موٹر وے حادثہ،ظاہر جعفر ،لبرلازم اور بیڈ گورننس(2)۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ظاہر اور نور مقم کیس کی جزئیات کلیات اور محرکات:

کچھ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مقتولہ نور مقدم لاہور ریپ کیس سے لیکر اکثر نسائیت زدہ ڈیبیٹ کے مظاہروں اور مکالموں میں بھی شریک رہی ہے،کچھ کا یہ   بھی کہنا ہے نہیں بھئی  وہ کافی مذہبی رجحانات بھی رکھتی تھی،جیسا کہ اسکی ایک آئر لینڈ کی دوست کا کہنا ہے کہ وہ ظاہر جعفر کے ساتھ رشتہ و تعلقات میں تھی مگر ،اسکے سبب پریشان بھی تھی اور اس امر پر وہ اپنے والدین سے بھی گفتگو کرنے سے پرہیز کرتی تھی،اتنا طے ہے ذاتی تعلقات سے تربیت تک اور پاکستان کی داخلی سماجی حالت اور اقدار نے اسے کافی مخمصہ  و ذہنی خلجان  کی کیفیت میں ڈالا ہوا تھا۔اوپر  سے سونے پر سہاگہ ظاہر جعفر سے اسکے تعلقات،بریک اپ،پھر بار بار ٹوٹ کر بنتے بگڑتے تعلقات ،ظاہر کی ذہنی حالت،جذباتیت،سادیت پسندی،نفسیاتی خلجان و کمزوری اسے کافی پریشان و مضطرب کئے ہوئے تھے۔

اگر بات عورت مارچ کے تناظر میں درست ہے اور   جعفر کی جدیدیت اور وجودی کمزوریاں اس قسم کے ڈسکورس میں ان لوگوں کے لئے کوئی مستقبل کے تناظر میں اچھی نوید نہیں دیتی ہے لہذا درحقیقت   جعفر جیسے لوگ،جدید کارپوریٹ جمہوریت کی پیداوار ہوتے ہیں ، جسکی جڑیں مارکیٹ سے ایوان اقتدار تک محیط ہوتی ہوتی ہیں جو دولت سے پیدا ہوکر دولت سے اخذ شہ طاقت،لذت،کام اور جنس کے دائرے میں تیرنے کے ساتھ ساتھ،ہالی ووڈ اور نیٹ فلکس سے پب جی گیم کی گرفت سے ہوتے ہوئے جب روز مرہ کی حیات میں تعلقات و روابط کے دائرے میں آتے ہیں تو گولی مارنے سے گیم کی طرح تلوار مار کر گردن اتارنے تک سب کچھ انھیں ورچول ماحول جیسی حالت کی گرفت میں لئے رکھتا ہے،اور ایسا تجربہ شدہ ماحول اور اسکے متاثرہ تجربہ شدہ فرد کے ساتھ روابط بنایا سیدھا سادھا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر  عمل تصور کیا جانا چاہئے،جسکی بابت ایک آزمودہ محاورہ رایج ہے کہ آ بیل مجھےمار۔

جعفر کی خوش فہمی اور امریکی ٹھینگا:

بشری انصاری صاحبہ نے شاید  اپنی ڈھکی چھپی نسائیت کی روشنی میں  عدنان ملہی جیسے غریب شوقین مفت خور لٹیرے اور امیر کبیر  ظاہر جعفر کی بابت ہی   فرمایا تھا کہ  انھیں نا مرد بنادیا جائے تو اچھا ہوگا،خیر یہاں دونوں میں ایک  ایک فرق موجود ہے کہ نسبتاً اور مقابلتا ً ً ملہی ایک  غریب لٹیرا ہے جو  موٹر وے میں اوّل لوٹنے آیا تھا اور   آخر میں بھی  خاتون کی دولت اور عزت ہی لوٹ کر  گیا تھا  ،مگر جرم چھپانے کے لئے اس نے بہرحال متاثرہ عورت کو مارنے اور قتل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ شاید  اسے اپنی سماجی و مالی  کمزوری اور حدود معلوم تھیں،مگر امریکن نیشنل آزمایا ہوا،ذہنی طور پر کمزور ،جدت پسند،آزاد خیال فرد  ظاہر جعفر نے جرم سے قبل اپنے سماجی اور مالی رتبہ و تعلقات کے تناظر میں کوئی جرم کے عمل میں لانے سے قبل کوئی علمی تیاری نہیں کی تھی جبھی سنی سنائی غلط فہمی سے پیدا شدہ جذباتیت میں  ڈوب کر اس  ذہنی و نفسیاتی مغلوب الحال  فرد نے نور کو مارنے سے قبل امریکہ کاٹکٹ پکڑا ،مگر گیا نہیں کیونکہ اسے لگا کانٹریکٹر والے ڈیوڈ کی طرح وہ بھی امریکی شہری کے طور پر بچ جائیگا، چنانچہ اس نے نور کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی ،مگر امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ،امریکی شہریوں پر مقامی مملکتی قانون جس سرزمیں پر وہ موجود ہوں رائج ہوگا سفارت خانہ اسے بس وکیل فراہم کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔

ظاہر  ہے کہ  یہ ظاہر اوّل ایک  پاکستانی ہے بعد میں  امریکن ہے جبکہ ڈیوڈسرتاپا امریکی  نیشنل ہے ،یوں امریکہ نے دونوں میں کسی قسم کے مساویانہ  انصاف کرنے سے انکار کردیا ہے ویسے بھی لبرل آزادی کے ڈسکورس کا خاص کلیہ ہے آپ ہر امر میں آزاد ہو مگر دوسرے کی نجی آذادی میں مداخلت نہ کرنے کی حد تک،یہاں اس نے نور کی آزادی کو اپنے تابع کرکے اسکی روحی آزادی کا اختتام پب جی گیم کے سین کی طرح کردیا تھا ،چنانچہ یہاں معاملہ کی نوعیت عثمان مرزا کی کہانی اور ملہی کی بالات کاریت سے الگ رخ اختیار کرگئی ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کے نور کے ساتھ جو کھیل تماشا لگا رکھا تھا وہ امیر گھرانے کے فرد کی اپنی گرل فرینڈ کو اپنا بکاؤ مال سمجھنے کی طرح  کا کٹھ پتلی  تماشا  تھا،یہاں ایک جدید فرد کے وجود سے لاشعور سے پیدا ہونے والی وہ روایتی سوچ ابھر آئی تھی کہ یہ بس میری ہے میری ہے اور میرے علاوہ کسی کی ہو نہیں سکتی ہے،اور میرے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا     بھی نہیں   سکتی ہے ،نہ کہہ سکتی ہے اور نہ  اس سےشادی کرسکتی ہے، آپ غور کریں نور کی عمر ۲۷ سال تھی ظاہر بھی اس سے  عمر  میں کچھ  بڑا ہوگا دونوں کو تعلقات سے سماجیات تک،اور دولت تک کوئی مجبوری لاحق  نہیں تھی، آٹھ سال سے ایک دوسرے کو جاننے کے باوجود اور آخری تین سالوں میں تعلقات ٹوٹنے اور دوبارہ صحیح ہونے تک دونوں نے شادی نہیں کی تھی،اس میں شاید ظاہر کی ذہنی حالت اور تغیر شدہ ذہنی کمزوری اور  وارادات قلبی  کارفرما  تھی،جسکو دیکھتے ہوئے کوئی عقلمند عورت اس کو کم از کم اپنا جیون ساتھی نہیں بنا سکتی تھی،سوائے اسکے جسے اعلیٰ  معاشرت،تمدن،سماجیات اور لائف  سٹائل سے لینا دینا تھا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے فرد ظاہر میں نارمل  فرد لگتے ہیں،مگر اپنی نجی حیات میں انکے ساتھی اور مشاہد کار انکی قلبی،ذہنی،اور جذباتی کمزوریوں سے  بخوبی واقف ہوتے ہیں،اور جب تک کوئی حادثہ امر عیاں نہ  کردے لب کھولنے سے پرہیز کرتے ہیں،ایک منشیات زدہ فرد بہت حد تک  جنس کا قبل از سوچ آلہ کار بن جاتا ہے اسکی لذتی نشیت اسکے کام اور جنس کے بندھن کے سکون میں بدل کر اسکی وجودی کمزوریوں کی متغیر فہرست کی تشکیل بندی کرنے کا سبب بن جاتی ہے،کراچی کے گٹر سے فٹ پاتھ اور پیڈیسٹیرین برج سے کاروں کی چوری شدہ بیٹریوں تک نشئی حضرات  اپنے کارنامے دکھاتے ،اور قوت دکھاتے نظر آتے ہیں،مزاروں پر یہ الف ننگے دیکھنے کو ملتے ہیں،ان سے یہ کام اور کل شہر کو ننگا کروانا ایک نشہ کی پڑیا کرواتی ہے۔

ظاہر کو نہ  جنس کی کمی تھی اور نہ  نشے  کی ،جب ہی ظاہر کی نشئی غریب کے مقابل کوئی حدود نہیں تھیں،اسےقانون سے انسان تک خریدنے کا شاید ذاتی تجربہ تھا جب ہی اس نے پاکستان کی تاریخ میں طبقہ اشرافیہ کے درون خانہ نجی جرائم کی مبادیات میں ایک اشتہا پسند ،تشدد آمیز خون  آشام کھیل کھیل کر وائکنگ یا گیمز آف تھرون کے کسی منظر کی نقل کرنے میں نور کی حیات کا نور بجھادیا    اور جنسی تشدد اور خون آ شامی کا نیا معیار قائم  کیا،جدید معاشرے کی آزاد لڑکی کو ایک نیا درس دیا کہ تعلقات قائم کرنے سے قبل ساتھی کی ذہنی حالت،کردار اور سوچ کو بھی مد نظر رکھے ورنہ  جنسی سادیت ایسی نرگسیت کو جنم دیتی ہے، جہاں  ذاتی اقدار اور رجحانات کل تعلقات کی مبادیات اور تفہیم کو بدل سکتے ہیں۔

مغرب کے کچھ پوشیدہ فنی  رخ:

یہاں  ان حادثات سے نمٹنے کے لئے خاندانی تربیت،کنٹرولڈ آزادی کی ریاست اور سماجی ہر سطح پر ضرورت ہے، آج آزادی کا ڈسکورس زیر بحث لانے والے اپنے ماحول گرد و اطراف،مذہب،خاندان سب کو فرموش کرکے ایک ایسے متروک فلسفہ کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جو خود ویسٹ میں  ترک کیا جارہا ہے، لبرلازم کو پوسٹ لبرلازم نے، مازرن ازم کو پوسٹ ماڈرن ازم نے ، یا تو رد کردیا ہے یا ان  کے کلاسیکل موقف میں تبدیلی پیدا کردی ہے،چنانچہ 9/11   کے بعد ریاستوں کی عوامی آزادی کی حدود میں مداخلت اور حد بندی کا رجحان امریکہ سے یورپ  تک دیکھنے کو مل رہا ہے، فوکویاما کا تاریخ کا اختتام کا کلیہ غلط ثابت ہوگیا ہے، چین اور روس واپس آچکے ہیں ،اور امریکہ انکے نقش قدم پر اپنی بقا کی جنگ میں مشغول ہے،افغانستان سے اس نے اپنے مالی خسارے میں کمی پیدا کرنے،تھوڑا آرام کرنے اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے نو سامراجی طریقوں سے حکومت کرنے کے لئے چھٹی لے لی ہے۔ اب یہ سیاسی  کھیل تماشا سرمایہ کاری اور ذہنی غلامیت کے لئے بلواسطہ  معاشرتی غارت گروں(ای۔ایچ۔ایم) کے ذریعہ پرائیوٹ فرموں کو دے دیا گیا ہے ،اور وہ  ملکی سرمایہ کاری سے قبل  وہاں  موجود  عوام کی ذہن سازی پر سرمایہ کاری کرتی نظر آتی ہیں جبکہ بجلی،صحت ،تعلیم اور توانائی جیسے دیگر پراجیکٹ اس ذہن سازی کے بعد نمودار ہوتے ہیں یوں  ،ترقی کا معیار قائم کرکے یہ سرمایہ دار ادارے دوسرے ملک وسائل ادارے،اور حکومت نسل در نسل کے لئے خرید لیتے ہیں ۔

چنانچہ دیکھو کہ امریکہ میں اسلحہ رکھنے کا حق والی آئینی شق کل امریکہ کو لامحدود ذاتی اسلحہ کا ایسا جنگل بنواچکی ہے کہ امریکہ میں زنا بالجبر،اکثر   اوقات زنا بالرضا کی کوکھ سے ہی پیدا ہوتے ہیں،شکاگو،میامی ،ہوائی وغیرہ میں  عورتوں پر حملے،چوری چکاری،لوٹ مار کا جو طوفان برپا ہے اسکے سبب لوگ رات کو اکیلے نکلنے سے ڈرتے ہیں،کالے افریقی اگر رات کو کسی کو مار دیں لوٹ لیں،تو پولیس صبح تک انکے علاقوں میں جانے سے پرہیز کرتی ہے کہیں نسلی مسئلہ نہ  ابھر آئے،جب ہی خارجیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ زیادہ رقم لیکر باہر نہ  نکلیں اور رات کو نکلیں تو کچھ ڈالر سامنے کی جیب میں رکھ لیں جو مطالبہ پر فوراً  پیش کردیں،تاکہ زد وکوب  اور  موت تک سے بچا جاسکے،ایسا ہی معاملہ پاکستان بالخصوص کراچی وغیرہ میں اسٹریٹ کرائم میں دیکھنے کو ملتا ہے ،جبھی یہ کہنا کہ حیا نظر میں ہو ،دوپٹہ میں نہ  ہو،یا لوگ برقع میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتے ہیں،یہ کوئی تیر بہ ہدف ہارڈ اور فاسٹ  اعتراضاتی کلیہ جات  نہیں ہیں،چھپی چیز تاریکی سے ابتک ظاہر سے باطن تک ظاہر کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوتی ہے،اگر یہ کلیہ نہ  ہوتا تو لوگ گھر بنا کر نہ رہتے،چوکیدار نہ  رکھتے،باڈی گاڑد نہ  رکھتے،بینک میں رقوم محفوظ نہ  رکھتے،؟آپ رات کو آئی فون لیکر ایک ہفتہ لوٹ مار کی مشہور جگہوں پر لیکر ٹہلنے کو نکل جائیں ایک ہفتہ نہیں ایک دن  میں اس سے محروم ہوجائینگے،یہ بات یاد رکھیں کہ  انسان ایک متغیر جذبات اور احساسات سے پُر   ایسی  مخلوق ہے جسکی بابت کوئی حتمی دعوی کسی کنٹرولڈ نفسیاتی تحقیق اور علم بشریات کی قیاس آرائیوں کے دم پر کرنا ممکن نہیں ہے ،انھیں بس ریاستی و سماجی تحدید سے قابو میں کیا جاسکتا ہے ختم کرنا ممکن نہیں ہے،کیونکہ جنس اور تعلق کی نفسیات اتنی متغیر اور منفرد نوعیت کی رجحانیت سے پُر ہوتی ہیں کہ انکی بابت حرف آخر کہنا ناممکن ہے،باقی چھپانے والی منطقیت  ان لوگوں کے لئے قابل قبول ہے،جو وحی پر ایمان رکھتے ہیں جو اللہ اور رسول ؐ کے حکم کو حرف آخر مانتے ہیں جیسے لبرلز اشتہا،خواہش،نفس اور آزادی کی اقدار پر ایمان رکھتے ہیں اس طرٖح وہ مذکورہ بالا ماخذات کی اولیت کے قائل ہوتے ہیں،اب جو اسلام اور وحی کے  بالا تر  ہونے کا    قائل نہیں ہے وہ جو چاہے کرتے پھرے  بس اسلام سے اپنا ناطہ توڑ دیں کیونکہ علیماتی غداری بہرحال مکروہ شے  ہوتی ہےجب ہی  جنسی معاملات جبلت،اشتہا اور  خواہش پر استوار ہوتے ہیں اور انکا وقت کوئی چوبیس گھنٹے نہیں رہتا ہے ہر فرد میں یہ جسمانی ،نسلی اور ماحولی بنیاد پر الگ الگ مقدار اور ترغیبات کے لحاط سے متنوع ہوتے ہیں  ،ہر ایک اُن متحرک اور بدلنے والی انفرادیت پر استوار ہیں  کہ  انھیں  بس تربیت و قانون سے کم کرنا ممکن ہے ویکسینیٹیڈ کرنا ناممکن ہے۔

مجرم مذہبی دلائل اور نصوص کی روشنی میں اپنا جواز نا ثابت کرتے ہیں اور نہ  ایسا سوچتے ہیں:

لبرلز کی جانب سے  بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ زنا بالجبر سے متعلق مذہبی سزاؤں  پر تنقید شروع ہوگئی ہے، اوّل تو اس معاملہ کا مذہب سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ملزم اور متاثرہ لوگ اس بحث میں شرعی سزاؤں اور انصاف  کا ذہن میں کوئی تصور رکھتے ہیں ، اور نہ  ہی   یہ حادثات موٹر وے سے اسلام آباد تک وہاں سے نور کیس تک کسی  شرعی سماج میں نمودار ہونے والے  واقعات ہیں،یہ بلا تحدید آذادی پر یقین رکھنے والے متنوع افراد کی حیات سے وابستہ مختلف نوعیت کے خون آشام واقعات ہیں ،کسی کا جسمانی خون ہوا اور کسی کی روح کو دن دیہاڑے بھنبھوڑ کر رکھ دیا گیا،اور وحشت دن دیہاڑے ناچتی رہی ۔ تنازعات اور انحرافات کی کچھ پر تشدد شکلیں ہوتی ہیں اور کچھ مضحکہ خیز اور عامیانہ ساخت ،ہیتیں اور کیفیتیں ہوتی ہیں جیسے ۳ اگست ۔۲۰۲۱ میں ایک لڑکے اور لڑکی نے نیم برہنہ لباس میں فحش انداز  میں  اسلام آباد میں  مسٹر جناح کے مجسمہ اور اقوال زرین کو پس منظر بناتے ہوئے  سوچا بابا  نے کہا تھا تم کو آزادی ہے تم اپنے مندر،اور مسجد میں جیسے چاہو جاؤ،ان دونوں کو لگا انکا دل بھی ایک مندر ہے خواہش وہیں جنم لیتی ہے چنانچہ لگے ہاتھوں وہاں ایسے انداز سے تصاویر وائرل کیں حسِ مزاح سے حسِ حسن و نزاکت تک پامال ہوگئے  انکا خون ہوگیا اور حسن و خوبصورتی،موزونیت  دن دیہاڑۓ مارے گئے،اسلام آباد کی ریاست مدینہ میں ایسے بیش قیمت جواہر پارے اس سال کثرت سے نمودار ہوئے ہیں ۔

،یہ نہ  ہی کسی اسلامی ریاست میں وقوع پذیر ہوتے  حادثات ہیں،  بلکہ  موٹر وے سے ظاہر تک کے یہ کارنامے اور نور کے ساتھ ہونے والا ظلم و بربریت یہ ایک ایسی  نام نہاد مسلمان ریاست کے آئینہ دار واقعات ہیں جہاں ہر ایک اپنی مرضی کرنے  میں آزاد ہے، یعنی یہ ایک انفرادی حتمی کامل آزادی کے استعمال پر یقین رکھتی قوم کا واقعہ ہے، جو بھول جاتی ہے کہ ویسٹرن ڈسکورس آزادی کو  فرائض کی بجا آوری سے منسلک کرکے حقوق دیتا ہے،مفت میں نہ  کبھی کچھ ویسٹ میں ملتا ہے اور نہ  ریاست کسی فرد کو مطلق آزدی دیتی ہے جب ہی آج وہاں انفرادی حقوق کا دائرہ محدود ہورہا ہے اور ریاستی اختیار میں قانونی وسعت پیدا ہورہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply