہ ہوں۔ اس سافٹ وئیر کو کمپیوٹر میں داخل کرنے سے کمپیوٹر میں زندگی آ جاتی ہے اور وہ ذہین ہو جاتا ہے۔

جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارا دماغ کسی قسم کی پروگرامنگ یا سافٹ وئیر کا محتاج نہیں ہے۔ ہمارا دماغ ایک طرح کا “نیورل نیٹ ورک ہے” ہے، یعنی نیورانز کا ایک گنجلک مجموعہ جو اپنے آپ کو مسلسل ری وائر کرتا رہتا ہے۔ ہر مرتبہ جب ایک درست فیصلہ کیا جاتا ہے، تو نیورل راستے کو تقویت پہنچتی ہے اور وہ مزید بہتر ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے یہ نیورانز کے درمیان موجود مخصوص الیکٹرک سرکٹس کی مضبوطی کو بار بار تبدیل کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ نیٹ ورک کسی ٹاسک کو کامیابی سے مکمل نہ کر لے۔ اس کی کامیابی کا ایک ہی اصول ہے۔ مشق، مشق اور مزید مشق۔ ایک نیورل نیٹ ورک کو مشق سے ہی پرفیکشن حاصل ہوتی ہے۔ اس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ عادتوں کو ترک کرنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بری عادتوں کا نیورل پاتھ وے بہت مضبوطی سے بُنا ہوا ہوتا ہے۔

نیورل نیٹ ورک “نامعلوم سے معلوم کی طرف ” (bottom-up) کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس اصول کے تحت، ذہانت کے تمام اصولوں کو ایک ہی بار انڈیلنے کی بجائے، نیورل نیٹ ورک انھیں ایک بچے کی طرح سیکھتے ہیں، یعنی چیزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور تجربات سے سیکھنا۔ مزید یہ کہ نیورل نیٹ ورک، ڈیجیٹل کمپیوٹر کی نسبت بہت مختلف ساخت رکھتے ہیں۔ اگر آپ کسی ڈیجیٹل کمپیوٹر کے سنٹرل پروسیسر سے محض ایک ٹرانسسٹر نکال لیں تو کمپیوٹر کام کرنا چھوڑ دے گا۔ تاہم اگر آپ انسانی دماغ میں سے ایک بڑا ٹکڑا بھی نکال لیں تو یہ پھر بھی کام کرتا رہے گا، کیونکہ دیگر حصے اس کی جگہ لے لیں گے۔ نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ڈیجیٹل کمپیوٹر کی تمام تر ذہانت اس کے سنٹرل پروسیسر میں ہوتی ہے جبکہ انسانی دماغ کے سکین اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ سوچنے کا عمل دماغ کے کئی حصوں میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ آخری اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل کمپیوٹر نا قابل یقین رفتار، یعنی تقریباََ روشنی کی رفتار سے حسابات کا عمل سر انجام دیتے ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں انسانی دماغ بہت زیادہ سست ہے۔ عصبی جھماکے محض 200 میل فی گھنٹہ کی سست رفتار سے سفر کرتے ہیں۔ لیکن دماغ اپنے تمام افعال اس قدر تیزی سے اس لیے سر انجام دے لیتا ہے ، کیونکہ یہ بالکل متوازی کام کرتا ہے۔ یعنی اس کے 100ارب نیورانز بیک وقت کام کرتے ہیں، جن میں سے ہر ایک نیوران کچھ نہ کچھ عمل سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ پھر ہر نیوران 10 ہزار دیگر نیورانز کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ اس لیے ایک سپر فاسٹ سنگل پروسیسر، ایک انتہائی سست متوازی پروسیسر کے مقابلے میں شکست کھا جاتا ہے۔ اس کو ایک بچگانہ مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بلی ایک چوہے کو ایک منٹ میں کھاتی ہے تو ایک لاکھ بلیاں ایک لاکھ چوہوں کو کتنی دیر میں کھائیں گی؟ جواب: ایک منٹ میں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ملک شاہد
ملک محمد شاہد موبائل: 03007730338 اعزازی مدیر ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی۔۔ اعزازی قلمی معاون : سہ ماہی اردو سائنس میگزین ، لاہور مصنف: 100عظیم سائنسی دریافتیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply